حکومت اوراپوزیشن کے درمیان لڑائی سے زیادہ رومانس نظر
آتا ہے ،کئی سیاسی جماعتیں اس پر احتجاج بھی کرتی ہیں ،تاہم کچھ اپوزیشن
رہنما حکومت کے لئے ہر موقع پر آسانیاں پیدا کردیتے ہیں اور پھر آسانیوں سے
عوام کو نقصان کا سامنا رہتا ہے ،سینیٹ میں سٹیٹ بینک کے بل ہی کو لیجئے ،بڑا
شور اس بل کیخلاف تھا اورسب سے زیادہ پیپلز پارٹی نے مچایا ،پوری قیادت نے
کھل کر اسکی مخالفت کی مگر عملی طور پر اس بل کو صرف ایک ووٹ کی برتری سے
سینٹ میں حکومت نے منظور کروالیا ،اس ایک ووٹ پر دانستہ طور پر پیپلزپارٹی
کے مرکزی قائد اور سابق وزیراعظم یوسف رضا گیلانی پرحکومت سے تعاون کا
برملا الزام لگایا جارہا ہے ،ادھر حکومتی وزراء نے بھی تو یوسف رضا گیلانی
کے اس تاریخی تعاون پر برسر عام شکریہ ادا کیا ہے۔اب یہاں سوال یہ پیدا
ہوتا ہے کہ جس پیپلزپارٹی نے اس بل کی منظوری سے سٹیٹ بینک کو آئی ایم ایف
کے پاس گروی رکھنے کی بات کی تھی جس کے نتیجے میں پوری قوم کو غلام بنائے
جانے کاشور ڈالا گیا تھا اب اس بل کو بڑی خاموشی سے حکومت کے ساتھ ‘‘تعاون’’کرتے
ہوئے منظورکروانے کا عملی مظاہرہ کیا ہے تو یہ بات ثابت ہوتی ہے کہ قوم کو
غلام بنانے میں پیپلزپارٹی بھی برابر کی شریک ہے اس کا جواب کیا پوچھیں ایک
ووٹ سے بازی پلٹنے کی اس واردات کے سب سے بڑے کھلاڑی خود کو عوام کے سامنے
اناڑی بناکر پیش کررہے ہیں ،ذراسابق وزیراعظم کی دلیل تو دیکھیں ،اس واقعہ
پر قوم کے سامنے جو بیانیہ پیش کررہے ہیں وہ بھی سنیں
!
سابق وزیر اعظم اور پاکستان پیپلزپارٹی کے سینئر رہنما و سینیٹر یوسف رضا
گیلانی نے سینیٹ اجلاس میں غیر حاضری اور فواد چوہدری کے بیان پر ردعمل
دیتے ہوئے کہتے ہیں کہ حکومت نے یہ جانتے ہوئے بھی کہ پاکستان پیپلزپارٹی
کے سینئر رہنما نور ربانی کھر کی قل خوانی اسی روز تھی مگر اسکے باوجود
آدھی رات کو اجلاس طلب کرلیا۔یوسف رضا گیلانی کا موقف ہے کہ میں نے تو
ملتان میں اپنے دیرینہ ساتھی اور پیپلزپارٹی کے دو ایم این ایز کے والد کی
قل خوانی میں شرکت کرنی تھی، اس لیے صبح 10بجے کسی بھی طرح اسلام آباد نہیں
پہنچ سکتا تھا۔یوسف رضا گیلانی اپنے بیانیہ کی وضاحت کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ
حکومت نے سوگواروں کی عدم دستیابی کا فائدہ اٹھا کر آدھی رات کو جان بوجھ
کر خفیہ اجلاسوں کا شیڈول بنایا جو بہت چھوٹی حرکت ہے، یہ ہماری ثقافت،
سیاست اور شائستگی کے تمام اصولوں کی خلاف ورزی ہے۔سابق وزیر اعظم کا کہنا
تھا کہ پیپلزپارٹی اور جمہوری سیاست کے ساتھ انکی وابستگی کئی دہائیوں پر
محیط ہے، جو حکومت کی مذموم اور گھٹیا کوششوں کے باوجود اٹل رہے
گی۔پیپلزپارٹی کے سینئر رہنما نے کہا کہ فواد چوہدری جو کہتے ہیں انہیں
کہنے دیں کیونکہ میرے علاوہ اور بھی سنیٹر غائب تھے مگر انہوں نے جان بوجھ
