ایک زمانے میں نعرہ لگتا تھا ’سب کا ساتھ سب کا وکاس ‘۔
اب لگتا ہے ’مودی جی کا ساتھ بدعنوانی کا وکاس‘۔ اس نعرے کا جیتا جاگتا
ثبوت ’اے بی جی ‘ گھوٹالا ہے۔ یہ کوئی مفروضہ نہیں بلکہ حقیقت ہے کہ جن کو
مودی جی کی سرپرستی حاصل ہوتی ہے ہندوستان کی کوئی طاقت اس کا کچھ بھی بگاڑ
نہیں سکتی۔ کون نہیں جانتا کہ ہندوستانی وزارت خارجہ نے 24 فروری(2018)
کونیرو مودی کا پاسپورٹ منسوخ کردیا تھا ۔ اس کے باوجود مودی جی کے منظورِ
نظر نے 3 ممالک کا 4 مرتبہ سفر کیااور سرکار آنکھ موند کر بگلا بھگت بنی
رہی ۔ مودی جی کےانجکشن سے سارے سرکاری ادارے کمبھ کرن کی نیند سوتے رہے ۔
یہ انکشاف کسی سرکار دشمن صحافی نے نہیں کیا بلکہ 5 جون ((2018 کو
ہندوستانی ایجنسیوں کو تحریرکردہ خط میں انٹرپول نے اس کی اطلاع دی۔ اس کے
مطابق نیرو مودی نے 15 مارچ، 28 مارچ، 30 مارچ اور 31 مارچ کو ہندوستانی
پاسپورٹ پر امریکہ، برطانیہ اور ہانگ کانگ کا سفر کیا۔ یہ کوئی بھوٹان ،
نیپال یا مالدیپ جیسے مسکین ممالک نہیں ہیں جہاں لے دے کر کام چل جاتا ہے۔
نیرو مودی اور اس کے ماموں میہول چوکسی کے خلاف جنوری میں سرکاری بینک پی
این بی کے ساتھ 13،500 کروڑ روپے کی دھوکہ دہی کرنے کی شکایت درج کرائی گئی
تھی۔ یہ بدعنوانی منظر عام پر آئی تو دونوں ماموں بھانجہ اسی ماہ چاچا جی
کی مدد سے فرار ہو گئے اور ہنوز نہیں لوٹے ۔ اس واردات نے ان کا ریکارڈ
توڑنے والے رشی اگروال کا حوصلہ کس قدر بلند کیا ہوگا اس کا اندازہ لگانا
مشکل نہیں ہے۔ اس نے سوچا ہوگا’ مودی ہے تو ممکن ہے‘ اور یہ درست بھی ہے
کیونکہ مودی ہے تو کچھ بھی ممکن ہے۔ فی الحال سی بی آئی کو خدشہ ہے کہ اپنے
پیش رو نیرو مودی اور میہول چوکسی کے نقشِ قدم پر چلتے ہوئے رشی کمار
اگروال بھی ملک سے فرار ہوسکتا ہے۔ اس لیے اس نے اب تک کے سب سے بڑے 22
ہزار کروڑ سے زیادہ کی بنک گھپلے بازی معاملہ میں رشی اگروال سمیت اے بی جی
شپ یارڈ کے دیگر ڈائریکٹروں کے خلاف لُک آؤٹ سرکلر جاری کر دیا ہے۔ مرکزی
تفتیشی ایجنسی نے اپنی اس کارروائی کے ذریعہ ان ملزمان کو ہوائی اڈے یا کسی
اور راستے سے بیرون ملک فرار ہونے سے روکنا چاہتی ہے۔
سی بی آئی کو خوش گمانی ہے کہ مذکورہ شپنگ کمپنی کے ڈائریکٹرز رشی اگروال،
سنتھانم متھوسوامی اور اشونی کمار سمیت تمام ملزمان تاحال ہندوستان میں
موجود ہیں لیکن سوال یہ ہے کہ کیا یہ لوک آوٹ نوٹس انہیں روک سکے گا؟ اور
اگر وہ ملک کے اندر موجود ہیں تو گرفتاری میں اس قدر تاخیر کی وجہ کیا ہے؟
اس موقع پر نیرو مودی کے پیش رو وجئے مالیا کی یاد آتی جس سے ترغیب لے کر
اس نے اتنا بڑا گھوٹالا کیا تھا ۔ اپریل 2016 میں جب مودی جی اپنے اقتدار
