سعودی عرب اور ایران کے درمیان دشمنی اب دوستی میں بدلنے کے امکانات روشن
ہوتے جارہے ہیں۔ ایران نے سعودی عرب کو تہران میں سفارتخانہ کھولنے کی دعوت
دے دی ہے۔ پاکستانی ذرائع ابلاغ جیونیوز کے مطابق ایران کے وزیر خارجہ امیر
عبدالہیان نے کہا ہے کہ جب بھی سفارتی تعلقات معمول پر لانے کی خواہش ہوتو
سعودی عرب کیلئے ایران کے دروازے کھلے ہیں۔ امیر عبدالہیان نے کہاکہ دونوں
ملک سفارت خانے کھولیں اور تعلقات بحال کریں اور انہیں مزید بہتر بنائیں۔
واضح رہے کہ چند روز قبل سعودی عرب نے بھی ایران کو او آئی سی میں اپنی ذمہ
داریاں سنبھالنے کی اجازت دی تھی جس کے بعد ایرانی سفارتکار اپنی ذمہ دایاں
سنبھالنے سعودی عرب پہنچ گئے تھے۔ قطر کے اعلیٰ ترین سفارت کار نے جمعرات
کو ایران کا دورہ کیا ہے ۔ واضح رہیکہ امیر قطر 31؍ جنوری کو واشنگٹن کا
دورہ کرنے والے ہیں۔ وزیر خارجہ شیخ محمد بن عبدالرحمن الثانی کا یہ دورہ
ایرانی وزیر خارجہ حسین امیر عبدالہیان کے پیر کو دیئے گئے اس بیان کے بعد
عمل میں آیا ہے جس میں انہوں نے کہا تھاکہ اگر ’’اچھے جوہری معاہدے‘‘ کی
امید ہو تو تہران واشنگٹن کے ساتھ براہِ راست مذاکرات کیلئے تیار ہے۔ قطر
،افغانستان میں امن و سلامتی کیلئے طالبان اور امریکی و نیٹو افواج کے
انخلا کیلئے جو اہم رول ادا کیا ہے اسے دنیا جانتی ہے اسی طرح اگر قطر
،ایران اور امریکہ کے درمیان بہتر تعلقات کیلئے ثالثی کا کردار ادا کرتا ہے
تو یہ مشرقِ وسطیٰ ہی نہیں بلکہ بین الاقوامی سطح پر امن وسلامتی کے سلسلہ
اہم پیشرفت ہوگی ۔ عرب ممالک اور امریکہ کے ایران کے تعلقات بہتر ہوتے ہیں
تو اس کے مثبت اثرات مرتب ہونگے اور مشرقِ وسطی و دیگر عرب و اسلامی ممالک
میں ایران نواز ملیشیاسے چھٹکارہ پایا جاسکتا ہے ۔ اب دیکھنا ہے کہ سعودی
عرب اور ایران کے درمیان اعلیٰ سطح کی بات چیت کب ہوتی ہے اور دونوں ممالک
کے درمیان سفارتی تعلقات کب بحال ہوتے ہیں کیونکہ ایران پر الزام عائد کیا
جاتا ہیکہ وہ سعودی عرب اور دیگر عرب ممالک کے خلاف لڑنے کے لئے فوجی سازو
سامان اور ہتھیار فراہم کرتا ہے ۔ یمن میں حوثی باغیوں اور سعودی اتحاد کے
درمیان جاری جنگ کے سلسلہ میں بھی یہ بات عام ہیکہ ایران کے حمایت یافتہ
حوثی باغی سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات کے شہروں پر حملے کررہے ہیں اور
گذشتہ ایک ہفتہ قبل ابو ظہبی پر حوثی باغیوں کے حملے نے عرب اتحاد کو حوثی
باغیوں کے ٹھکانوں، تنصیبات پر ٹارگٹڈ آپریشن کرنے پر مجبور کردیا ۔ ذرائع
