مقبوضہ کشمیر کا مسئلہ ایسا نہیں کہ جو کچھ ہوتا چلا آرہا
ہے، اسے عوام فراموش کردے گی۔ بھارت تو چاہتا ہے کہ جونا گڑھ اور حیدرآبادد
کن کی طرح ہتھیا لے اورمقبوضہ کشمیر کی آئینی حیثیت تبدیل کرنے کے بعد اس
عرصہ میں حیلہ تراشیاں اور بہانہ سازیاں اسی مقصد کے حصول کے لئے تھیں۔
اقوام متحدہ میں پیش کردہ قرار داد، استصواب رائے، سلامتی کونسل، باہمی
مذاکرات سے معاملہ کا تصفیہ، تقسیم کرنے کی تجویز وغیرہ وغیرہ، سب خواب آور
دوائیاں ہیں جو وہ یکے بعد دیگر ے دنیا کو کھلاتا چلا گیا لیکن اس کے یہ
عزائم ایسے گہرے اور دبیز پردوں میں چھپے پڑے ہوئے نہیں تھے جو دیکھنے
والوں کو نظر نہ آسکتے، وہ جو کچھ کرتا رہا اسے اندھے بھی دیکھ سکتے اور
بہرے بھی سن سکتے تھے۔ اس لئے کہ ارباب حل و عقد ظاہرانہ فریب کاری میں
آگئے اور بادی ئ النظر معلوم نہ ہوسکا کے اصل ارادے کیا رہے۔
مقبوضہ جموں و کشمیر میں جو کچھ ہوا اور اس باب میں مودی سرکار کے عزائم
کیا تھے اور وہ کس طرح فریب کاری اور چالاکیوں سے اپنی تقویت کا سامان بہم
پہنچاتا چلا جارہا ہے، اگر کوئی یہ کہتا ہے کہ وہ اس کے اس بہروپ کو نہیں
جانتا تھا تو اس قسم کی سطحی نگاہ رکھنے والے کو حق نہیں پہنچتا کہ وہ زمام
ِ اقتدار اپنے ہاتھ میں لے کر ملک کو اپنی معصوم حماقت اور طفلانہ سادہ
لوحی کی بھینٹ چڑھا دے، ایسا معلوم ہوتا ہے کہ ایسے عقدوں کی کشودکے لئے جس
قسم کی مومنانہ فراست اور قلندرانہ جرأت درکار ہوتی ہے، اس کا ہمارے ہاں
فقدان تھا لیکن اس کے کھلے کھلے اعتراف کی بجائے ذمہ دارن میں سے ہر ایک کی
کوشش یہ رہی کہ کسی نہ کسی طرح بات ٹلتی رہے تاکہ یہ قضیہ اُس کے وقت میں
نہ اٹھے، کسی اور کے زمانہ میں ابھرے،، نتیجہ اس کا یہ کہ ہم آج اس مقام پر
لاکر کھڑے کردیئے گئے ہیں، جہاں ’جائے ماندن نہ پائے رفتن‘ کا روح فرسا
منظر نکھر کر سامنے آگیا ہے۔
مسئلہ کشمیر کی اہمیت ایسا موضوع نہیں جس پر تفصیل سے کچھ لکھنے ضرورت ہو۔
علاوہ اس کے کہ کشمیر پاکستان کے لئے رگ ِ جان کی حیثیت رکھتا ہے، اس خطہ
زمین کی85فیصد آبادی (مسلمانوں) کو حق خود اختیاری سے بنوک ِ شمشیر محروم
رکھا، دنیا ئ اخلاق و تہذیب کا اتنا بڑا جرم ہے کہ عالمی ضمیر کو بیدار
کرنے کے لئے خون کا آخری قطرہ تک بہا دینا چاہے،مودی سرکار کو یہ زعم کہ
پاکستان کے مقابلے میں بھارت کے پاس سامان ِ حرب و ضرب، اسباب رسل ور سائل،
وسائل پیداوار، ذرائع معیشت، آلات ِ صنعت و حرفت، رقبہ، دولت سب کچھ زیادہ
ہے،یہاں تک تو درست لیکن بھارت سمیت دنیا کو باور کرانا ہوگا کہ یہاں تک تو
ظاہراََ ٹھیک ہے لیکن اخلاقی طور پر پاکستان کا موقف اتنا قوی ہے کہ بھارت
کی ساری مادی قوتیں اس کا مقابلہ نہیں کرسکتیں۔ در حقیقت ہم نے بھی، ابھی
تک اس کا کماحقہ احساس نہیں کیا کہ کسی معاملہ میں اخلاقی طور پر حق بجانب
ہونے میں کتنی بڑی قوتیں پوشیدہ ہوتی ہیں لیکن بدقسمتی سے ہم اور ارباب
