اتر پردیش کی انتخابی مہا بھارت اپنے شباب پر ہے۔ اس
مرتبہ امید تو تھی کہ وزیر اعظم نریندر مودی لنگوٹ کس کے دنگل میں کود پڑیں
گے لیکن ایسا نہیں ہوا۔ الیکشن کمیشن نے جلسہ جلوس پر پابندی لگائی تو وزیر
داخلہ گلی گلی گھوم کر ہینڈ بل بانٹنے لگے۔شاہ جی اس قدر جوش میں تھے کہ وہ
کورونا کو بھول کر اپنے تھوک سے پرچے الگ کرنے لگے اور اندھے بھکتوں نے
اپنی جان پر کھیل اسے خوشی خوشی لے کر دوسروں کو بانٹا۔ یہ اور بات ہے کہ
اس کے باوجود کورونا پھیلنے کے بجائے کم ہوگیا اور الیکشن کمیشن نے محدود
پیمانے پر انتخابی مہم چلانے کی اجازت دے دی۔ وزیر اعظم نے گلی محلے میں
گھوم کر ہینڈ بل تقسیم کرنے کو اپنے لیے کسرِ شان سمجھا اور اپنے گھر کے
اندر آرام فرماتے رہے تو لوگ باگ بھانت بھانت کی اٹکلیں لگانے لگے ۔ کسی
نے کہا کہ انہوں نے آر ایس ایس کا مشورہ مان کر صوبائی انتخابی مہم سے
اپنے آپ کو الگ کرلیا ہے ۔ کوئی بولا انہیں اپنی پارٹی کی شکست کا احساس
ہوگیا ہے اس لیے وہ اس کے حصہ دار بننا نہیں چاہتے ۔ کسی کو یہ گمان ہوا کہ
انہیں بنگال کی رسوائی یاد آگئی اور اسے دوبارہ جھیلنے کا خطرہ مول لینا
گوارہ نہیں کیا۔ خیر جتنے منہ اتنی باتیں ہو رہی تھیں کہ اچانک مودی جی کے
بجنور میں ریلی کو خطاب کرنے کی خبر آگئی اور سارا ہوائی قلعہ زمین دوز
ہوگیا۔ بجنور کا مہورت غلط نکلا لوگ نہیں آئے تومودی جی نے اپنا ارادہ ترک
کیا اور ایسا عذرِ لنگ پیش کیا کہ مذاق بن کر رہ گئے ۔
انتخابی موسم میں وزیر اعظم کی حالت ’جل بن مچھلی‘ جیسی ہوجاتی ہے۔ ان کو
کسی کروٹ چین نہیں آتا اور وہ کچھ نہ کچھ کرتے رہنا چاہتے ہیں ۔ حیدرآباد
سے واپس جانے کے بعد انہوں نے گودی نیوز ایجنسی اے این آئی کو ایک انٹرویو
دے کر پانچ صوبوں کے انتخاب سے لے کر کسانوں کا احتجاج اور تین زرعی قوانین
کی واپسی سمیت مختلف سوالات کا جواب دیا۔ انہوں نے جب کہا کہ میں نے تمام
ریاستوں میں بی جے پی کی طرف جھکاؤ دیکھا ہے اور ہم مکمل اکثریت سے الیکشن
جیتیں گے تو بے ساختہ ان کا جملہ ۲؍ مئی دیدی گئی یاد آگیا۔ اترپردیش کے
بارے میں اس خوش فہمی کا اظہار کیا کہ 2014، 2017اور 2019 میں بھی بی جے پی
کو کامیابی ملی اس لیے 2022 میں وہ دوبارہ ہمارا کام دیکھ کر ہمیں دوبارہ
قبول کریں گے۔اگر یہی بات تھی تو وہ بجنور کیوں نہیں گئے؟ اور یوگی کام
بتانے کے بجائے اسیّ بیس کا کھیل کیوں کھیل رہے ہیں ؟
وزیر اعظم نے نے کہا کہ جب کوئی پارٹی نسلوں تک خاندان کے ذریعے چلائی جاتی
ہے تو وہاں صرف خاندانی نظام ہوتا ہے۔ جموں اور کشمیر سے لے کر ہریانہ،
جھارکھنڈ، اتر پردیش اور تمل ناڈو میں اسی طرح کا رجحان دیکھا جا سکتا ہے۔