ابلاغ کے مطابق عرب اتحاد نے اپنے ایک بیان میں کہا ہے کہ گذشتہ چند دنوں
کے دوران یمن کے شہر صنعا ،مارب اور البیضا میں بے دریغ ٹارگٹڈ آپریشن کئے
گئے جن میں کئی فوجی گاڑیاں تباہ کی گئیں، اور 250سے زائد حوثیوں کی
ہلاکتیں ہونے کا دعویٰ کیا گیا ہے۔متحدہ عرب امارات کی وزارتِ دفاع کی جانب
سے بتایا گیا ہیکہ پیر کے روز ایک بار پھر امارات کی جانب داغے گئے دو
میزائلوں کو مار گرایا گیا ہے۔ اس حملے کے فوراً بعد یمن کے علاقے الجوف
میں بیلسٹک میزائل لانچر کو ایف 16طیارے کے ذریعے تباہ کردیا گیاہے۔ بحرین
، کویت ، ترکی اور خلیج تعاون کونسل نے متحدہ عرب امارات اور سعودی عرب پر
حوـثی باغیوں کی جانب سے کئے جانے والے میزائل اور ڈرون حملوں کی مذمت کی
ہے۔ ترکی کی وزارت خارجہ کی جانب سے جاری کئے گئے بیان میں کہا گیا ہیکہ
سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات کے علاقوں میں حوثی باغیوں کی جانب سے داغے
گئے میزائل اور ڈرونز حملے بین الاقوامی قوانین کی صریح خلاف ورزی ہے۔ خلیج
تعاون کونسل نے بھی اپنے ایک بیان میں کہا ہیکہ یمن میں موجود باغیوں کے
مسلسل حملے یمن میں امن کی تمام کوششوں کو حوثی ملیشیا کی جانب سے مسترد
کرنے کی عکاسی کرتے ہیں۔ علاوہ ازیں عرب اتحاد نے یمن میں قانونی حکومت کی
بحالی کیلئے صنعا میں ’’قانونی اہداف‘‘ پر فوجی آپریشن کا آغاز کیا ہے۔
حوثی باغیوں کی جانب سے جو حملے سعودی عرب پر کئے جارہے ہیں اسے عرب اتحاد
ناکام بنا رہے ہیں لیکن دونوں جانب سے کی جانے والی کارروائیوں میں عام
شہریوں اور املاک کا نقصان ہورہا ہے۔ اگر اس دوران سعودی عرب اور ایران کے
درمیان تعلقات بحال ہوتے ہیں تو یہ مشرقِ وسطیٰ کے لئے خوش آئند اقدام
ہوگا۔
امیر قطر اور جوبائیڈن کے درمیان 31؍ جنوری کووائٹ ہاؤس میں ملاقات متوقع
امریکی صدر جو بائیڈن 31؍ جنوری کو قطر کے امیر شیخ تمیم بن حمد سے وائٹ
ہاوس میں ملاقات کریں گے۔یہ ملاقات ایک ایسے وقت ہورہی جبکہ سعودی اتحادی
اورحوثی باغیوں کے درمیان مشرقِ وسطی میں حالات انتہائی کشیدہ ہے اور دوسری
جانب امریکہ اور روس کے درمیان یوکرین کے مسئلہ پر شدید اختلافات پائے
جارہے ہیں جیسا کہ اوپر بتایاجاچکا ہیکہ ایران اور امریکہ کیلئے درمیان بھی
تعلقات کی بہتری کیلئے قطر اہم رول اداکرسکتا ہے۔عرب نیوز کے مطابق وائٹ
ہاؤس کی ترجمان جین پساکی نے کہا ہے کہ صدر جوبائیڈن اور قطر کے امیر کے