اختیار خود میں اخلاقی قوت کی بیداری اور نمود کے لئے بھی کچھ نہ کرسکے،
حالاں کہ یہ حقیقت کسی سے پوشیدہ نہیں کہہمارے عوام میں اس قسم کی صلاحیتیں
(انتہا پسند) ہندوؤں کے مقابلے میں کہیں زیادہ اور بہتر ہیں، لیکن اصل امر
یہ ہے کہ ہمارے ہاں پارٹی بازی ایسی شدت اختیار کرگئی کہ ہمارے ارباب حل و
عقد کا سارا وقت جوڑ توڑ کی نذر ہوجاتا ہے اور مثبت کاموں کے لئے انہیں
فرصت ہی نہیں ملتی۔
ہمیں اس امر کا بلا تامل اعتراف کرلینا چاہے کہ اس وقت ہم اپنے صحیح خارجی
تعلقات استوار کرنے میں بری طرح ناکام ہیں، سب سے پہلے تو دیکھئے کہ ہمارے
دائیں بائیں اس قدر وسیع و عریض مسلم اکثریتی ممالک پر محیط خطہ تو دوسری
جانب غور کیجئے کہ تمام مسلم اکثریتی ممالک میں کتنے ایسے ہیں جن کی
درستداری پر ہم بھروسہ کرسکتے ہیں، برطانیہ، امریکہ اور یورپی ممالک سمیت
بیشتر مسلم اکثریتی ممالک کو بھی دیکھ لیجئے کہ کیا وہ بھارت کے مقابلہ میں
دل سے ہمارے طرف دار ہیں یا روس ہو یا امریکہ کی طرح بھارت کے چرنوں میں سب
بیٹھے نظر آتے ہیں، ہم نے امریکہ سے فوجی امداد کا فیصلہ جب کیا تو اس
فیصلے کو درست سمجھا گیا لیکن امریکہ نے صرف اپنے فروعی مفادات کے لئے
پاکستان کو استعمال کیا، جب کبھی مملکت کے خلاف، افغان و بھارتی شر
انگیزیاں اور مقبوضہ کشمیر کا تصادم کا معاملہ ہوا تو اس نے ہمارا ساتھ
نہیں دیا۔ خواہ ہم کتنے ہی حق بجانب کیوں نہ ہوں۔ روس کی رفاقت کو اشتراکت
کے اثرات سے محفوظ رہنے سے مشروط کرکے ایک ایسے مخصوص بلاک کا ایک ایسا حصہ
بن گئے، جو آج آنکھیں موندے منہ پھیرا ہوا ہے۔ چین اور روس کے ساتھ آبرو
مندانہ سیاسی اتحاد پہلے بھی وقت کی ضرورت تھا اور آج بھی اس کی اہمیت
زیادہ ہے۔ وقت نے ثابت کیا کہ چین کے ساتھ سیاسی اور سٹریجک اتحاد نے بڑے
دور رس نتائج دیئے۔
افغانستان کی نزاعی گتھی کو سلجھانے کی آج ہمیں پہلے سے زیادہ توجہ کی
ضرورت ہے کہ انہیں جس قدر غلط فہمیوں مبتلا رکھا گیا اور اس کی اب بھی بڑے
شد و مد کے ساتھ سازش کی جا رہی ہے، اس کے باوجود کوشش کی جاسکتی ہے کہ اُن
حقائق کو اِن کے اصلی رنگ میں وہ دیکھ سکیں جو ان سے چھپایا گیا۔ مسئلہ
کشمیر کے حل کے لئے سب سے پہلے اور زیادہ ضروری یہ ہے کہ ملک کے معاشی اور
معاشرتی حالات جو دن بدن خراب سے خراب تر ہوتے چلے جارہے ہیں انہیں کس طرح
سدھارا جائے، جہاں تک ہمارے معاشرتی حالات کاتعلق ہے، زندگی کا کوئی گوشہ
ایسا نہیں، جس میں ناسور نہ پڑ چکے ہوں، باقی رہا ہمارا معاشی نظام اس کی
حالت اور بھی زبوں ہے،آپ نے شیخ چلی کا وہ قصہ سنا ہوگا کہ اس نے اپنے آپ
کو کمرے میں بند کرلیا، اندر سے کنڈے لگالی اور پھر خود ہی رونے لگ گیا کہ
میں باہر کیسے نکلوں، شیخ چلی کسی خاص زمانے میں، خاص مقام میں پیدا نہیں
ہوا تھا، یہ ہر زمانے میں ہر جگہ موجود ہوتے ہیں، کہیں زیادہ، کہیں کم،لیکن
پاکستان میں با افراط پائے جاتے ہیں۔ |