کی دوسری سالگرہ منا رہے تھے جی ایم آر نامی کمپنی نے عدالت میں مالیا کی
جانب سے دیئے گئے چیک کے باؤنس ہونے کی شکایت کردی ۔اس کے بعد حیدر آباد
کی ایک عدالت نے اس کے خلاف غیر ضمانتی وارنٹ جاری کردیا۔ مالیا پر 9 ہزار
کروڑ روپے سے بھی زیادہ کا قرض تھا اس کے باوجود اسے گرفتار نہیں کیا گیا
بلکہ اس کے فرار کی راہیں آسان کی گئیں ۔ ’نہ کھاوں گا اور نہ کھانے دوں
گا ‘ کا نعرہ لگانے والی سرکار نے یہ کام جس بے حیائی کے ساتھ کیا اس کی
تفصیل دلچسپی سے خالی نہیں ہے۔
رشی کمار اگروال اور اس کے ساتھیوں کے خلاف جیساتلاشی کا حکمنامہ فی الحال
جاری ہو اہے اسی طرح کا لوک آوٹ نوٹس 16؍اکتوبر2015کو وجئے مالیا کے خلاف
بھی نکلا تھا ۔ اس کے مطابق اسے ایمگریشن کاونٹر پر پہنچتے ہی گرفتار کیا
جانا چاہیے تھا ۔ اس کے باوجود وہ غیر ملکی سفر کرتا رہا اور کسی میں اس کو
گرفتار کرنے کی ہمت نہیں ہوئی ۔ رکن پارلیمان وجئے مالیا 24؍ نومبر2015
کوجب وطن لوٹا تو کسی نے اسے نہیں ٹوکا اور بلا روک ٹوک اپنے گھر پہن گیا۔
اس کے بعد یہ چمتکار ہوا کہ اسی دن مالیا کے خلاف جاری ہونے والی نوٹس میں
سی بی آئی ترمیم کردی۔ اس تبدیلی کے بعد ایمگریشن افسران سے کہا گیا کہ وہ
صرف نقل و حرکت کی اطلاع دیں مگر گرفتار کرنے کی زحمت نہ کریں ۔ مودی سرکار
جس طرح سی بی آئی کو اپنے اشارے پر نچارہی ہے اس کے پیش نظر کیا کوئی اس
بات کی توقع کرسکتا ہے کہ حکومت کی تائید کے بغیر یہ ترمیم عمل میں آئی
ہوگی۔ اس کے بعد ایوان بالا کے اجلاس میں بھی وجئے مالیا کے درشن ہوتے ہیں
۔
مودی سرکار کے ذریعہ فراہم کردہ آسانی کا فائدہ اٹھا کر وہ مجرم یکم دسمبر
تا سات دسمبرایک غیرملکی سفر پر نکل گیا ۔ واپس آنے کے بعد پھر سے
23؍فروری 2016کو ویسٹ انڈیز کے شہر باربڑوز پہنچ گیا تاکہ کیریبین لیگ کے
لیے ٹی ٹونٹی کی ٹیم خرید سکے۔ اس دورے میں اس نے وہاں کے وزیر اعظم سٹوارٹ
فرونڈل سے ملاقات کی اور باربڈوزٹرائیڈنٹ خرید کر لوٹا۔ یہ تفصیل اس لیے
پیش جارہی تاکہ پتہ چلے ایک ۹؍ ہزار کروڈ روپیہ کا گھپلا باز مودی دور میں
کس طرح عیش فرماتاہے ۔ وجئے مالیا جب فرار ہورہا تو ا سے ایک فرض شناس افسر
نے ہوائی اڈے پر روک کر حسبِ قانون سی بی آئی کو فون کردیا ۔ اس پر ہونا
تو یہ چاہیے تھا کہ سی بی آئی مالیاکو گرفتار کرنے لیے آتی اور افسر کو
انعام و اکرام سے نوازہ جاتا لیکن الٹا افسر کی سرزنش ہو گئی۔ سی بی آئی
نے اس پر صفائی دی کہ وہ جونیر افسر حکمنامہ میں تبدیلی سے ناواقف تھا اس
لیے روکنے کی غلطی کربیٹھا ۔
وجئے مالیا کے فرار کی پردہ پوشی کے ایک منصوبہ بند بیانیہ تیار کرکے اس کا
راگ الاپا گیا۔ سب سے پہلے سی بی آئی کے ڈائرکٹر انل سنہانے کہا کہ اسٹیٹ
