شفقات اور زخرف کا خواب، کسان منڈی بھنڈر کا المیہ ، کسی طرح کی منفی رائے سے دور ---

اسلام علیکم ورحمۃ اللہ و برکاتہ

عموماً پاکستان کی بیوروکریسی عوام دشمن پالیسیوں کے باعث بدنام رہتی ہے ۔ اگرچہ بیورو کریسی ملک کے لیے ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت کی حامل ہوتی ہے ، لیکن یہ ایک حقیقت ہے کہ بیورو کریسی ہمیشہ حکمرانوں کے ہاتھوں غلط مقاصد کے لیے استعمال ہوتی رہی ۔ اگرچہ قائد اعظمؒ نے سرکاری افسران کو غلط احکام جاری کرنے یا ماننے سے روک دیا تھا لیکن اس کا کیا کیا جائے کہ مختلف اوقات میں بیوروکریسی نے حکمرانوں کے غلط احکام مان کر اور غلط احکام جاری کر کے خود کو عوام کی نظروں سے گرا دیا۔

ایوب خان سے اس بدقسمتی کو فروغ ملا جب محترمہ فاطہ جناح ؒکو ہرانے کے لیے ایوب خان نے بیوروکریسی کا ہتھیار استعمال کیا اور ہر دھونس، دھاندلی سے خود کو جتوایا۔ حقیقت میں محترمہ فاطمہ جناحؒ کو نہیں ہرایا بلکہ پاکستان کو ہرا دیا۔ مشرقی پاکسان نے محترمہ فاطمہ جناحؒ کے حق میں بھاری اکثریت سے فیصلہ دیا تھا اور جب ان کی رائے کا احترام نہیں کیا گیا تو اگلے پانچ سال کے قلیل عرصہ میں پاکستان دو لخت ہو گیا، پاکستان کی فوج کو ہتھیار ڈالنے پڑے۔

فاطمہ جناحؒ کے بعد بھٹو کے ساتھ بھی یہی ہوا، وہ بھی بڑے ارمان لے کر آئے تھے، انہوں نے اپنی مقبولیت کے زعم میں 1977 ء میں وقت سے پہلے انتخابات کروائے اور سرکاری مشینری نے ضرورت سے زیادہ جتوا کر بھٹو کو ناکام بنا دیا۔ الغرض کس کی بات کی جائے، کس کی نہ کی جائے، ضیاء الحق ، مشرف سب نے بیورو کریسی کو اندھا دھند استعمال کیا اور اپنے مقاصد حاصل کیے۔ آج اسی طرح عمران خان صاحب بیورو کریسی کے ہاتھوں زخم ملنے پر چیخ چلا رہے ہیں، ویسے ہی نواز شریف کیا کرتے تھے۔ لیکن بد قسمتی یہ کہ وہ بھی بیورو کریسی کے ہاتھوں مجروح ہوتے رہے لیکن اپنے مقاصد کے لیے فواد حسن فواد جیسے لوگوں پر انحصار کرتے رہے۔

پاکستان کی بیوروکریسی کایہ المیہ ہے کہ اس نے خود کو عوام سے دور ایک مرکز کی حیثیت دے دی ہے۔ یہ بیوروکریسی انگریز حکمرانوں کی روایت کو لے کر چل رہی ہے ، جس میں اہم ترین لڑاؤ اور حکومت کرو کا فارمولا ہے لیکن کبھی کبھی کچھ استثنادات سامنے آ جاتے ہیں جو اپنے سابقہ بیوروکریٹ آقاؤں سے نالاں ہوتے ہیں اور کچھ نیا کر دکھانے کی کوشش کرتے ہیں ، بالکل اسی طرح جیسے ہمارے جج حضرات کچھ نیا کر دکھانے کی کوشش کرتے ہیں ، لیکن معاملات کو مزید گھمبیر بنا کر چلے جاتے ہیں ۔ اس کی وجہ یہ ہوتی ہے کہ بیوروکریٹ ہوں یا جج ، سب وقتی اثرات کے ماتحت کا م کر رہے ہوتے ہیں گہری منصوبہ بندی کرنا ان کے لیے مشکل کام ہوتا ہے ۔ ایک مثال، سپریم کورٹ کے ایک چیف جسٹس نے حکم دیا کہ اردو کو سرکاری زبان قرار دیا جائے ۔ پورے ملک میں اردو کے حامیوں کی جانب سے خوب مدح سرائی ہوئی۔ لیکن ان کے کھوکھلے احکامات ان کی ریٹائرمنٹ کے ساتھ ہی بے اثر ہو کر رہ گئے ، اس کی سب سے بڑی مثال یہ کہ ان کی ریٹائرمنٹ کے سرکاری اعلانات بھی انگریزی میں لکھے گئے۔

