دلوں کے مسیحا
(Prof Abdullah Bhatti, Lahore)
شدید سردی میں بارش کی بو ندا باندی مسلسل جاری تھی میں
کرہ ارضی کی عظیم ترین روحانی خانقاہ سلسلہ چشتیہ کے عظیم ترین بزرگ حضرت
فرید الدین گنج شکر ؒ کے مزار پرانوار کے ایسے گوشے میں کھڑا تھا جہاں پر
میری نظر وں کے عین سامنے بزم تصوف کے ایک بلند پایہ جذب و سکر جلال کے
پتلے مخدوم علی احمد صابر ؒ کا حجرہ خاص تھا حجرہ مبارک کے ساتھ قوال اپنی
پر سوز آواز سے فضاؤں کو روحانی کیف سرور مستی سرشاری بخش رہا تھا قوال کی
پر سوز آواز ہمنواؤں کا ساتھ اورطبلے کی آواز آسمان پر گہرے سیاہ بادلوں کا
رقص اور چاندی کی بوندا باندی میں اپنی پسندیدہ ترین جگہ پرتھا پورا ماحول
بنا ہوا تھا میر ا جسم قلب و روح کیف انگیز لہروں میں غوطے زن تھا جب ایک
جوان بیٹی نے آکر میرے گھٹنوں کو احترام سے چھوا عقیدت سے سر شار میٹھے
لہجے میں بولی ’’ بابا جی سلام ‘‘ پھر آگے بڑھ گئی ‘جوان بیٹی کا جذبہ
عقیدت احترام دیکھ کر میری پلکیں بھیگ گئیں میں نے بابا جی ؒ کے مزار کی
طرف دیکھا اور میرے لبوں پر عقیدت کے پھول جھڑنے لگے اے مسیحا عظیم تو کیسا
میزبان ہے کیسا دلوں کا مسیحا ہے کہ میرے جیسے سیاہ کاروں گناہوں میں لتھڑے
ہوئے برائی کے پتلوں کو کیا عزت بخشتا ہے اپنی چوکھٹ پر بلا کر ہمارے گلوں
میں پھولوں کے ہار ریشمی چادریں پہنا کر ہمیں بھی معزز انسانوں میں شامل کر
دیا کہ عقیدت مند بیٹی ہمیں کوئی نیک بزرگ سمجھ کر سلام عقیدت پیش کر گئی
یہ مہمان نوازی صرف بڑے لوگ ہی کر سکتے ہیں ہم واقعی سلطانوں کے سلطان بابا
فرید ؒ کے در پر بھکاری بن کر آئے تھے لیکن آپ کی لجپالی بندہ نوازی کہ
لوگوں کے دلوں میں ہمارے لیے عقیدت کے چراغ روشن کر کے ہمیں قابل عزت بنا
دیا میں دلوں کے حقیقی تاجدار کی بندہ پروری پر سر شار شاداں کہ دنیاجہاں
سے آئے ہوئے دیوانوں پر وانوں کو کس عزت سے شان بخش رہا ہے صدیوں پر صدیاں
گزرتی چلی گئیں لیکن آپ کی شہرت دلنوازی محبوبیت میں کوئی فرق نہ آیا نہ ہی
آپ ؒ کی شان شہرت کا آفتاب غروب ہوا شدید ٹھنڈ مسلسل برسات میں بھی
بابافرید ؒ کا دامن ماں کی آغوش کی طرح آنے والوں کو اپنی پناہ میں لے رہا
تھا دیوانے موسم کی شدت بارش سے بے پروا ہ نذرانہ عقیدت پیش کر نے اپنے
باباجی ؒ کے در پر آئے ہوئے تھے ایسا دلوں کا حکمران جو صدیوں سے دلوں پر
حقیقی حکمرانی کر رہا تھا دنیا جہاں سے آئے ہوئے پروانے یہاں طواف کر نے
آئے ہوئے تھے میرے ساتھ آنے والے بھی عقیدت سے سرشار جھوم رہے تھے میرے
ساتھیوں میں کوہ مری کی سنگلاخ چٹانوں سے جلیل اختر عباسی اور حافظ محسن
پچھلے کئی مہینوں سے باباجی ؒ کے عشق میں گیلی لکڑی کی طرح سلگ سلگ کر یہاں
آئے تھے پچھلے کئی دنوں سے موسم خراب تھا لیکن یہ دونوں دیوانے شدید برف
باری تیز بارش آندھی طوفان کی پروا نہ کرتے ہوئے کئی گھنٹوں کا سفر کرنے کے
بعد لاہور مُجھ فقیر کے ساتھ شہنشاہ پاک پتن سلطانوں کے سلطان کی چوکھٹ پر
نذرانہ عقیدت و محبت پیش کرنے آئے تھے جس طرح اِن دو دیوانوں کو شدید برف
باری مسلسل بارش نہ روک سکی اِسی طرح باباجی ؒ کے دربار کے اطراف میں
دیوانے باباجی کا طواف کرتے نظر آرہے تھے آنے والے پروانے موسموں کی شدت
سردی گرمی آندھیوں سے آزاد ہو کر یہاں آکر اپنی عقیدت کا اظہار اور روحانی
پیاس بجھاتے ہیں جلیل اختر عباسی پچھلے کئی دنوں سے کال کر رہا تھا سر مجھے
بابا جی کے در پر لے جائیں ورنہ مجھے کچھ ہو جائے گا یہ عقیدت عشق محبت اﷲ
تعالی نے انسانوں کے دلوں میں ڈالی ہے آنے والے دیوانے دربار کے طواف اور
