کس کا ساتھ ، کس کا وکاس اور کس کا وشواس؟

مودی جی نے جب دیکھا کہ اترپردیش میں دال نہیں گل رہی ہے تو خبر میں رہنے کی خاطر تلنگانہ پہنچ گئے کیونکہ وہ جہاں بھی جاتے ہیں سایہ کی طرح کیمرا ساتھ ہوتا ہے اور وہ انہیں دنیا بھر میں پہنچا دیتا ہے۔ انتخابی موسم میں ٹیلی ویژن پر نظر آنا بہت ضروری ہے۔ اس مقصد کے حصول کی خاطر انہوں بھگوا لباس پہن کر پوجا ارچنا شروع کردی گویا وارانسی پارٹ ٹو بنانے لگے مگر اس رنگ میں بھنگ کے سی آر کی بیماری کے بہانے نے ڈال دیا ۔ انہوں ایسا گھسا پٹا بہانا بناکر استقبال میں آنے سے کنی کاٹی کہ لوگوں کو بے ساختہ پنجاب کے وزیر اعلیٰ گروچرن سنگھ چنیّ یاد آگئے ۔ یار دوستوں نے ان دونوں کو جوڑ کر بات بتنگڑ بنایا لیکن ایک بڑا فرق تھا ۔ چنیّ کی کانگریس تو بی جے پی کی ازلی دشمن ہے مگر تلنگانہ کی ٹی آر ایس ایسی نہیں تھی ۔ اس نے ایم آئی ایم کے ساتھ الحاق کے باوجود ہر نازک موقع پر بی جے پی کا ساتھ دیا تھا ۔ ایسا لگتا تھا گویا دونوں نےخفیہ نکاح کررکھا تھا۔ ٹی آر ایس کے ناراض ہونے کی سیاسی وجہ یہ ہے کہ ایوان پارلیمان میں حمایت لینے والی بی جے پی نےدھیرے دھیرے اسی کی جڑ کاٹنا شروع کردی۔

بی جے پی نے حیدر آباد کا بلدیاتی انتخاب بڑے زور وشور سے لڑامگر وہ ایم آئی ایم کا تو کچھ بھی نہیں بگاڑ سکی الٹا ٹی آر ایس سے چالیس نشستیں نگل کر جشن منایا۔ اس کے بعد دوباک میں ٹی آر ایس کے رکن اسمبلی کوجب بدعنوانی کے سبب پارٹی نے نکال باہر کیا تو وہ گنگا نہانے کی خاطر بی جے پی میں شامل ہوگئے اور اس نے انہیں اپنا امیدوار بنادیا۔آگے چل کر یہ ہوا کہ اس باغی نے اپنی مادر تنظیم ٹی آر ایس کو شکست فاش سے دوچار کردیا۔ اس کے بعدوزیراعلیٰ راجیشور راو کی سمجھ میں آیا کہ وہ بی جے پی کا ساتھ دے کر خود اپنی چتا جلا رہے ہیں۔ مسلمانوں کے ووٹ لے کر ان کی پیٹھ میں چھرا گھونپنے والی ٹی آر ایس کو کوئی خطرہ اس لیے نہیں تھا کیونکہ مسلم امت کے سب سے بڑے سیاسی وکیل کو اس نے اپنا حلیف بنا رکھا ہے۔ اس لیے جو تلوار کانگریس اور سماجوادی کے خلاف بے نیامی ہوتی وہ اس پر پھول برساتی ہے لیکن جب اپنے سیاسی مفادات پر آنچ آئی تو اس نے ہوش کے ناخون لیے۔

سیاسی جماعتوں کا مسئلہ یہ ہے کہ ان کا ہر فیصلہ انتخابی مفادات کے پیش نظر ہو تا ہے مگر اس کا عتراف نہیں کیا جاتا ۔ اس لیے وزیر اعظم کے دورے سے قبل ٹی آر ایس کے ریاستی وزیر بلدی نظم و نسق کے ٹی آر نے وزیراعظم نریندر مودی کی کھل کر تنقید کی۔ ا نہوں نے بجٹ کے حوالے سے کہا کہ ریاست کے لیے ایک بھی تعلیمی ادارہ مختص نہیں کیا گیا اور نہ ہی اس کے کسی آبپاشی پراجکٹ کو قومی درجہ دیا گیا۔ اس کے علاوہ دیگر ترقیاتی کاموں کے لیے فنڈز نہیں جاری کئے گئے ۔ محبوب نگر میں اپنی سرکار کی کامیابیاں گنانے کے بعد کے ٹی آر نے انکشاف کیا کہ مودی حکومت نے ملک بھر میں 157 میڈیکل کالجس منظور کئے جس میں تلنگانہ کے لیے ایک بھی میڈیکل کالج کی منظوری نہیں ہوئی ۔ 8 نئے آئی آئی ایمس منظور کئے گئے مگر تلنگانہ کے حصے میں ایک بھی نہیں آیا ۔ 100 نوودیالیہ اسکولس کی فہرست میں تلنگانہ کانام و نشان غائب تھا ۔

