اقتدار میں آنے سے پہلے عمران خاں نے بلند بانگ دعوے
کیے، قوم کو سہانے سپنے دکھائے اور کرپشن کے خاتمے کا عہد کیا۔ تب زورآوروں
نے بھی سوچا کہ چلو حکمران بدل کے دیکھتے ہیں۔ پھر 2018ء کے عام انتخابات
میں اقتدار کا ہُما خاں صاحب کے سَر پر بٹھا دیا گیا۔ وہ اِس لحاظ سے ملک
کے مضبوط ترین حکمران بن کر سامنے آئے کہ زورآوروں کا دشتِ شفقت اُن کے سر
پر تھا۔ مرکز کے علاوہ تین صوبوں میں اُن کی حکومت، نیب غلامِ بے دام اور
اپوزیشن یا تو جیلوں میں یا باہم جوتم پیزار۔ یہ پاکستان کی وہ کمزورترین
اپوزیشن ہے جسے خود پتہ نہیں کہ اُس کی ذمہ داریاں کیا ہیں۔ مرکز میں
تحریکِ انصاف کی محض چند ووٹوں سے اکثریت ہے، کئی پارلیمنٹیرینز حکومت سے
باغی ہو چکے، اِس کے باوجود حکومت کا جب جی چاہے بِل منظور کروا لیتی ہے
اور اپوزیشن محض نعروں تک محدود رہتی ہے۔ 28 جنوری کو سینٹ میں سٹیٹ بینک
ترمیمی بِل بھی منظور کر لیا گیا حالانکہ وہاں اپوزیشن کی اکثریت تھی۔ لیکن
کیا کیجئے کہ جب سینٹ سے اپوزیشن لیڈر (یوسف رضا گیلانی) ہی غائب ہو تو پھر
بِل تو منظور ہونا ہی تھا۔
تحریکِ انصاف کا اپنا صدر، اپناسپیکر اور اپنا چیئرمین سینٹ۔ عدلیہ سے کوئی
خطرہ نہیں اور مَن پسند فیصلوں میں مکمل آزاد۔ خاں صاحب کے اقتدار میں آنے
سے پہلے میڈیاکوکہیں سے حکم دیا گیا تھا، وہ دن رات عمران خاں کے گُن گاتی
رہی۔ اِس کے باوجود بھی جب وہ اقتدار میں آئے تو اُن کی کارکردگی سوالیہ
نشان رہی۔ 90 دنوں میں ملک کی تقریر بدلنے کا دعویٰ کرنے والے وزیرِاعظم سے
جب کچھ بَن نہ پڑا تو فرما دیا ’’گھبرانا نہیں‘‘۔ کچھ عرصے بعد ارشاد ہوا
’’قوم میں صبر نہیں‘‘۔آخر میں یہ کہہ کر جان چھڑا لی ’’سکون صرف قبر میں
ہے‘‘۔ جب وزیرِاعظم کا یہ بیان سامنے آیا تو ہم سوچنے لگے کہ مولانا حضرات
تو کہتے ہیں کہ گنہگاروں کی قبر میں پہلے دن سے ہی ’’چھترول‘‘ شروع ہو جاتی
ہے۔ اپنے ہاں یہ عالم کہ روزبروزکرپشن ہے کہ بڑھتی ہی چلی جاتی ہے۔ مثلاََ
2018ء میں 180 ممالک میں سے پاکستان کرپشن میں 117 ویں نمبر پر تھا لیکن
’’صاف چلی، شفاف چلی‘‘ کے پہلے ہی سال کرپشن ترقی کرکے 120 ویں، دوسرے سال
124 ویں اور تیسرے سال مزید ترقی کرکے 140 ویں نمبر پر چلی گئی۔ گویا اِن 3
سالوں میں کرپشن نے 23 درجے ’’ترقی‘‘ کی۔ اب ہم دنیا کے 40 کرپٹ ترین ممالک
میں سے ایک ہیں۔ یہ سروے ہمارا نہیں بلکہ ٹرانسپرنسی انٹرنیشنل کا ہے جس کے
اقتدار میں آنے سے پہلے خاں صاحب گُن گایا کرتے تھے۔ اِس لحاظ سے تو ہمیں
قبر میں سکون نہیں ’’چھترول‘‘ ہی کا سامنا کرنا پڑے گا۔
جب وزیرِاعظم صاحب نے پارٹی ترجمانوں کے اجلاس میں فرمایا ’’کرپشن کے خاتمے