احاطے میں اپنی عقیدتوں کے لازوال مظاہرے کر رہے تھے میں اِس جگہ اور مٹی
کے ٹیلے کی قسمت پر رشک کر رہا تھا جب صدیوں پہلے بابا فریدجی ؒ دہلی کی
روحانی گدی چھوڑ کر اِس جنگل بیابان میں آتے ہیں صدیوں پہلے جب آپ ؒ کے
مرشد حضرت خواجہ قطب الدین کاکی ؒ کاوصال ہو تا ہے تو مرشد کریم ؒ کی وصیت
کے مطابق مرشد کا خرقہ مبارک عصا جائے نماز اور باقی نوادرات آپ کے حوالے
کر کے آپ کی تاج پا شی کر کے آپ کو مرشد کی گدی پر بٹھا دیا جاتا ہے تو چند
دن گذارنے کے بعد باباجی نے اعلان کیا کہ میں دہلی شہر کی رونقیں چھوڑ کر
پاک پتن جانا چاہتا ہو ں۔تاج شاہی کی سج دھج چھوڑ کر یہاں مٹی کے ٹیلے پر
گھانس پھونس کی کٹیا میں فقیر کی دنیا آباد کر لی یہ بابا فرید ؒ کی شان
تھی کہ دنیاجہاں کے دانشور اہل علم ہنر مند صوفیا تخت دہلی کی رونقیں سمیٹ
رہے تھے کہ یہ بوریا نشین خدمت خلق کے جذبے سے سر شار جہالت میں ڈوبے لوگوں
کی اصلاح کے لیے وہاں سے اپنا بوریا لپیٹ رہا تھا دنیا بھر کے لوگ تہذیب و
تمدن کے گہوارے شہر دہلی کی طرف آرہے تھے جبکہ یہ درویش بے مثال پاک پتن کے
اجاڑ کی طرف جا رہا تھا ایک طرف دہلی شہر کی رونقیں تھیں زندگی کے آرام
آسائشیں تھیں جبکہ دوسری طرف اجو دھن جہاں ویرانی تھی غربت تھی درندوں کے
غول تھے چوروں کے جتھے تھے فاقے غربت پریشانیاں تھیں یہ اعزاز صرف اولیاء
اﷲ کو ہی حاصل ہو تا ہے کہ وہ آباد شہروں کی بجائے ویران علاقوں کا رخ کرتے
ہیں یہ ہجوم بازاروں کی بجائے اجڑے دیار کو اپنا مسکن بناتے ہیں یہ بے نیاز
نفوس قدسیہ باادب با ملاحظہ کی صداؤں سے لطف نہیں اٹھاتے نہ ہی جہان ِ مرغ
و ماہی سے رغبت ہو تی ہے بلکہ یہ تو بھوکوں بھکاریوں کی مداوت کر کے خوش
ہوتے ہیں کیونکہ یہ باباجی جیسے ہی لوگ ہوتے ہیں جو مٹی کھا کر کافروں کو
مسلمان بناتے ہیں پروفیسر آرنلڈ نے اپنی مشہور کتاب The Preaching of Islam
میں کیا خوب کہاہے کہ پنجاب کے سولہ اکھڑ مزاج قوموں نے بابا صاحب ؒ کے
ہاتھ پر اسلام قبول کیا باباجی کے آنے سے پہلے یہاں درندوں اور چوروں کی
حکمرانی تھی لیکن باباجی ؒ کے آنے سے یہ گوشہ امن بھائی چارہ بن گیا کیا
ہندو کیا مسلمان مخلوق اِس درویش کے گرد پروانوں کی طرح امڈ آئی پھر اہل
دنیا نے وہ منظر بھی دیکھا دربار فریدی ؒ کے سامنے پاک پتن کے سامنے دہلی
کی رونقیں ماند پڑ گئیں باباصاحب ؒ کی خانقا ہ میں دنیا جہاں کے پروانے
قافلوں کی شکل میں آتے اور جاتے یہ جنگل بیابان آباد ہو گیا باباجی ؒ نے
اُس گلی میں بستر لگایا کہ جس کے غلاموں میں امر ا وزرا بادشاہ حاضر ہونا
سعادت سمجھتے سلطان ہندوستان غیاث الدین بلبن آپ کے قدموں کو چومنا اپنے
لیے سعادت عظیم سمجھتا تھا مشہور فاتح امیر تیمور جب ہندوستان وارد ہوا پاک
پتن سے گذرا تو عقیدت و احترام سے حاضر ہوا سلام کیا سو نے کی اشرفیاں پیش
کیں اور اقرار کیا کسی بہت بڑے بزرگ کا دربار ہے اِس قدر شان کے باوجود
باباجی ؒ اپنی زندگی میں پیلواور ڈھیلے کھا کر گذارہ کرتے تھے دن رات تذکیہ
نفس اور عبادت میں اِس قدر مشغول رہتے کہ کس طرح خالق کی خشنودی حاصل ہو
جائے قرب الٰہی حاصل ہو جائے ۔ رات کو خواب عبادت نوافل کے بعد سر زمین
پرحق تعالیٰ سے عرض گذار ہوتے میں تیرے لیے زندہ ہوں اور تیرے لیے ہی مرتا
ہوں خدا کے ہاں قبولیت کا یہ عالم کہ ایک دن کہا چالیس برس تک میں نے وہ
کیا جو رب نے چاہا اب میں جو چاہتا ہوں رب وہ کرتا ہے ۔
نہ تخت و تاج میں نہ لشکر و سپا میں ہے
جو بات مرد قلند کی بارگاہ میں ہے
|
|