بی جے پی کا واحد مسلم چہرہ مختار عباس نقوی سمجھے
جاتے ہیں،کیونکہ۔شاہںواز حسین تو بہار میں وزیر بنا کر کنارے جردیئے گئے
ہیں۔نقوی جی اتفاق سے ملک کی دوسری سب سے بڑی آبادی کے معاملات یعنی اقلیتی
امور کے وزیر بھی ہیں،انہوں نے ایک معاملے آؤ دیکھا نہ تاؤ ۔اور ایک بیان
داغ دیا ،جو بے تکا ہی کہا جاسکتا ہے ،موصوف کا فرمان ہے کہ " ملک محسوس کر
رہا ہے کہ کچھ لوگ ہندوستان کی ثقافت، عزم، آئین کے "فرقہ وارانہ لنچنگ" کی
سپاری لے کر کام کر رہے ہیں۔ ہندوستان کے خلاف پروپیگنڈہ سنڈیکیٹ کا ’’مودی
بیشنگ سنک‘‘ دراصل ’’بھارت بیشنگ سازش‘‘ بنتی جارہی ہے۔"نقوی صاحب فرماتے
ہیں کہ مودی حکومت کی جامع ترقی کے کامیاب نتائج سے پریشان چند لوگ اقلیتوں
کے حوالے سے دنیا کے سامنے حقائق اور زمینی حقیقت کے برعکس ’جھوٹ کے جھاڑ
سے سچ کے پہاڑ‘ کو شکست دینے کا ’پاکھنڈی پریاس‘ کررہے ہیں۔اُن کا دعویٰ ہے
کہ بھارتیہ جنتا پارٹی کی حکومتوں نے "پولرائزیشن کی دھوکہ دہی" سے ’جامع
بااختیار بنانے کی قوت‘ سے منہدم کیا ہے۔ جس کے نتیجے میں آج معاشرے کے
تمام طبقات سماجی، معاشی، تعلیمی بااختیار کے برابر کے حصہ دار بن رہے
ہیں۔انکا الزام ہے کہ چند افراد پاکستان کی سرپرستی میں چلنے والی تنظیم کے
پلیٹ فارم سے ہن⁷دوستانی ثقافت، اور جامع عزم پر ابہام پیدا کرنے کی
ہندوستان مخالف سازش کا حصہ بن رہے ہیں۔نقوی کی آدھے ادھورے بیان دینے کی
پہلے سےعادت رہی ہے۔پریس کانفرنسوں میں بھی گول مو ل بات کرتے ہیں۔
انہیں یہ بیان اس لیے دینا پڑا کہ دراصل ،ایک امریکی تنظیم کے ذریعہ یوم
جمہوریہ 26 جنوری کو منعقدہ ایک ورچوئل پروگرام سے خطاب کرتے ہوئے سابق
نائب صدر جمہوریہ حامد انصاری نے ہندوستانی جمہوریت پر سوال اٹھائے اور کہا
کہ ملک میں شہری قوم پرستی کو ثقافتی قوم پرستی میں تبدیل کرنے کی کوششیں
کی جارہی ہیں۔ ہندو قوم پرستی کے عروج پر تشویش کا اظہار کیاکہ" حالیہ
برسوں میں ہم نے شہری قوم پرستی کو ختم کرکے ثقافتی قوم پرستی کے قیام کو
دیکھا ہے۔ اس کی کوششیں کی جا رہی ہیں۔ "
حامد انصاری نے اس کے علاوہ یہ بھی کہا کہ مذہبی اور اجارہ دارانہ سیاسی
طاقت کی آڑ میں انتخابی اکثریت کو پیش کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے۔ ان
وجوہات کی بنا پر عدم تحمل، ناانصافی، بدامنی اور عدم تحفظ کو فروغ دینے کی
کوششیں بھی کی جا رہی ہیں اور یہ لوگ چاہتے ہیں کہ شہریوں کو ان کے عقیدے
کی بنیاد پر تقسیم کیا جائے۔ ایسے رجحانات کا قانونی اور سیاسی طور پر
مقابلہ کرنے کی ضرورت ہے۔
ظاہرہے کہ اس سنگین مسئلہ کو اٹھائے جانے پر سب سے زیادہ بی جے پی کو ہی
تکلیف پہنچنا لازمی تھا اور حامد انصاری کے بیان پر تنقید آنا کوئی غیر
