بے خودی بے سبب نہیں غالب
(Asma Shirazi, Islamabad)
|
سیاست ریاضی نہیں تو سائنس ضرور ہے۔ سیاست
میں معجزے نہیں مگر تجربے ضرور ہوتے ہیں، اعجاز نہیں مگر ایجاد کی کوشش کی
جاتی ہے۔ سیاست ایک ایسی سائنس ہے جو ممکنات اور محرکات کے درمیان امکانات
کا نام ہے۔
گذشتہ ساڑھے تین سال سے ہونے والی سیاسی سرگرمیاں محض کاغذی کارروائی رہی
ہیں تاہم سنیچر کو لاہور کی دھندلی دوپہر میں ماڈل ٹاؤن کا سیاسی ظہرانہ
کسی اچنبھے سے کم نہ تھا۔ ایک چھت تلے بیٹھے زرداری صاحب اور بلاول بھٹو،
حمزہ، مریم اور شہباز شریف کسی سیاسی ارینجمینٹ کا ہی نتیجہ تھے۔
تحریک کراچی سے شروع ہوئی یا لندن سے، پہل کس نے کی، جمود کس نے توڑا اور
برف کیسے پگھلی یہ وہ سارے سوال ہیں جو تجزیہ کار بلا تکان زیر بحث لا رہے
ہیں۔ ظاہر ہے سیاسی تبصرہ نگار یہ مناظر دیکھنے کی نہ تو خواہش رکھتے تھے
اور نہ ہی اس کا امکان موجود تھا تاہم جس نے بھی اس کا مرکزی خیال دیا اُس
’مصنف‘ کو وقت کی کمی کا شدید اندازہ تھا۔
اور وہ سیاست دان ہی کیا جو وقت کی نبض پر ہاتھ نہ رکھے اور آدھی ریاضی اور
آدھی سائنس نہ آزمائے۔
پیپلز پارٹی اور ن لیگ کے درمیان میز پر چند فارمولے موجود ہیں۔
نمبر ایک: پنجاب میں فوری طور پر تحریک عدم اعتماد لائی جائے اور کامیاب
تحریک کی صورت وفاق پر دباؤ بڑھایا جائے۔
نمبر دو: وفاق میں کمزور ہوتی نمبرز گیم میں تحاریک عدم اعتماد کا سہارا
لیا جائے جبکہ سڑکوں پر عوامی دباؤ بڑھایا جائے۔
نمبر تین: وزیراعظم کے خلاف عدم اعتماد باقاعدہ کامیابی کی یقین دہانی کے
بعد عمل میں لائی جائے کیونکہ ناکامی کی صورت وزیراعظم کے خلاف چھ ماہ تک
کسی آئینی تبدیلی کی کوشش ممکن نہ ہو پائے گی۔
پنجاب میں تبدیلی پر اتفاق موجود ہے تاہم وہاں باگ کس کے ہاتھ آئے گی اس پر
تاحال حتمی فیصلہ نہیں ہو سکا۔ اس سب سیاسی تیزی کے پیچھے ’بے خودی بے سبب
نہیں غالب۔۔۔ کچھ تو ہے جس کی پردہ داری ہے؟‘
پیپلز پارٹی اور شہباز شریف عرصہ دراز سے اس فارمولے پر زور دیتے دکھائی دے
رہے تھے کہ تبدیلی کی سیاست پر عمل نہ کیا تو نہ سیاست مہلت دے گی اور نہ
ہی سیاسی کھلاڑی اگلی باری کا انتظار کریں گے۔
حقیقت تو یہ ہے کہ مقتدر حلقوں کے ڈرائنگ رومز میں بحث نہ تو اپوزیشن کی
سیاست پر ہو رہی ہے اور نہ ہی کپتان کی لیاقت پر تاہم بحث کا اصل موضوع
کمان کی تبدیلی یا توسیع ہی ہے اور یہی وہ اہم معاملہ ہے جس کی راہ میں آنے
والی ہر رکاوٹ یا ماحول کو سیاست سمجھ لیا گیا ہے۔
نومبر میں توسیع یا تکمیل کے مراحل سے قبل ایک نئی سیاسی بساط یا پُرانی کی
نئی آباد کاری کا معاملہ سیاسی اثر و رسوخ کے لیے اہم ہے۔ پیپلز پارٹی اس
بات کو پہلے سے سمجھتی تھی جبکہ ن سمجھ بوجھ کے باوجود اپنی مقبولیت کو اہم
فیصلوں میں تولنا چاہتی تھی اور اس کے درمیان ووٹ کو عزت دیتے ہوئے اپنی
سیاست کا تعین کرنا چاہ رہی تھی۔
ن لیگ کا مزاحمتی بیانیہ یا پیپلز پارٹی کا مفاہمتی نظریہ اور مولانا کا
مصالحتی رویہ ایک شفاف انتخاب کی منزل چاہتا ہے اور منزل کا حصول بظاہر
مقتدر حلقوں کی خواہش پر کچھ لو اور دو کی بنیاد پر طے ہو سکتا ہے۔
اب اس سارے منظر نامے میں بظاہر نہ نظر آنے والا کپتان کس طرح کم بیک کرے
گا، اسے کسی صورت نظر انداز نہیں کیا جا سکتا۔ کسی بھی عمل کا ردعمل ضرور
ہوتا ہے لیکن ردعمل کے لیے عوامی بیانیہ بھی اہم ہے۔
کسی بھی تحریک کی صورت کپتان وہ سیاسی بیانیہ کیسے بنائے گا اسے سمجھنے کے
لیے کسی سائنس کی نہیں بلکہ صرف ریاضی یعنی دو جمع دو کی ضرورت ہے۔ |
|