کے ٹی آر نے صاف کہا کہ ایک طرف تعلیمی معاملات میں وزیر اعظم نریندر مودی ریاست تلنگانہ کے ساتھ نا انصافی کررہے ہیں اور دوسری جانب حیدرآباد کا دورہ کرکے مساوات کا درس دینے والے مجسمہ کی رونمائی فرمارہے ہیں ۔ تعلیم کے علاوہ آب پاشی کے شعبے میں ناانصافی کا ذکر کرتے ہوئے انہوں نے بتایا پالمور ، رنگاریڈی پراجکٹ کو قومی درجہ دینے کے بجائے کرناٹک کے اپربھدرا پراجکٹ کو قومی درجہ دے کر مودی سرکار نے تلنگانہ کے ساتھ امتیازی سلوک کیا ہے۔ جس جماعت کو وزیر اعظم سے اس قدر شکایات ہوں اس کا وزیر اعلیٰ اگر استقبال کے لیے نہ آئے تو اس میں تعجب کی کون سی بات ہے؟ اس بابت پنجاب کے وزیر اعلیٰ نے جو روایت قائم کی کے سی آر نے اسے آگے بڑھا دیا ۔ مودی جی کے لیے یہ تشویشناک صورتحال ہے کہ ایک زمانےمیں لوگ ان کے ساتھ تصویر نکالنے کواپنے لیے سعادت سمجھتے تھے ۔ اس کےبعد وہ وقت آیا کہ ڈر کے مارے بادلِ نخواستہ آجاتے تھے لیکن اب بلاخوف و خطر بہانہ بناتےہیں ۔ کوئی قومی رہنما جب سیاسی مفادات کے پیش نظر اپنا پرایا کرنے لگے تو اس کا یہ ردعمل فطری ہے۔

وزیر اعظم نریندر مودی کو اگر یہ بتایا دیا گیا ہوتا کہ حیدرآباد میں دورے کے خلاف یہ کھچڑی بلکہ بریانی پک رہی ہے تو وہ احتیاط کے ساتھ جاتےاور اتنی مایوسی بھی نہیں ہوتی۔امیت شاہ چاہتے تو تھوڑ بہت بلیک میل کرکے انہیں راضی بھی کرسکتے تھے مگر فی الحال وہ دست راست اتر پردیش میں اس قدر مصروف ہے کہ اتراکھنڈ سے بھی غافل ہوچکا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ 11 ویں صدی کے سنت شری رامانوج آچاریہ کا 216 فٹ بلند مجسمہ مساوات کے افتتاحی تقریب میں کرکری ہوگئی۔ اس موقع پر وزیر اعظم نے فرمایا شری رامانوج آچاریہ نے قومیت، جنس، نسل، ذات یا عقیدے سے قطع نظر انسانی مساوات کانظریہ پیش کرکے تمام لوگوں کی ترقی کے لیے انتھک محنت کی۔ یہ بات درست ہے لیکن سوال یہ ہے کہ اُس وقت اس کی ضرورت کیوں پیش آئی ؟ کون سانظریہ تھا جس نے انسانی مساوات کو پامال کررکھا تھا ۔ جنس ، نسل اور ذات یا عقیدے کی بنیاد پر تفریق و امتیاز کرنے والےکون لوگ تھے ؟ اس وقت تو مسلمان ہندوستان آئے ہی نہیں تھے اس لیے ان کو ذمہ دار نہیں ٹھہرایا جاسکتا ۔