کر صرف میرا ذکر کیا۔واضح رہے کہ سینیٹ کے اجلاس میں ایک ووٹ سے حکومت
اسٹیٹ بینک ترمیمی بل منظور کروانے میں کامیاب ہوئی، جس پر فواد چوہدری نے
یوسف رضا گیلانی اور پیپلزپارٹی کے اس تعاون کا شکریہ ادا کیا
تھا۔پیپلزپارٹی کی قیادت اگرچہ سندھ میں اپنی حکومت کو برقرار رکھنے کی
کاوش کے طور پر بھی تو وفاق سے تعاون کرسکتی ہے اب یہ کہانی طویل عرصے سے
سنی جارہی ہے کہ ن لیگ اور پیپلز پارٹی کے درمیان اپنی اپنی منزل پانے کی
خاطر آگے بڑھنے کی دوڑ میں اختلافات پیدا ہوئے ،اپوزیشن اتحاد پی ڈی ایم سے
پیپلز پارٹی کے نکلنے کے حوالے سے یہ کہا گیا تھا کہ مسلم لیگ ن اور پیپلز
پارٹی دونوں نے اس مشترکہ دستاویز پر دستخط کئے جس میں تحریک عدم اعتماد
اور اجتماعی استعفوں دونوں کا ذکر تھا بعد ازاں دونوں جماعتوں نے اس بنیادی
مشترکہ دستاویز کی اپنی اپنی تشریح پیش کی۔
پیپلز پارٹی کا خیال تھا کہ پہلے تحریک عدم اعتماد اور لانگ مارچ ہونا
چاہیے، اجتماعی استعفے آخری آپشن ہونا چاہیے۔ دوسری طرف ن لیگ اور جمعیت
علمائے اسلام (ف) کی تشریح یہ تھی کہ لانگ مارچ اور اجتماعی استعفے ایک
ساتھ ہونے چاہیں اگر یہ ہو گا تو حکومت گر جائے گی۔ دستاویز کی اسی بنیادی
تشریح پر اختلافات کی وجہ سے پی ڈی ایم سے پیپلز پارٹی باہر ہوگئی۔پی ڈی
ایم کے اتحاد کا ٹوٹنا ہی درحقیقت اس بات کا ثبوت ہے کہ اسے طاقتور حلقوں
کی حمایت حاصل نہیں تھی ،یہی سبب ہے کہ اتحاد سے باہر آکر بھی پیپلزپارٹی
کی اہمیت یکسر ختم نہ کی جاسکی اب تک اسکی اس اتحاد میں واپسی کی باتیں
ہورہی ہیں تاہم ایک زیرک سیاستدان کے طور پر آصف علی زرداری معاملے کی
نزاکت کو سمجھ کر بڑی محتاط چال چل رہے ہیں۔ پی ڈی ایم اتحاد کے آغاز میں
سابق صدر آصف زرداری نے سیاست میں نومولود اور اپنے صاحبزادے بلاول بھٹو
زرداری کو آگے رکھا تاکہ نوازشریف کی جارحانہ مزاج رکھنے والی بیٹی مریم
نواز اپنے مصلحت پسند چچا کو پیچھے چھوڑ کر آگے آئیں۔ مشترکہ تحریک چلتی
رہی مگر آصف زرداری کے سامنے سندھ حکومت کو بچانے کے ساتھ بلاول کے مستقبل
کو تابناک بنانامقصودرہا،اس حوالے سے یہ کہا جاتا ہے کہ پس پردہ انکے
اسٹیبلشمنٹ سے مسلسل رابطے رہے اور یہ یقین دلانے کی کوشش کرتے رہے کہ
عمران خان کا متبادل بلاول بھٹو اور پیپلز پارٹی ہی ہو سکتے ہیں۔ذرائع کا
یہ بھی کہنا ہے کہ آصف زرداری کے اسٹیبلشمنٹ سے رابطوں کو مضبوط بنانے میں
ان کی دور صدارت کے دو ریٹائرڈ جرنیلوں نے اہم کردار ادا کیا۔سابق صدر آصف
علی زرداری کی طبی بنیادوں پر ضمانت پر رہائی کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ
یہ اسٹیبلشمنٹ سے خوشگوار رابطوں کا آغاز تھا۔اب تازہ ترین حالات اور
واقعات کے تناظر میں یہ کہا جارہا ہے کہ پیپلزپارٹی کا حکومت سے درپردہ
رومانس کہیں نہ کہیں ظاہر ہورہا ہے ،
|