آگ ہے اولادِ ابراہیم ہے نمرود ہے - قسط اول

اوسلو میں وزیر اعظم جینس اسٹوٹنبرگ کی کوٹھی کے باہر جس وقت بم دھماکہ ہوا امریکی خفیہ ایجنسی ایف بی آئی کشمیری رہنما اوردانشورغلام نبی فائی کو پریشان کر رہی تھی اور ممبئی پولس انڈین مجاہدین کا پیچھا کر رہی تھی۔ جب اوسلو سے بیس میل کے فاصلے پر یوٹویا نامی جزیرے میں ایک وحشی درندہ حکمراں لیبر پارٹی کے نوجوانوں کی شاخ کے تربیتی اجتماع کےبےخطا شرکاء پر گولیاں برسا رہا تھا امریکی صدر براک اوبامہ نیوزی لینڈ کے وزیرِاعظم سے ملاقات کررہے تھے ۔گولی باری کی اس دھماکہ خیز خبر پر بھلا امریکی صدر کیونکر چپ رہ سکتا تھا اس لئے اوبامہ نے آؤ دیکھا نہ تاؤ اور اپنے پیش رو جارج بش کی مانند بول پڑے‘‘یہ بین الاقوامی برادری کیلئے ایک یاددہانی ہے کہ اس طرح کی دہشت کو روکنا انکی اولین ذمہ داری ہے اور ہمیں انٹلی جنس نیز حملوں کی روک تھام کےعملی اقدامات میں باہم تعاون کرنا چاہئے گویا اوبامہ نے ان واقعات کو بلاواسطہ اپنی نام نہاد دہشت گردی کے خلاف جنگ سے جوڑ دیا۔مثل مشہور ہے خربوزے کو دیکھ کر خربوزہ رنگ بدلتا ہے اس لئے نیوزی لینڈ کے وزیراعظم جان کیری نے اوبامہ کی تائید میں کہا اگر یہ عالمی دہشت گردی کا واقعہ ہے تو میرے خیال میں اس سے یہی ثابت ہوتا ہے کوئی بڑا یا چھوٹاملک ان خطرات سے محفوظ نہیں ہے اور یہی وجہ ہے کہ نیوزی لینڈ افغانستان میں اپنا کردار ادا کر رہا ہے تاکہ امریکہ اور دیگر ممالک کے تعاون سے دنیا کو محفوظ تر بنایا جاسکے ۔بیچارے جان کیی کا کوئی قصور نہیں اگر ان کی جگہ پاکستان کا صدر یا ہندوستان کا وزیراعظم ہوتا تب بھی اپنے آقا کے آگے اسی طرح دُم ہلاتا ۔ ویسے اگر ممبئی پولیس کے اردلی کی رائے طلب کی جاتی تو اس میں اور اوبامہ یا جان کیی کے بیان میں کوئی فرق نظر نہیں آتا اسے کہتے ہیں ذہنی ہم آہنگی اورباہم یکجہتی لیکن یاد رکھنا چاہئے کہ لوگوں کا ہم جہت ہوجانا اور اس جہت کاحق بجانب ہونا یہ دونوں مختلف چیزیں ہیں ۔اکثر لوگوں کا آہنگ یکساں توہوجاتا ہے لیکن وہ آہنگ درست نہیں ہوتا مثلاً اس سے پہلے کہ ناروے کی پولیس اس خطرناک دہشت گرد کو گرفتار کرتی نیویارک ٹائمز نے امریکی ماہرمحقق میک کینٹ کے حوالے یہ انکشاف کیا کہ انصار الجہاد العالمی یعنی جہاد اسلامی کے عالمی مددگارنامی ایک دہشت گرد گروہ نے دھماکے کی ذمہ داری قبول کر لی ہے ۔اس خیالی تنظیم اور انڈین مجاہدین میں نام کے علاوہ کوئی اور فرق نہیں ہے ۔

