کتے سکول میں ہی موجود تھے، نہ کسی چوکیدار نے سکول
لگنے تک انہیں باہر بھیجا، نہ سکول کی سیکیورٹی کے ذمہ داروں نے خیال کیا،
نہ ہی بچوں اور اساتذہ وغیرہ کی آمد پر کتوں نے باہر جانے کا فیصلہ کیا،
گویا اُن کی سکول میں موجودگی معمول کی بات تھی، مگر غیر معمولی کام یہ ہوا
کہ بارہ سالہ مبشر اُن کے ہتھے چڑھ گیا، بچہ خوفزدہ ہو کر بے ہوش ہوگیا،
کتوں نے اسے بھنبھوڑ دیا۔ بتایا جاتا ہے کہ ایمرجنسی والوں کو فون کیا گیا،
مگر جواب نہ ملا، طلبا نے مل کر اپنے ساتھی لڑکے کو ہسپتال پہنچایا، مگر وہ
جانبر نہ ہو سکا۔ جہاں ہر طرف خوف وہراس پھیل گیا، وہاں غم و غصہ کی لہر
بھی دوڑ گئی۔ جب یہ خبر بچے کے گھر پہنچی تو کہرام مچ گیا۔ کچھ دیر پہلے ہی
تو اُن کا بیٹا تیار ہو کر سکول کے لئے روانہ ہوا تھا، اورکچھ ہی دیر بعد
وہ آیا نہیں لے آیا گیا۔ والدین پر جو بیتی وہ نہ تو الفاظ میں بیان ہو
سکتی ہے اور نہ ہی ہم اور آپ اس غم کی شدت کا اندازہ لگا سکتے ہیں۔ بچے کے
قتل کا ذمہ دار وہ کس کو ٹھہرائیں، کس کے ہاتھ پہ اس کا لہو تلاش کریں۔
مقبول وزیراعلیٰ پنجاب سردار بزدار بھی اس دوران ڈیرہ غازی خان میں سخت
سیکیورٹی میں کارِ سرکار میں مصروف تھے، اربوں کے ترقیاتی منصوبوں کے
افتتاح کرنا تھے، کچھ کا سنگِ بنیاد رکھا جارہا تھا۔ جن راہوں سے جناب نے
گزرنا تھا، حشرات الارض نما عوام کے لئے اُدھر کا رخ کرنا بھی محال تھا،
کرسی کی طاقت ہی ایسی ہے۔ انہیں سر کھجانے کی فرصت نہ تھی، افتتاحوں کے
علاوہ کچھ اہم اجلاسوں کی صدارت بھی کرنا تھی۔ یہ المناک خبر انہیں پہنچا
دی گئی ، انہوں نے فوراً ہی اس کا سخت نوٹس لے لیا، فوری رپورٹ طلب کر لی،
انکوائری کا حکم جاری کر دیا۔ اور بھی بہت کچھ کیا ہوگا، مگر شہر میں ہوتے
ہوئے وہ اپنے قیمتی وقت میں سے چند لمحے نکال کر غم زدہ خاندان کے زخموں پر
مرہم رکھنے اُن کے گھر تشریف نہ لے گئے، یقینا انہوں نے قومی اور وسیع تر
مفاد کو ترجیح دی۔ نہ کوئی سیاستدان، نہ انتظامیہ کا کوئی نمائندہ جنازہ
میں شامل ہوا، نہ کسی نے فوری تعزیت کا سوچا،عوامی و سماجی تنقید کے بعد یہ
لوگ ضرور تعزیت کرنے آئیں گے، بلکہ ساتھ ہی تاخیر سے آنے کے بے وزن دلائل
دیں گے ۔شاید یہ لوگ وزیراعلیٰ کے پروگراموں کی رونق میں اضافہ کا موجب تھے
اس لئے وقت نہیں نکال سکے۔
وزیراعلیٰ نے اگر سخت نوٹس لیا ہے، اور رپورٹ طلب کر لی ہے اور کچھ لوگوں
کو معطل بھی کر دیا ہے، قومی خزانے سے آٹھ لاکھ روپے کا ایک عدد چیک بھی
بچے کے والد کو پیش کرنے کا حکم دے دیا ہے، تو یقینا ایک کامیاب، فعال ،
متحرک، فرض شناس اور حسّاس حکمران کے فرائض یہی کچھ تو ہوتے ہیں، جو انہوں
نے پورے کر دیئے۔ وہ سیکیورٹی ، پروٹوکول اور شیڈول کے جس حصار میں گھرے
ہوئے ہوتے ہیں، وہاں سے اِدھر اُدھر ہونے کا انہیں خیال بھی نہیں آتا، اور