بنک آف انڈیا نے وجئے مالیا کے خلاف اقدام نہیں کیا اس لیے اسے ازخود نوٹس
لےکر سو موٹو کارروائی کرنی پڑی ؟ یہ دعویٰ اگر درست بھی ہوتو سوال یہ پیدا
ہوتا ہے کہ اس نے وجئے مالیا کو سات بڑے صندوقوں کے ساتھ فرار ہونے میں
آسانی فراہم کرنے کے سوا کارروائی ہی کیا کی؟ جو بات سنہا نے پریس کانفرنس
میں کہی وہی بیان ملک کے وزیر خزانہ آنجہانی ارون جیٹلی نے ایوان کے اندر
دیا کہ ان کی گرفتاری کے ایس بی آئی نے اقدام کرنے میں تاخیر کی اس لیے
ساری غلطی اس کی ہے۔ اس بیان کو اگر درست مان لیا جائے تو سوال یہ ہے کہ
ایس بی آئی کے افسران کو سازش میں شامل ہونے کی سزا کیوں نہیں دی گئی؟ کیا
سرکار بھی اس سازش میں حصہ دار تھی جو زبانی جمع خرچ پر اکتفاء کرلیا گیا ؟
پارلیمانی امور کےمرکزی وزیر راجیو پرتاپ روڈی نے اپنا دامن جھٹکتے ہوئے
کہا کہ ہم اسے کوئی سنت مہاتما نہیں سمجھتے ۔ این ڈی اے سرکار نے اسے ایک
پیسہ بھی نہیں دیا۔ سوال یہ نہیں ہے کہ این ڈی اے اس کو کیا دیا بلکہ پوچھا
یہ گیا تھا کہ اسے بھاگنے میں آسانی فراہم کرنے کے عوض مودی سرکار نے کیا
لیا؟ ویسے روڈی کو یہ نہیں معلوم کہ وجئے مالیا کو یو پی اے سرکار نے بھی
قرض نہیں دیا تھا بلکہ اس کے زمانے میں کنگ فشر نے بنکوں سے قرض لیا تھا ۔
این ڈی اے حکومت کے دوران اس کے چیک باونس ہوئے اور قرض خواہان نے شکایت کی
تو اس نے وجئے مالیا کو پہلےتو تحفظ فراہم کرنے کا جرم کیا اور پھر ایک
کامیاب منصوبے کے مطابق فرار ہونے میں مدد کی۔ کنگ فشر پر 9000 کروڑ روپئے
قرض کا دعویٰ لے کرجب بینکوں نے وصولی کے لیے سپریم کورٹ سےدرخواست کی کہ
اس کے ملک چھوڑنے پر پابندی لگا ئی جائے تو اس وقت تک چڑیا پنجرے سمیت اڑ
چکی تھی۔
عدالتِ عظمیٰ میں سماعت کے دوران سرکاری وکیل یعنی اٹارنی جنرل نے یہ
انکشاف کیا کہ وجئے مالیا تو 2؍ مارچ کو ہی ملک چھوڑ چکاہے حالانکہ فرار
ہونے سے دو دن قبل ٹویٹ کر کے اس نے کہا تھا کہ ’’میں بھگوڑا نہیں ہوں ۔
بین الاقوامی تاجر ہوں اور سفر کرتا رہتا ہوں ‘‘۔ وقت نے ثابت کردیا کہ وہ
تاجر نہیں بلکہ ایک ایسا دھوکے باز تھا جس کو سرکار سرپرستی حاصل تھی۔ وجئے
مالیا کے ساتھ مودی سرکار کا یہ حسن سلوک دیکھ کر نیرو مودی کا حوصلہ بڑھا
۔ اس نے سوچا ہوگا جب مالیا کا اتنا عیش ہے تو میں بھی گجرات کا مودی ہوں ۔
میرا کوئی کیا بگاڑ سکے گا؟ اسی لیے نیرو مودی نے وجئے مالیا کا ریکارڈ توڑ
دیا اور 13،500کروڈ کا گھپلا کر کے بھاگ گیا ۔ اس طرح مودی یگ میں بدعنوانی
کا وکاس ہوتا چلاگیا یہاں تک کہ رشی کمار اگروال نے اسٹیٹ بینک آف انڈیا
سمیت 28 بینکوں کو 22842 کروڑ روپے کا چونا لگا دیا ۔
(۰۰۰۰۰۰۰جاری)
|