مودی کے مطابق یہ خاندانی سیاست جمہوریت کی سب سے بڑی دشمن ہے۔ یہ بات اگر
درست ہے تو ان کی پارٹی نےکشمیر میں محبوبہ مفتی، مہاراشٹر میں شیوسینا ،
پنجاب میں اکالی دل اور ہریانہ میں جے جے پی کے ساتھ الحاق کیوں کیا؟ ویسے
ان کی قیادت میں بی جے پی ہم دو ہمارے دو کی خاندانی منصوبہ بندی کا شکار
ہوگئی ہے۔ وزیر اعظم نے اتر پردیش میں سیکورٹی کے بارے میں کہا کہ پچھلی
حکومتیں، مافیا راج اور غنڈہ راج تھیں ۔ ان کے بیان کی لاج رکھنے کے لیے بی
جے پی امیدوار سنگیت سوم نے انتخابی افسر کو پولنگ کے دوران چانٹا مارا اور
میرٹھ میں سماجوادی پارٹی کے امیدوار بی جے پی والوں دوڑا دوڑا کر مارا۔
پنچایت انتخاب کے دوران نہ صرف امیدواروں کو اغواء کیا گیا بلکہ سماجوادی
خاتون امیدوار کے کپڑے پھاڑ دیئے گئے ۔ اس پر بھی وہ کہتے ہیں کہ پہلے
خواتین باہر نہیں نکل سکتی تھی اب نکلتی ہیں ۔ مودی سرکار کے اعدادو شمار
گواہ ہیں کہ پچھلے تین سالوں سے خواتین پر جرائم کے معاملے میں یوپی مسلسل
پہلے نمبر پر ہے اس لیے وہ کس کو بیوقوف بنارہے ہیں؟
یوگی سرکار کے اندر وزیر سواتی سنگھ کی ایک ویڈیو فی الحال ذرائع ابلاغ میں
گردش کررہی ہے جس میں وہ اعتراف کرتی ہیں کہ انہیں گھریلو تشدد کا شکار
ہونا پڑا ہے۔ وہ اپنے شوہر دیا شنکر سنگھ سمیت بی ایس پی سے نکل کر بی جے
پی میں آئی تھیں اور کمل کے نشان پر انتخاب جیت کر وزیر بنائی گئیں۔ سواتی
سنگھ نے 2008 میں بھی اپنے شوہر کے خلاف ایف آئی آر درج کرائی تھی۔ ان کا
مسئلہ بی جے پی میں آکر وزیر بننے کے بعد بھی حل نہیں ہوا۔خود سواتی سنگھ
پر اپنی بھابی کو گھر سے نکال کر بھائی کی قبل ازطلاق دوسری شادی کرانے کا
الزام ہے۔ ملک میں خواتین کے تحفظ کا اندازہ بی جے پی کی معروف رہنما بیبی
رانی موریہ کے ایک بیان سے اندازہ لگایا جاسکتا ہے جس میں انہوں نے خواتین
کو مشورہ دیا کہ پانچ بجے کے بعد وہ پولس تھانے میں نہ جائیں ۔ ان کا کہنا
تھا کہ مصیبت گھڑی کے کانٹے دیکھ کر نہیں آتی۔ اترپردیش کے لیے اس سے
زیادہ شرم کی بات اور کیا ہوسکتی ہے؟
اس بیچ حجاب کا مسئلہ سامنے آیا اور مسکان کے ساتھ زیادتی پر مودی جی کی
خاموشی خوب تنقید کا نشانہ بنی تو سہارنپورکی پہلی انتخا بی ریلی میں انہوں
نے کہا کہ میری سرکار ہر مظلوم مسلم خاتون کیساتھ کھڑی ہے۔ ان کی سرکار نے
3 طلاق قانون بنا کر مسلم خواتین کو اس ظلم سے نجات دلائی ہے۔اس سے ان میں
اپنے تحفظ کا احساس جا گا ہے اور خود اعتمادی بڑھی ہے۔اس کے بعد مسلم
خواتین بھی مودی مودی کررہی ہیں اور ان کی تعریف میں ویڈیو پوسٹ کررہی ہیں