"اوسلو" کی اس قابلِ مذمت واقعہ پر اگر امریکی صدر ‘‘گوسلو’’ کی پالیسی پر عمل پیرا ہوتے تو بہتر تھا لیکن معیشت تو ویسے ہی دھیمے دھیمے اپنی اکھڑتی ہوئی سانسیں گن رہی ہے ۔ری پبلکن کسی صورت قرض کی حد بڑھانے پر راضی نہیں ہورہے امریکہ دن بدن تیزی کے ساتھ اپنے دیوالیہ پن کی جانب گامزن ایسے میں اوبامہ جیسا گھاگ سیاست دان اپنی ناکامیوں پر پردہ ڈالنے والے اس نادر موقع کو کیونکر گنوا سکتا تھا۔ دراصل امریکی حکام اور ان کے حواریوں نے سوچا کہ یہ ان کی ہی کسی پالتوتنظیم کا کام ہوگا جو کبھی سامنے نہیں آئیگی اور یہ لوگ اس کے پسِ پردہ اسلام کی مخالفت کےاپنے گھناؤنے ارادوں کو بروئے کار لائیں گے لیکن قدرت کو اس بار کچھ اور منظور تھا ۳۲ سالہ بریوک نے بڑی بہادری کے ساتھ اپنی کارکردگی کا اعتراف کرلیا جسے وہ جرم نہیں سمجھتا۔ اس کے اپنے وہم و گمان کے مطابق وہ حالت جنگ میں ہے اور ایسی صورتحال میں چونکہ یہ ضروری ہو گیا تھا کہ معصوموں کی خونریزی کی جائے اس لئے یہ کوئی گناہ نہیں بلکہ کار خیر ہے۔ یہ ہے نصرانی مغرب کا معیار اخلاق جس کو خوشنما پردوں میں چھپا کر ساری دنیا کے عوام کو بے وقوف بنایا جاتا ہے ۔اس کام کو کس طرح انجام دیا جاتا ہے اس کی مثال ملاحظہ فرمائیں امریکی خفیہ ایجنسی ایف بی آئی نے ۲۰۰۵ میں جب دہشت گردی کے متعلق اپنی تحقیقات کو شائع کیاتوذرائع ابلاغ نے اعلان کیا سارے دہشت گرد مسلمان ہیں سوائے ۹۴ فیصد کے جی ہاں ۱۹۸۰ سے لیکر ۲۰۰۵ تک امریکی سرزمین پر ہونے والے دہشت گردی کے اعدادوشمار بتلاتے ہیں کہ ان میں سے ۶ فیصد کا تعلق مسلمانوں سے تھا۴۲ فیصد لاطینی،۲۴ فیصد انتہا پسند دایاں بازو جیسے ہندوستان کے نکسلوادی اور تو اور امریکیوں کے منظور نظر انتہا پسند یہودی بھی مسلمانوں سے آگے ہیں اور ان کا حصہ ۷ فی صد تھا ۔عام دائیں بازو کی جماعتیں ۵ فیصد حملوں کیلئے ذمہ دار پائی گئیں اور دیگر لوگوں کا مجموعی حصہ ۱۲ فیصد تھا یادرہے یہ ایف بی آئی کے سرکاری اعداووشمار ہیں۔یورو پول کے مطابق یوروپ میں ۲۰۰۷سے ۲۰۰۹کے دوران۶ء ۹۹ دہشت گردی کی وارداتوں میں غیر مسلم ملوث پائے گئے۔جن میں سے ۸ء۸۴ فی صد علحٰیدگی پسند لوگوں کے حملے تھےاور باقی ۱۶ فیصد دائیں بازو کی جماعتوں کا کارنامہ تھا صرف ۴ء۰فی صد دہشت گردی میں یوروپین پولس نے مسلمانوں کو ملوث پایا۔ ۲۰۰۹ کے مقابلے ۲۰۱۰ میں دائیں بازو والوں کے حملے ۲۱ سے بڑھکر ۴۵ ہوگئے گویا ۱۰۰ فیصد سے زیادہ کا اضافہ اس کے باوجود اسلام اور مسلمانوں کے خلاف دہشت گردی کی نام نہاد جنگ نہ صرف ذرائع ابلاغ میں بلکہ میدان عمل میں زور و شور کے ساتھ چھڑی ہوئی ہے ۔

ناروے میں ہونے والے واقعہ کے بعد شہر اوسلو ایک مسلمان کے بیان سے یہ اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ مہم کس قدر کامیاب ہے ۔بی بی سی کے نامہ نگار سٹیفن اوناس کے مطابق اوسلو شہر میں علی نامی ایک شخص نے بتایا کہ ‘‘بہت سارے افراد کا شروع میں یہ خیال تھا کہ بم دھماکہ میں القاعدہ ملوث ہے۔ ناروے ایک ایسا ملک ہے جو ہر کسی کو قبول کرتا ہے اور ہر کسی کو خوش آمدید کہتا ہے لیکن جب میں نے دیکھا کہ ایک نارویجن نے یہ کام کیا ہے تو مجھے دھچکا لگا، وہ شخص نفرت سے لبریز تھا’’ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ بغیر کسی تحقیق و تفتیش کے بہت سارے لوگوں نے ایسا کیوں سوچا کہ اس میں القائدہ ملوث ہے ۔ نیز جس طرح کا دھچکا علی اور اس جیسے لوگوں کو اس وقت کیوں لگا جبکہ انہیں پتہ چلا کہ اس میں ایک مقامی شخص انڈریو بیرنگ بریوک ملوث ہے جو عیسائی ہونے کے ساتھ ساتھ ایک انتہائی دائیں بازو کی سوچ کے حامی بھی ہے ۔کیا اس طرح کی حیرت کا اظہار اس وقت بھی کیا جاتا جبکہ انہیں بتایا جاتا کہ یہ حملہ القائدہ نے کیا ہے ؟یہ بات قابلِ غور ہے کہ جب اس طرح کےحملوں کو مسلمانوں سے منسوب کیا جاتا ہے تو اس کی حمایت میں نقلی ویڈیوبنا کر ٹیلی ویژن سے نشرکی جاتی ہیں اور یو ٹیوب کے ذریعہ ان کی جی بھر کے تشہیر کی جاتی ہے اس کے بر عکس بیرنگ بریوک کی ایک اصلی ویڈیو کو جس میں اس نے اپنے عزائم کا اظہار اور جرائم کا عتراف کیا تھادوسرے ہی دن یو ٹیوب سے ہٹا لیا گیا۔ناروے کے ذرائع ابلاغ کے مطابق یہ وڈیو بریوک نے بنائی تھی جس میں اسلام، مارکسزم اور کثیر الثقافتی معاشرے کے خلاف غصے کا اظہار کیا گیا ہے۔

انرش بیرنگ بریوک نے ایک ہزار پانچ سو صفحات پر مشتمل ایک دستاویزمرتب کی جسے وہ خودساختہ منشور کہتا ہےاوراسے یوٹیوب پرموجود ایک ویڈیو کے ساتھ یورپ بھر میں ڈھائی سو افراد کو حملے سے کم و بیش ڈیڑھ گھنٹے قبل ای میل کیا۔بیلجیم میں دائیں بازو کی جماعت سے تعلق رکھنے والے ایک رکن پارلیمان تانگوئے وِیز کو بھی اسی طرح کا ایک ای میل کیا گیا۔ تقریباً ایک چوتھائی افراد جنہیں ای میل کیا گیا برطانیہ سے تعلق رکھتے ہیں۔ان کے علاوہ جرمنی، اٹلی، فرانس اور دیگر ممالک کے لوگ بھی ای میل وصول کرنے والوں میں شامل ہیں لیکن سب سے بڑی تعداد برطانیہ کی ہے۔انرش بریوک کا نام استعمال کرتے ہوئے بھیجے گئے ای میل اور اس میں موجود یوٹیوب کی ویڈیو کے لنک میں لکھا گیا ہے ’مغربی یورپ کے محب وطن‘ اور ایک جگہ لکھا گیا ہے ’یہ آپ کے لیے ایک تحفہ ہے ۔۔۔ میں آپ سے التجا کرتا ہوں کہ اسے اپنے ہر جاننے والے کو بھیجیں۔تانگوئے ویز نے انرش کے اس عمل کی مذمت کرتے ہوئے کہا کہ ان کا انرش بریوک کے ساتھ کوئی رابطہ نہیں رہا ہے ۔کسی نے ویز کے بیان پر شکوک و شبہات کا اظہار نہیں کیابلکہ اسے من و عن تسلیم کر لیا اس لئے اس کا تعلق مسلمانوں سے نہیں ہے اور نہ ہی بریوک کے پس پردہ لوگوں کا سراغ لگانے کی خاطر کسی بین الاقوامی مہم کا آغاز کیا گیابلکہ اس کے بر خلاف ایک انٹرویو میں ناروے کی داخلی انٹیلی جنس کی سربراہ جین کرسٹیانسین نے کہا ’میں آپ کو بتا سکتی ہوں کہ اب تک ہمارے پاس ایسا کوئی ثبوت نہیں ہے اور نہ ہی ہمیں کوئی ایسا اشارہ ملا ہے کہ وہ کسی بڑی تحریک کا حصہ ہے یا پھر وہ دیگر تنظیموں سے رابطے میں ہے یا کوئی اور بھی حملے میں ملوث ہےویسے انہوں نے اعتراف کیا کہ بریوک دیوانہ نہیں ہے جیسا کہ اس کے وکیل کا دعویٰ ہے بلکہ وہ شاطر، چالباز اور شہرت کا بھوکا ہے۔

