تحریر :محمد حسن فاروق ایڈ ووکیٹ
آج کل دور حاضر میں ایسا کوئی انسان نہیں جو بڑھتی ہوئی مہنگائی سے پریشان
نہ ہو،ویسے تو مہنگائی ایک بین الاقوامی مسئلہ ہے دنیا کے سبھی ممالک میں
ضروریات زندگی کی چیزوں کی قیمتوں میں مسلسل اضافہ ہورہا ہے ،بڑی حد تک ہم
اس کو ایسے بھی دیکھ سکتے ہیں کہ جس تیزی سے آبادی میں اضافہ ہورہا ہے اس
تیزی ضروریات زندگی کی اشیا ء کی پیداوار میں اضافہ نہیں ہو سکا ،اور یہ
بات ہم بخوبی جانتے بھی ہیں کہ جس چیز کی طلب زیادہ ہوجائے اور اس کی
پیداوار کم ہو تو اس کی قیمت بڑھنا شروع ہو جاتی ہے،جب آمدن کے مقابلے میں
ضروریات زندگی کی قیمتیں بڑھ جاہیں تو مہنگائی فروغ پا جاتی ہے،زیادہ پیسوں
میں تھوڑی چیز میسر ہونے کو بھی معاشیات میں مہنگائی کہا جاتا ہے،پاکستان
میں ہر محکمہ اور ادارہ خطرناک حد تک کرپشن میں مبتلا ہو چکا ہے۔ روپیہ
ڈالر کی محکومیت کا شکار ہے اس معاشی افراتفری میں اشیاء کی قیمتوں کا
کنٹرول میں رہنا ممکن نظر نہیں آ رہا۔ بے شمار ٹیکس بھی قیمتوں میں اضافے
کا موجب بن رہے ہیں۔ ذخیرہ اندوزی ناجائز بلیک مارکیٹنگ اور رسد میں رکاوٹ
بھی مہنگائی کا باعث ہوتی ہے۔ بے دریغ لیے گئے غیر ملکی قرضہ جات بھی
مہنگائی کا سبب بنتے ہیں ،حکومتی اخراجات اور معاشی خسارہ پورا کرنے کیلئے
بے تحاشا نوٹ چھاپنے سے بھی افراط زر پھیلتا ہے۔ دولت کی غیر مساوی تقسیم
بھی مہنگائی کو بڑھاوا دیتی ہے کیونکہ دولت مند افراد کم وسائل کے حامل
لوگوں کو لوٹنے لگ جاتے ہیں جو مہنگائی کا باعث بنتے ہیں، حکومت جب تک ذاتی
مفادات کے برعکس اقتصادی استحکام کو ترجیح نہیں دیتی معاشی عدم استحکام ختم
نہیں ہو سکتا۔لوگوں کے ذرائع آمدن پہلے ہی کرونا وائرس کے منفی اثرات کے
باعث آدھے سے بھی کم ہو چکے ہیں۔ سب سے زیادہ متاثر نچلہ طبقہ ہے جو کرائے
کے گھروں میں رہائش پذیر ہے گزشتہ دس سالوں سے مکانوں اور دکانوں کے بڑھتے
ہوئے کرائے بھی مہنگائی میں مسلسل اضافہ کر رہے ہیں جن کو کسی بھی حکومت نے
کنٹرول کرنے کی کبھی نہ تو کوشش کی نہ ہی اس ضمن میں کبھی کوئی قانون سازی
عمل میں آئی،پرائیویٹ ہسپتالوں ڈاکٹروں اور سکولوں کی بڑھتی ہوئی فیسیں اور
مہنگی ادویات بھی مہنگائی میں اضافے کا اہم ذریعہ ہیں صحت اور تعلیم دونوں
حکومت کی ذمہ داری ہوتے ہیں لیکن بدقسمتی سے وطن عزیز میں جو سرکاری ہسپتال
یا سکول ہیں وہاں علاج معالجہ اور تعلیم کا معیار اس قدر پست ہے کہ عوام ان
کے حصول کے لیے پرائیویٹ اداروں کے ہاتھوں لٹنے پر مجبور ہیں۔عوام سے لیے
گئے ٹیکسوں کے عوض ریاست نے عوام کو صحت اور تعلیم کی جو معیاری سہولتیں
فراہم کرنی ہوتی ہیں ان سہولتوں کی فراہمی بھی اشرافیہ تک محدود ہے ان
حالات میں اشرافیہ نے کم آمدنی والے طبقات کو کچل کر رکھ دیا ہے،بی بی سی
کی ایک رپورٹ کے مطابق آٹے کی قیمتوں میں پچاس سے ساٹھ فیصد چینی بیس سے
تیس فیصد دالیں پچیس سے چالیس فیصد کوکنگ آئل گوشت دودھ اور چاول کی قیمتوں
میں دس فیصد تک اضافہ ہو چکا ہے۔انتظامی اداروں میں موجود پرائس کنٹرول
کمیٹیاں بھی مہنگائی کو کنٹرول کرنے میں ناکام دکھائی دیتی ہیں ایسے میں
ناتجربہ کار ٹائیگر فورس مہنگائی کو کیا کنٹرول کرے گی،پاکستان میں آٹے کی
بڑھتی ہوئی قیمتوں پر فلورملز مالکان کا کہنا ہے کہ حکومت نے 7 سے 8 لاکھ
ٹن گندم فیڈ ملز کو فراہم کر دی حکومت کا وہ فیصلہ ملک میں گندم کی قلت کا
باعث بنا،یہاں پر یہ بات قابل ذکر ہے کہ اگر حکومت عوام کا نہیں سوچے گی تو
کون سوچے گا ،لوگ خودکشی کر نے پر مجبور ہو رہے ہیں ،گزشتہ ماہ مہنگائی سے
تنگ باپ نے اپنی ہی تین بچیوں کو نہر میں پھینک دیا اسی طرح کہ اور بھی
کافی واقعات رونما ہوچکے ہیں ،لوگ کہتے ہیں کہ اپنے بچوں کو کہاں سے
کھلائیں یا انھیں تعلیم کہاں سے دیں،یہاں دو وقت کی روٹی مشکل ہے، اس لیے
ایک عام انسان اپنے بچوں کی تعلیم کی بجائے کسی کام پر لگا دیتا ہے تمام
افراد اس مہنگائی کا ذمہ دار موجودہ حکومت کو ٹھہراتے ہیں،اب تو لوگ
وزیراعظم عمران خان کا ایک مشہور جملہ دہراتے ہوئے کہتے ہیں کہ ’خان صاحب
نے کہا تھا سکون قبر میں ملے گا۔ اب ہم یہی سوچتے ہیں کہ واقعی قبر میں ہی
سکون ملے گا۔
|