درمیان ہونے والی ملاقات میں مشرق وسطی میں سلامتی اور عالمی سطح پر
توانائی کی فراہمی کو مستحکم بنانے پر تبادلہ خیال کیا جائے گا۔یہ ملاقات
ایک ایسے وقت میں ہونے جا رہی ہے جب روس ،یوکرین کے معاملے پر تناؤ میں
اضافے کی صورت میں سپلائی روک لے تو واشنگٹن اور اس کے یورپی اتحادی
توانائی کے ہنگامی منصوبوں کو آگے بڑھانے کی کوشش کر رہے ہیں ۔امریکہ اور
اس کے یورپی یونین کے اتحادیوں نے روس پر الزام عائد کیا ہے کہ وہ پڑوسی
ملک یوکرین پر حملہ کرنے کی دھمکی دے کر یورپی استحکام کو تباہ کرنا چاہتا
ہے۔ یوکرین سابق سوویت ریپبلک ہے جو نیٹو اور دیگر مغربی اداروں کا حصہ
بننے کی کوشش کر رہا ہے۔واضح رہے کہ یورپی یونین توانائی سپلائی کا تقریباً
40 فیصد حصہ روس سے حاصل کرتا ہے جبکہ واشنگٹن اور اس کے یورپی اتحادی
متبادل توانائی کے ذرائع کیلئے عالمی منڈیوں کی تلاش میں ہیں۔مشرقِ وسطی کا
اہم ترین ملک اور امریکہ کے قریبی اتحادی ملک قطر کے پاس گیس کے بڑے ذخائر
موجود ہیں اور یہ دنیا میں مائع قدرتی گیس کا سب سے بڑا برآمد کنندہ ہے۔اس
حوالے سے جین ساکی نے مزید کہا کہ جو بائیڈن گذشتہ سال افغانستان سے امریکی
انخلا کے بعد امریکی شہریوں، مستقل رہائشیوں اور افغان شراکت داروں کو
افغانستان سے باحفاظت باہر لے جانے میں مدد پر قطر کا شکریہ بھی ادا کریں
گے۔قطر نے افغانستان میں تقریباً 20 سال سے جاری جنگ کے اختتام پر سفارت
کاری اور انخلا دونوں میں اہم کردار ادا کیا ہے۔
لبنان کے سابق وزیراعظم سعد الحریری سیاست سے دستبردار
کسی بھی سیاست داں کی آرزو ہوتی ہے کہ وہ اپنے مستقبل کوسنوارنے یا روشن
بنائے رکھنے کیلئے میدانِ سیاست میں ترقی کرتے ہوئے قیادت کی اعلیٰ کرسی پر
براجمان ہو۔ایک ایسا سیاست داں جس نے ترقی کے منازل طے کرتے ہوئے اعلیٰ
منصب تک جا پہنچا ہو اور وہ شخص جوتین مرتبہ وزارتِ عظمی کی کرسی پر
براجمان ہوچکا ہو اس کا سیاست سے دستبردار ہوجانا کئی خیالات کو جنم
دیتاہے۔ لبنان کے سابق وزیراعظم سعد الحریری بھی ایک ایسے ہی سیاست داں ہیں
جو تین مرتبہ لبنان کے وزیر اعظم رہ چکے ہیں ۔ پیر کو پریس کانفرنس سے خطاب
کرتے ہوئے انہوں نے سیاست سے دستبردار ہونے کا اعلان کرتے ہوئے کہا کہ وہ
آئندہ پارلیمانی انتخابات میں حصہ نہیں لینگے ۔انہوں نے اپنی سیاسی جماعت
’تیار المستقبل‘ میں شامل اپنے ارکانِ خاندان سے درخواست کی ہیکہ وہ بھی
’ان کے نقش قدم پر چلتے ہوئے سیاست سے علیحدگی اختیار کرلیں‘ یہی نہیں بلکہ