وزیر اعظم نے سب کے لیے سماجی انصاف مہیا کرنے اور ان سبھی لوگوں کو جو صدیوں سے مظلوم رہے ہیں ، پورے وقار کے ساتھ ملک کی ترقی میں شراکت دار بنانے کی بات کہی۔ وطن عزیز میں صدیوں سے مظلوم طبقات کون سے ہیں؟ ان پسماندہ طبقات پرکن بنیادوں پر کون ظلم کررہا ہے؟ ان سوالات کے ساتھ وزیر اعظم کو اس کا جواب بھی دینا پڑے گا کہ کیا فی الحال وطن عزیز میں ان بنیادوں پر بھید بھاو بند ہوگیا ہے ؟ اور مودی جی کے اقتدار نے اس میں اضافہ کیا ہے یا کمی کی ہے؟ بظاہر تو یہی نظر آتا ہے کہ پسماندہ طبقات پر مظالم میں اضافہ ہوا ہے۔ سرکاری اعدادوشمار اس کی تائید کرتے ہیں۔ آخری سوال یہ ہے کہ مجسمۂ مساوات اس کو کم کرنے میں کیا کردار ادا کرے گا ؟وزیر اعظم انگریزوں کی نسلی برتری اور مادیت کے جذباتی ہیجان پر تو تنقید کرتے ہیں مگر ان کا اپنا پریوار آئے دن نسلی برتری کی بنیاد پر ظلم و ستم کا بازار گرم کیے ہوئے اور مسلمان ودیگر پسماندہ طبقات اس کا شکار ہو تے ہیں۔ وزیر اعظم اس کے خلاف جس انسانیت اور روحانیت کی تعریف کی ہے وہ کہاں ہے؟ مودی جی اگر ملک میں حقیقی اتحاد و مساوات پیدا کرنا چاہتے ہیں تو یہ کام محض سردار پٹیل کے 'مجسمہ اتحاد ' اور رامانوج آچاریہ کا 'مجسمہ مساوات ' قائم کردینے سے نہیں ہوگا۔

وزیر اعظم کہیں جائیں اور اپنا پر چار نہ کریں یہ کیونکر ممکن ہے اس لیے انہوں نے شری رامانوج آچاریہ کے حوالے سے کہا کہ یہ عظیم مجسمہ ہمیں مساوات کا پیغام دے رہاہے اور اس پر عمل کرتے ہوئے وہ 'سب کا ساتھ، سب کا وکاس، سب کا وشواس، اور سب کا پرایاس' کے نعرے کی مدد سے ایک نئے مستقبل کی بنیاد رکھ ر ہے ہیں ۔ ابتداء میں یہ نعرہ صرف ’سب کا ساتھ اور سب کا وکاس ‘ تھا۔ یہ چورن قوم کو پانچ سالوں تک کھلایا گیا لیکن مودی سرکار نہ تو سب کا ساتھ دیا اور نہ لیا ۔ وہ تو اڈانی اورامبانی کا ساتھ دیتی رہی انہیں کا وکاس (ترقی) ہوا باقی سب ہتاش (مایوس) ہوئے ۔ اس کے باوجود سرجیکل اسٹرائیک کی مدد سے 2019ء میں دوبارہ انتخابی کامیابی درج کرانے کے بعد اس نعرے میں ’سب کا وشواس‘ بڑھا دیا گیا۔

آگے چل کر جب عوام کا وشواس یعنی یقین ڈگمگانے لگا اور اس اظہار یکے بعد دیگرے صوبائی انتخابات کی شکست کے طور پر ظاہر ہوتا چلا گیا تو بڑی چالاکی سے ’سب کا پریاس ‘( سب کی کوشش) اس میں جوڑدیا گیاتاکہ اگر وکاس (ترقی) نہ ہو تو اس کے لیے عوام کو موردِ الزام ٹھہرا کر کہہ دیا جائے کہ لوگوں نے ٹھیک ڈھنگ سے کوشش ہی نہیں کی اس لیے یہ ہدف حاصل نہیں ہوسکا۔ سچائی تو یہ ہے کہ حکومت اگرسرمایہ داروں سے سانٹھ گانٹھ کرکے عوامی کوششوں پر پانی پھیرنے لگے تو وہ بیچارے کیا کرسکتے ہیں؟ وزیر اعظم نے اپنے حیدر آباد دورے کے موقع پر زور دے کر کہاکہ ہندوستان آج بلا تفریق سب کی ترقی کے لیے اجتماعی طور پر کام کر رہا ہے۔ یہ دعویٰ اگر مبنی برحقیقت ہوتا تو تلنگانہ کے کے ٹی آر کو شکایت کیوں ہوتی ؟ اور وزیر اعلیٰ کو بیماری کا بہانہ کرنے کی ضرورت کیوں پیش آتی؟
(۰۰۰۰۰۰۰جاری)

 

Salim
About the Author: Salim Read More Articles by Salim: 2124 Articles with 1451983 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.