اس ساری تمہید کا مقصد اسلام آباد کی ایکسپریس وے پر قائم کی جانے والی کسان منڈی، سستا بازار کی صورتحال کر زیر بحث لانا ہے ۔ اسلام آباد کے ڈپٹی کمشنر جناب حمزہ شفقات اور اسٹنٹ کمشنر جناب زخرف فدا نے اس کا خواب دیکھا اور بظاہر نیک جذبے کے تحت عوام کو سستی چیزیں مہیا کرنے کی خاطر دو تین ماہ قبل یہ منڈی اس سر نو بحال کر دی، حالانکہ یہ منڈی 2016 ء میں بھی چل کر ناکام ہو گئی تھی۔ ان کے نیک جذبات اپنی جگہ ، لیکن اس کا کیا جائے کہ عملی اعتبار سے یہ منڈی شدید مشکلات سے دو چار ہے ۔ اس کی وجہ پر غور کیا جائے تو پتہ چلتاہے کہ انہوں نے جو خواب دیکھا تھا، اس کے شرمندہ تعبیر ہونے کی راہ میں حائل مشکلات کا انہیں ادراک نہ تھا۔ وہ یہ بات سمجھنے سے قاصر رہے کہ جس فرد کو بازار چلانے کی ذمہ داری دی جا رہی ہے ، اس کی تربیت جدید خطوط پر نہیں ہوئی اور وہ اپنے مفادات کو مقدم رکھتےہوئے سرکاری اثرو رسوخ کا سہارا لے، تو اس کا تدارک کیوں کر ہو گا؟ تمام سرکاری احکامات واضح نہ ہونے کے باعث غلط فہمیاں جنم لیں گی تو جو مسائل سامنے آئیں گے، وہ کیسے حل ہوں گے ؟

انہیں شاید یہ علم نہ تھا کہ جو شخص ان کے نمائندہ کے طور پر خود کو پیش کر رہا ہے ، اس کا لوگوں کے ساتھ رویہ کیا ہو گا، یا کیا ہے ؟ اس نے لوگوں کو اندھیرے میں رکھ کر یہاں دکانیں کھولنے کی ترغیب تو خوب دی اور ابتدائی تین ماہ تک روزانہ اپنی آمدنی میں اضافہ بھی کرتا رہا لیکن جب لوگوں سے یہ مطالبہ کیا کہ دکانوں کی قیمت ، الاٹمنٹ کی فیس اور کرایہ ادا کیا جائے تو لوگوں کو سرکاری ضمانت اور سرکاری دستاویزات نہ دکھا سکنے کے باعث دکانداروں کی بجلی بند کرنے ، انہیں منڈی سے نکالنے اور کسان منڈی کو تالا لگانے کے آخری اقدام کا سہارا لے لیا حالانکہ معاملہ بہت آسان تھا کہ دونوں سے سرکاری احکامات لے کر دکانداروں کو مطمئن کر دیتا۔

اس مضموں کے ذریعے ان دونوں حضرات کی خدمت میں ان کے خواب کے ایک فرد کے ہاتھوں چکنا چور ہونے پر اظہار افسوس کرنے کے ساتھ ان سے یہ کہنا ہے کہ بیورو کریسی کی ناکامیوں میں ایک اور اضافے کا الزام اپنے سر نہ لیں۔ انہوں نے عوام کے لیے ایک اچھا خواب دیکھا تھا تو اس کے حقیقت کا روپ دھارنے کی راہ میں حائل رکاوٹوں کو ہٹائیں۔ دونوں حضرات ٹھنڈے دل سے سوچیں کہ غریب دکاندار پچاس ہزار روپے فی دکان کیوں کر ادا کر سکتے ہیں ؟ بلا شبہ دکانداروں سے دکانوں کی قیمت وصول کی جانی چاہیے ، اس لیے کہ سرکاری زمین کا مفت استعمال حرام ہے لیکن قیمت وصول کرنے کے ساتھ کرایہ چہ معنی وارد؟

اگلے روز حمزہ شفقات صاحب کے حکم پر زخرف فدا نے کسان منڈی کا دورہ کیا اور منڈی کی حقیقی صورتحال جاننے کی کوشش کی۔ ان کے چہرے سے اس بات کا صدمہ عیاں تھا کہ منڈی میں دکانداروں میں بداعتمادی کی صورتحال ان کے لیے ناقابل قبول تھی۔ وہ اس بات پر حیران تھے کہ واضح سرکاری احکامات نہ ہونے کے باوجود لوگوں کو کیوں تنگ کیا جا رہا تھا۔ یہی وجہ تھی کہ وہ منڈی چلانےوالے فرد کی جانب سے اس کی بجلی بند کرنے اور تالا لگانے کے عمل کو چند روز قبل کالعدم کر چکے تھے۔ انہوں نے فرسودہ بیوروکریسی کی روایت کو خیر باد کہتے ہوئے دکانداروں کی بات کو پوری طرح سنا اور معاملات کو بہتری کی راہ پر گامزن کرنے کا وعدہ کر کے رخصت ہوئے ۔ حمزہ شفقات اور زخرف فدا صاحبان نے روایتی بیوروکریسی کے رویے سے ہٹ کر عوام کی خدمت کی جو کوشش کی ہے اسے بہرطور کامیاب بنایا جانا چاہیے اور عوام کے لیے یہ بازار اور اس طرح کے دیگر بازار بھی چلتے رہنے چاہیئں ۔ ٹھیکیدار کو اس کی محنت کا ثمر ملنا چاہیے لیکن اسے خود چونگی قائم کرنے کی کسی صورت اجازت نہیں ملنی چاہیے اور آخری بات یہ کہ اس سلسلہ میں ذرائع ابلاغ سے گھبرانے کی نہیں بلکہ اس کا خیر مقدم کرنے کی ضرورت ہے ۔

 

Syed Muzamil Hussain
About the Author: Syed Muzamil Hussain Read More Articles by Syed Muzamil Hussain: 41 Articles with 68744 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.