انہوں نے اپنی جماعت سے کہا کہ وہ چاہتے ہیں کہ تیار المستقبل آئندہ
پارلیمانی انتخابات میں اپنا امیدوار نامزد نہ کرے اور کسی بھی گروپ کے نام
سے انتخابات میں حصہ نہ لے۔سعد الحریری نے پریس کانفرنس کے دوران مزید
کہاکہ’ ’ایران کے اثرونفوذ، بین الاقوامی انتشار،قومی تقسیم، فرقہ واریت کی
آگ اور ریاستی لاپروائی جیسے حالات میں لبنان کا کوئی مثبت کردار نظر نہیں
آرہا ہے‘‘۔اس طرح انہوں نے ’سیاسی زندگی سے دستبردار ہونے کا اعلان کیا‘۔
سابق ورزیر اعظم الحریری نے کہا کہ ’ میرے والد رفیق الحریری کا منصوبہ دو
نکاتی تھا۔ پہلا یہ کہ لبنان میں خانہ جنگی کو روکا جائے۔ دوسرا یہ کہ
لبنانی عوام کیلئے بہتر زندگی کا سامان کیا جائے۔ پہلا مقصد حاصل کرنے میں
کامیابی ملی جبکہ دوسرے مقصد میں ناکام رہا ہوں‘۔ سابق وزیر اعظم کا کہنا
تھا کہ ’خانہ جنگی کو روکنے کیلئے مصالحت کا راستہ اختیار کیا اور اس حوالے
سے متعدد اقدامات کا حصہ بننا پڑا۔انہوں نے کہا کہ ’اسی وجہ سے نہ صرف اپنی
ذاتی دولت گنوائی بلکہ بیرونی دوستوں سے محروم ہوچکا ہوں۔ اندرون ملک بہت
سے اتحادی مجھ سے دور ہوگئے ہیں۔ بعض رفقائے کار اور رشتہ دار تک الگ
ہوگئے‘۔انہوں نے کہا کہ ’خانہ جنگی روکنے کیلئے کیے جانے والے اقدامات سے
مجھے ذاتی نقصان ہوا۔ ممکن ہے لبنانی عوام کو بہتر زندگی کی فراہمی کا ہدف
بھی اسی وجہ سے پورا نہ ہوسکا ہو، تاہم یہ فیصلہ تاریخ کرے گی‘۔
جسٹس عائشہ پاکستان سپریم کورٹ کی پہلی خاتون جج
پاکستانی تاریخ میں جسٹس عائشہ ملک سپریم کورٹ پاکستان میں تعینات ہونے
والی پہلی خاتون جج ہیں۔تفصیلات کے مطابق جسٹس عائشہ ملک کی تقریب حلف
برداری سپریم کورٹ میں ہوئی، چیف جسٹس پاکستان جسٹس گلزار احمد نے جسٹس
عائشہ ملک سے بطور سپریم کورٹ جج حلف لیا۔چیف جسٹس گلزار احمد نے اس موقع
پر کہا کہ ہم کسی چیز کا کریڈٹ نہیں لیں گے ، جسٹس عائشہ ملک اپنی قابلیت
کی بنیاد پر جج بنی ہیں۔ذرائع ابلاغ کے مطابق جوڈیشل کمیشن نے 6 ؍جنوری کو
جسٹس عائشہ ملک کی تعیناتی کی سفارش کی تھی، جوڈیشل کمیشن کی سفارش کے بعد
پارلیمانی کمیٹی برائے ججز تقرری نے ان کی تعیناتی کی حتمی منظوری دی۔جسٹس
عائشہ ملک 27 ؍مارچ 2012 کو بطور جج لاہور ہائیکورٹ تعینات ہوئیں اور لاہور
ہائیکورٹ میں جسٹس عائشہ ملک نے تقریبا 10 سال فرائض سر انجام دیے۔ جسٹس
عائشہ ملک کی سپریم کورٹ میں مدت ملازمت 2031 تک ہے۔ریٹائرمنٹ سے ایک سال
قبل وہ پہلی خاتون چیف جسٹس پاکستان بن سکتی ہیں جو منفرد اعزاز ہوگا۔
*******
|