اور بی جے کی حمایت میں کھل کر بول رہی ہیں۔ اس سے ووٹوں کے سوداگروں کی
نیند حرام ہو گئی ہے کہ ان کی بیٹیاں بھی مودی مودی کررہی ہیں۔ اس احمقانہ
گفتگو کو سن کر پہلا سوال تو یہ پیدا ہوتاہے کہ مذکورہ خواتین کس سیارے میں
رہتی اور بستی ہیں ؟ جب سے پرینکا گاندھی نے لڑکی ہوں میں لڑ سکتی ہوں کا
نعرہ لگایا ہےمسلمان تو دور ہندو خواتین نے بھی مودی مودی کہنا چھوڑ دیا
ہے۔
مودی جی کہتے ہیں کہ مسلم بہن بیٹیوں کے حقوق سلب کر نےاور ان کی ترقی رو
کنے کیلئے ان کو ورغلا یا جا رہا ہے حالانکہ حقیقت یہ ہے کہ ان بھیڑیوں کا
ورغلا کر سنگھ پریوار نے دماغ خراب کردیا ہے جو حجاب کی مخالفت کررہے ہیں ۔
مسلم خواتین نہ تو وزیر اعظم کے ساتھ ہیں اور نہ ان کی محتاج ہیں ۔ وہ اس
یوگی سرکار کو خوب جانتی ہیں جس نے این آرسی احتجاج کو لکھنو اور اعظم گڑھ
کے اندر سفاکی کے ساتھ کچل دیا تھا ۔اس وقت جو نعرہ بلند کیا گیا تھا کہ
’یاد رکھا جائے گا‘ اس پر عملدر آمد کا وقت آگیا ہے۔یہ نعرہ اسی دن کے
لیے تھا جس میں مودی جی کو تارے نظر آرہے ہیں ۔ وزیر اعظم نے غالباً پہلی
بار خلاف توقع ہندوستان کی جدوجہدِ آزادی کا ذکر کیا۔ اس بابت انہوں نے
بتایا کہ وہ صرف اپنے اقتدار اور اپنے حقوق کی لڑائی نہیں تھی۔ اس لڑائی
میں ایک طرف ’نوآبادیاتی ذہنیت‘ تھی اور دوسری طرف ’جیو اور جینے دو‘ کا
نظریہ تھا۔
یہ بات تودرست ہے لیکن سوال یہ ہے کہ ہندو مہاسبھا اور آر ایس ایس کس کے
ساتھ تھی ؟ نوآبادیاتی ذہنیت کے خلاف گاندھی جی نےجیو اور جینے دو کا
نظریہ پیش کیا تھا لیکن ان کو قتل کرنے والے گوڈسے کی دلدادہ ان کی پارٹی
میں کیا کررہے ہیں ؟ ان کو مودی سرکار کی پشت پناہی کیوں حاصل ہے؟ مودی یگ
میں ’جیو اور جینے دو‘ کے تحت دھرم سنسد کا انعقاد کیا جاتا ہے؟ اور وہاں
کھلے عام مسلمانوں کی نسل کشی کا اعلان بھی اسی مقصد کے لگایا جاتا ہے؟ اسی
دھرم سنسد میں ’ جیو اور جینے دو‘ کا نظریہ پیش کرنے والے گاندھی جی کے قتل
کو جائز کیوں ٹھہرایا جاتا ہے ؟ اور حکومت کیوں خاموش تماشائی بنی رہتی ہے؟
ہندوستان کی جدوجہد آزادی میں مساوات، انسانیت اور روحانیت کی تعریف و
توصیف کرنے والے وزیر اعظم کو بتانا پڑے گا کہ فی زما نہ وہ اقدار کیوں
کرمفقود ہوگئی ہیں ۔ تیلگو ثقافت کے تنوع کا ذکر کرتے ہوئے انہوں نے
بادشاہوں کی طویل روایات کو بھی یاد کیا اور اسے مشعل راہ ٹھہرایا مگر یہ
سبق تو انہیں اپنے دست راست امیت شاہ اور بسوا سرما کو دینا چاہیے کہ جو
’نظام ‘ کا نام لے کر مسلمانوں کے خلاف انسانیت کے بجائے شیطانیت کا زہر
پھیلاتے ہیں ۔ ’چراغ تلے اندھیرا‘ والی کہاوت کسی اور پر نہیں تو کم ازکم
مودی جی پر ضرور صادق آتی ہے۔
|