انہیں بتایا بھی یہی جاتا ہے کہ سیکیورٹی پلان کے مطابق وہ شیڈول سے ہٹ کر
کچھ اور سوچ بھی نہیں سکتے۔ ایسے حکمران ایک مہرے کی صورت ہوتے ہیں،جو
مشیروں اور سیکیورٹی افسران کے رحم وکرم پر رہتے ایک روبوٹ کی طرح حرکت
کرتے دکھائی دیتے ہیں۔ اپنے ہی شہر میں موجودگی کے باوجود اس قسم کے واقعہ
پر وقت نہ نکالنے سے لوگوں کو تنقید کا موقع مل جاتا ہے ۔
جان سے ہاتھ دھونے والے لڑکے کے والد کو فوری طور پر آٹھ لاکھ کا چیک پیش
کر دیا گیا، جسے انہوں نے رشتہ داروں اور احباب کے اصرار پر قبول تو کر لیا،
ساتھ ہی یہ شرط بھی لگائی کہ انصاف نہ ملنے کی صورت میں چیک کیش نہیں
کرواؤں گا۔ انہیں معلوم ہونا چاہیے کہ حکمرانوں کا انصاف سخت ایکشن لینے ،کیمیٹیاں
وغیرہ بنانے اورچیک وغیرہ دینے تک ہی محدود ہوتا ہے، مزید کی توقع خود کو
دھوکہ دینے کے مترادف ہے۔ بچے کے والد کو بھی معلوم ہے کہ یہ چند افسران کو
قربانی کا بکرا بنانے اور معطلیوں کے ڈرامے کا مطلب معاملہ کو ٹھنڈا کرنا
ہوتا ہے، یہ یا اس قسم کے تمام معطل لوگ چند ہی روز میں جگہ بدل کے تعینات
کر دیئے جاتے ہیں۔ معطلی سزا نہیں ، مذاق ہے۔ کمشنر نے اجلاس بھی طلب کر
لیا، ڈویژن کے چاروں ڈپٹی کمشنروں کو آوارہ کتوں کی تلفی کی ہدایات بھی
جاری کر دی گئیں، کتے کے کاٹے کی ویکسین کی ہسپتالوں میں موجودگی کا حکم
بھی دے دیا گیا۔ اُدھر محکمہ تعلیم نے بھی سکولوں میں کتوں سے بچاؤ کے لئے
تین افراد پر کمیٹی قائم کر دی، جو سکول لگنے سے پہلے اس بات کو یقینی
بنائے گی کہ سکول کے کسی کمرے، لیب یا اور کسی مقام پر کوئی کتا تو موجود
نہیں۔
آوارہ کتوں کے کاٹنے کے واقعات تو ہر روز اخبارات کی زینت بنتے رہتے ہیں،
کبھی بڑا حادثہ بھی ہو جاتا ہے۔ کیا زخمیوں کے لئے بھی حکومت کسی مدد کا
کوئی اعلان کرے گی؟ کیا یہ لاکھوں روپے استعمال کرکے آوارہ کتوں کو تلف
نہیں کیا جانا چاہیے؟ کیا انتظامیہ ایسے سانحات کا سدِ باب کرنے کی بجائے
پہلے واقعہ پیش آنے کا انتظار کرے گی ، اور پھر اس کو چیک دیا جائے گا؟
اپنے ہاں جب کوئی سانحہ پیش آجاتا ہے، تو ہنگامی طور پر کارروائیاں تیز تر
کر دی جاتی ہیں، چند روز بعد سب کچھ قصہ پارینہ بن جاتا ہے، اور وقت کی گرد
تلے دب کر رہ جاتا ہے۔ آوارہ کتوں کا معاملہ ہی دیکھ لیں، مستقل مسئلہ ہے،
مگر ایکشن اس وقت شروع ہوتا ہے جب کوئی بڑا نقصان ہو جاتا ہے۔ آوارہ کتوں
کی تلفی کوئی مشکل کام نہیں، اس پر عمل کا ایک بہترین طریقہ یہ بھی ہو سکتا
ہے کہ بزدار سرکار کتوں کے خاتمے کا حکم جاری کریں اور خود روزانہ کی بنیاد
پر تمام ڈویژنل ہیڈ کوارٹرز کا ہیلی کاپٹرز کے ذریعے فضائی معائنہ کریں ، (جیسا
کہ انہوں نے کرونا کے زمانے میں کیا اور گزشتہ دنوں مری میں سانحہ گزر جانے
کے بعد بھی)۔ دیکھنا لاہور سے ہیلی کاپٹر کا اڑنا ہوگا اور صوبہ بھر سے
آوارہ کتوں کا خاتمہ ہو جائے گا۔
|