کا وعدہ تو 3 ماہ میں ہی پورا کر دیا تھا‘‘ تب سے اب تک ہم ورطۂ حیرت میں
ہیں کیونکہ ’’ملک دشمن اپوزیشن‘‘ کا تو گلی گلی میں یہی شور ہے کہ عوام
مہنگائی کے ہاتھوں خودکشی پر مجبور ہیں اور خودکُشی کی اوّلین وجہ کرپشن ہی
ہوتی ہے۔ واقعی زمینی حقیقت یہی ہے کہ ملک میں چینی، آٹا، گھی، دالیں،
کھاد، یہاں تک کہ جان بچانے والی ادویات تک کی کرپشن کے ذریعے مصنوعی قلت
پیدا کی جا چکی۔ پٹرولیم مصنوعات کی قیمتیں آسمانوں تک پہنچ چکیں اور
یوٹیلٹی بلز کی ادائیگی پہنچ سے دور ہو چکی۔ اِس شدید ترین سردی میں گیس
کمیاب نہیں، نایاب ہے۔ اِسے کرپشن کی کرشمہ سازیاں نہ کہیں تو اور کیا
کہیں۔ ویسے بھی حکومتی مہربانوں کی کارستانیاں آہستہ آہستہ سامنے آرہی ہیں۔
حقیقت یہی کہ عمران خاں نے سارے مافیاز کو اپنے ساتھ نتھی کر لیا ہے۔ اب یہ
مافیاز یا تو حکمرانوں کے اے ٹی ایمز ہیں یا پھر براہِ راست حکومت میں
شامل۔ بدھ 26 جنوری کو پشاور ہائیکورٹ نے برہمی کا اظہار کرتے ہوئے نیب سے
سوال کیا کہ مالم جبّہ اور بلین ٹری منصوبے کی انکوائری رپورٹ تاحال کیوں
پیش نہیں کی گئی؟۔ پشاور ہائیکورٹ نے حکم دیا کہ اگلی پیشی پر یہ رپورٹ پیش
کی جائے۔ جس سیاسی جماعت کے وزیرِاعظم چیئرمین ہیں اُس کا نام ہی ’’تحریکِ
انصاف‘‘ ہے اور مالم جَبّہ بلین ٹری جیسے منصوبے اُسی کے دَور میں سامنے
آئے جن میں بے قاعدگیوں کی متواتر نشاندہی ہوتی رہی لیکن نہ تو
’’انصافیوں‘‘ کے کان پر جوں تک رینگی اور نہ ہی نیب حرکت میں آئی۔ (نیب
حرکت میں آتی بھی تو کیسے کہ چیئرمین نیب کی آڈیو، ویڈیو کا مواد تو عمران
خاں کے قبضے میں ہے)۔وزیرِاعظم تو یہ کہتے رہے کہ 70 برسوں بعد نظامِ انصاف
تبدیل کیا جا رہا ہے۔ یہ کیسا نطامِ انصاف ہے جس کی تلوار صرف اپوزیشن پر
ہی گرتی ہے۔ یوں تو وزیرِاعظم صاحب جاو بیجا ریاستِ مدینہ کا راگ الاپتے
رہتے ہیں لیکن کیا اُنہیں امیرالمومنین حضرت عمرؓ کا یہ قول یاد نہیں کہ
اگر عدل کا پلڑا کسی کی وجاہت کے خوف سے جھک جائے تو پھر قیصروکسریٰ کی
حکومتوں اور اسلامی ریاست میں کیا فرق ہوا؟۔ ساڑھے 3 سالہ کارکردگی کو
مدِنظر رکھتے ہوئے زورآوروں نے بھی غیرجانبدار ہو جانے میں ہی عافیت جانی
کیونکہ اُنہیں بھی احساس ہو گیا ہے کہ ’’کرے کوئی، بھرے کوئی‘‘۔ بدترین
کارکردگی حکمرانوں کی ہوتی ہے اور الزام تراشیاں کرنے والے اسٹیبلشمنٹ کو
بھی ساتھ نَتھی کر دیتے ہیں۔ جب وزیرِاعظم کو یہ احساس ہوا کہ دشتِ شفقت
پیچھے کی طرف کھسک رہا ہے تو اُنہوں نے یہ بڑھک مار دی ’’اگر مجھے نکالا
گیا تو میں اورخطرناک ہو جاؤں گا۔ میں سڑکوں پر نکلا تو اِنہیں چھپنے کے