معمولی بات نہیں ہے،پہلے بھی اس ضمن اُن کا بیان آیا ہے اورایک بار تو مودی
بھی لقمہ دینے سے با ز نہیں آئے تھے۔حالانکہ انہیں پروٹوکول کاخیال رکھنا
تھا۔
ہاں نقوی صاحب کو بیان دینے سے پہلے سوچ لینا تھا کہ وہ کس کے لیے ان باتوں
کا اظہار کررہے ہیں۔حامد انصاری ہمارے نائب صدر رہ چکے ہیں اورجوکہ ملک کا
دوسرا بڑا عہدہ ہوتا ہے ،اس لیے زبان۔کو سنبھال کر کھولنا چاہئیے تھا۔
شاید بے چارے مختار عباس صاحب کو اس بات کا علم نہیں ہے کہ ہندوستان بھلے
ایک بڑا جمہوری ملک ہے مگر گزشتہ سات سال سے ملک کے سیاسی و سماجی حالات جس
پروپیگنڈہ پر گامزن ہیں اس سے یہی واضح ہوتا ہے کہ ہندوستان میں جمہوریت
صرف کاغذ پر رہ گئی ہے اور عملی طور پر تو بس وہی ہو رہا ہے جو بھگوا
تنظیموں کا ایجنڈارہ چکا ہے ۔ سابق نائب صدر حامد انصاری نے امریکہ میں
منعقدہ ایک تقریب میں ہندوستان میں جاری صورت حال کو بڑی بے باکی کے ساتھ
پیش کردیاہے۔حقیقت یہ ہے کہ ملک میں وہی ہور ہاجس کا حامد انصاری نے اظہار
کیا ہے۔آج ہندوستان میں افراتفری کا ماحول ہے۔قومی سطح پر جو کچھ ہو رہا
ہے،اس کی وجہ سے عالمی سطح پر ملک کی شبیہ پر اثر پڑرہا ہے۔نقوی صاحب جس
ترقی کی بات کررہے ہیں ،وہ ایسے حالات کے سبب منٹوں میں خاک میں مل جائے
گی۔
حامد انصاری نے واضح کردیا ہے کہ انتخابات میں اکثریت کو مذہبی رنگ دیا
جاتا ہے اور ریاستی سطح پربھی یہی حال ہے اور سب کچھ کرنے کے لیے تیار
بیٹھے ہیں۔ووٹ بینک کی باتیں کرکے اقلیتی فرقے کو نشانہ بنانے والے خود ہی
ایسی چال بازیاں چل رہے ہیں تاکہ وہ اپنے ووٹ بینک کو استحکام دے سکیں۔
حامد انصاری نے انتخابات کی جیت کو ہندتوا کے فروغ سے تعبیر کیاہے،جس سے
بھگوابریگیٹڈ کے تن بدن۔میں جیسے آگ لگ گئی ہے۔اس حقیقت سے انکار نہیں کیا
جاسکتا ہے کہ نریند مودی ہی ان حالات کے لیے ذمہ دار ہیں۔یہ مانا جار ہا ہے
کیونکہ جب سے بی جے پی نریندرمودی کی قیادت میں اقتدار پر آ گئی ہے تب سے
ملک کا جمہوری نظام گو یا داؤ پر لگ چکا ہے۔
نریندرمودی کے پہلے دور میں پانچ برسوں کادورتنازعات سے بھر پوررہا تھا ،بی
جے پی کے پرچم تلے جو حالات پیدا ہوئے ہیں انہیں کسی بھی طور پر جمہوری
حالات نہیں کہا جا سکتا ۔ملک میں مہینے بھر میں ماب لنچنگ کے کم از کم دو
سے تین واقعات ہو ہی رہے ہیں۔ دوسری طرف مسلمانوں کی مساجد کو بھی نشانہ
بنایا جا رہا ہے ، شر پسندروزانہ ایک مسجد کا نام۔پیش کردیتے ہیں،مذہبی
آزادی جیسے بنیادی حق میں شامل ہے،ملک کا اقلیتی فرقہ ان حالات کی وجہ سے
احساس کمتری۔کے ساتھ نفسیاتی مرض میں مبتلا ہو رہا ہے اوراس سچائی سے مختار
عباس نقوی منہ نہیں موڑ سکتے ہیں۔اقلیت میں ایک طرح کی بے چینی پائی جارہی
ہے۔اور اس کاسبب وزیراعظم نریندر مودی کی پراسرار خاموشی کا قرار دیا جاتا
ہے۔
|