انرش بریوک پربم دھماکے اور یوتھ کیمپ پر فائرنگ کے الزام میں دہشت گردی کی دفعات کے تحت باقاعدہ مقدمہ درج کر لیا گیا ہے۔پولیس کے مطابق دہشت گردی کے ان واقعات میں ایک اور شخص ملوث ہو سکتا ہے۔تادمِ تحریر کسی اور کو اس معاملے میں گرفتار تو درکنار کسی سے تفتیش تک نہیں کی گئی جو انتظامیہ کے ہمدردانہ رویہ کا واضح ثبوت ہے ۔ حراست کےتیسرےدن بریوک کوعدالت میں پیش کر کے اس پر معاشرے اور حکومت کے ضروری امور کو تہہ و بالا کرنے کے الزامات لگائے گئے اوراعتراف کاس گیا کہ اس کی اس دہشت گردی سےعوام میں زبردست خوف و ہراس پھیلاہے۔انرش بریوک نے حملوں کی ذمہ داری تو قبول کرلی لیکن دہشت گردی کے الزامات کو مسترد کردیا ، انرش جانتا ہے کہ دہشت گردی کے الزامات تو صرف اور صرف مسلمانوں کیلئے مختص ہیں کوئی بھوری آنکھوں اور سفید جلد کا حامل بھلا دہشت گرد کیونکر ہو سکتا ہے اس شخص کی ڈھٹائی کا یہ عالم ہے کہ وہ اپنی حرکت کو ’وحشیانہ‘ مگر ’ضروری‘ قرار دیان ہے۔جج کم ہیگر نے استغاثہ کی دلیل سے اتفاق کرتے ہوئے کہ ملزم عدالت میں پیشی کو ایک سیاسی پلیٹ فارم کے طور پر استعمال کر سکتا ہے بند کمرے میں سماعت کا حکم دیا جس کے دوران ذرائع ابلاغ اور عوام کو عدالت کی کاروائی دیکھنے کی اجازت نہیں ہوگی حالانکہ انرش بریوک کے وکیل کا کہنا تھا کہ ان کا مؤکل عوام کے سامنے بیان دینا چاہتا ہے ۔بتیس سالہ انرش بیرنگ بریوک کو ناروے کے موجودہ قانون کے تحت زیادہ سے زیادہ اکیس سال کی قید کی سزا دی جا سکتی ہے۔سفاک مغرب کی نظر میں پھانسی کا پھندااور گولیوں سے بھون کر لاش کو دریا برد کردینے کا مستحق مسلمانوں کے علاوہ اور کوئی اورنہیں ہو سکتا ۔

مغرب کی دہشت گردی کے خلاف لڑی جانے والی اس نام نہاد دہشت گردی کی قیمت مسلمانوں سے کیسے زبردستی وصول کی گئی ہےاس کے اعدادو شمار ہوش ربا ہیں ۳۰ جنوری ۲۰۱۰ تک کی صورتحال یہ تھی کہ امریکہ کے حلیف ِ اول پاکستان میں ۱۰۰۰۰ لوگ مارے جاچکے تھے جن میں سے ۷۰۰ افراد تو بالواسطہ امریکی ڈرون حملوں کا شکار ہوئے تھے ۔گزشتہ ڈیڑھ سالوں کے اندر ان حملوں کی بڑھتی ہوئی تعداد کے پیشِ نظراس مغربی دہشت گردی کا شکار ہونے والوں کی تعداد میں بھی دو سے تین گنا کا اضافہ ہوا ہے ۔تحریکِ طالبان جس کا اصل طالبان سے کوئی تعلق نہیں ہے بلکہ جو ہندوستان کی سرپرستی میں امریکہ کے اشارے پر دہشت گردی پھرتی ہے ہزاروں اموات کیلئے ذمہ دار ہے ۔۲۰۰۸ میں شائع ہونے والی ایک برطانوی رپورٹ کے مطابق افغانستان میں ۵ لاکھ اور عراق میں ۱۲ لاکھ افراد امریکی جارحیت کے باعث ہلاک ہوئے ہیں ۔لیکن صورتحال یہ ہے کہ کرتا کوئی اور ہے اور بھرتا کوئی اور مسلمانوں کو انصاف اس لئے نہیں ملتا کہ بقول شاعر
میرا قاتل ہی میرا منصف ہے
کیا مرے حق میں فیصلہ دے گا
Salim
About the Author: Salim Read More Articles by Salim: 2124 Articles with 1449594 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.