لیے جگہ نہیں ملے گی‘‘۔ جب سے وزیرِاعظم کا یہ بیان سامنے آیا ہے تقریباََ
ہر تجزیہ نگار کا یہی تجزیہ ہے کہ یہ بڑھک اسٹیبلشمنٹ کے لیے ہے۔ ہمارا بھی
یہی خیال ہے کیونکہ وزیرِاعظم نے اِسی خطاب میں پہلے یہ فرمایا کہ اگلے 5
سال بھی اُنہی کی حکومت ہو گی اور پھر ’’خطرناک‘‘ والا بیان دیا۔ اگلے 5
سال والا بیان اپوزیشن کے لیے ہے کیونکہ وہ بھی خوب جانتے ہیں کہ اگر
اسٹیبلشمنٹ کا ہاتھ اُن کے سر پر رہتا ہے تو اپوزیشن اُن کا کچھ نہیں بگاڑ
سکتی۔ یہ بھی روزِ روشن کی طرح عیاں کہ اگر اسٹیبلشمنٹ نہ چاہے تو کسی
وزیرِاعظم کو وقت سے پہلے گھر نہیں بھیجا جا سکتا۔ اِس لیے خاں صاحب کی یہ
بڑھک اسٹیبلشمنٹ کے لیے ہی ہے۔ ہم اُنہیں یاد دلاتے چلیں کہ ایسی بڑھک آصف
زرداری نے بھی ماری تھی۔ اُنہوں نے بھی ’’اینٹ سے اینٹ بجا دینے‘‘ کا اعلان
کیا تھالیکن پھر ہوا یہ کہ زرداری صاحب کو ہی ملک سے کھسکنا پڑا۔ ویسے بھی
وزیرِاعظم کی دلیری سب کو معلوم۔ عدلیہ بحالی تحریک میں اُنہوں نے حامدمیر
کو انٹرویو دیتے ہوئے بتایا کہ جب پولیس اُنہیں گرفتار کرنے کے لیے آئی تو
وہ گھر کی 10 فٹ اونچی پچھلی دیوار پھلانگ کر غائب ہو گئے۔ہمارے خیال میں
اب شاید (بتقاضائے عمر) وہ 10 فٹ اونچی دیوار نہ پھلانگ سکیں۔
حقیقت یہ کہ وزیرِاعظم صاحب ابھی تک اپنے آپ کو کنٹینر پر سوار ہی سمجھتے
ہیں لیکن ہر پلیٹ فارم کنٹینر نہیں ہوتا جس پر سوار ہو کر سول نافرمانی تک
کا اعلان کر دیا جائے۔ وزیرِاعظم کے عہدے کے تقاضے اور حدودوقیودیکسر مختلف
ہوتی ہیں جن کا ہمارے وزیرِاعظم نے کبھی پاس نہیں رکھا۔ یہی وجہ ہے کہ پرنٹ
ہو یا الیکٹرانک یا پھر سوشل میڈیاہر جگہ غیرپارلیمانی زبان اپنے عروج پر
ہے۔ وزیرِاعظم کو یہ بھی معلوم نہیں کہ زورآوروں کا دستِ شفقت ہٹنے اور
اقتدار چھِن جانے کے بعد کوئی پلٹ کے پوچھتا بھی نہیں ’’بھیا کون ہو‘‘۔
ذوالفقارعلی بھٹو کا ہاتھ عوام کی نبض پر تھا۔ وہ انتہائی پاپولر لیڈر تھے۔
اُنہوں نے بھی جیل میں کہا تھا ’’جب میں جاؤں گا تو ہمالیہ بھی روئے گا‘‘۔
وہ گئے بھی اور ہمالیہ رویا بھی نہیں۔ وزیرِاعظم صاحب کو ادراک ہونا چاہیے
کہ نوازلیگ ہو یا پیپلزپارٹی، دونوں کی جڑیں عوام میں ہیں لیکن تحریکِ
انصاف کا یہ عالم کہ ’’کہیں کی اینٹ کہیں کا روڑا، بھان متی نے کنبہ
جوڑا‘‘۔ تحریکِ انصاف کے پرانے کارکُن تو کب کے الگ ہو چکے۔ اب تو نوازلیگ،
پیپلزپارٹی اور قاف لیگ سے نکلے یا نکالے گئے لوگ ہی تحریکِ انصاف کا
سرمایہ ہیں۔ یہ وہ فصلی بٹیرے ہیں جو ہواؤں کا رُخ دیکھ کر ’’پھُر‘‘ ہو
جاتے ہیں۔ جونہی خاں صاحب کا اقتدار ختم ہوا اُن کے گرد صرف تنہائیاں ہی رہ
جائیں گی۔
|