شہر قائد کی پکار

ٹی وی سکرین پر رینجرز اہلکار کراچی کے فساد زدہ مقامات سے لوگوں کو بحفاظت نکالنے میں مصروف تھے ۔ ان علاقوںسے نکل کر آنے والے لوگوں کے ماتھوں پر الم کی داستانیں رقم تھیں۔ ان کی نم آنکھوں اور ان کے اداس چہروں سے ان پر گزرنے والی قیامت کابخوبی اندازہ کیا جاسکتا تھا ۔ کچھ ایسے بد نصیب افراد بھی دکھائی دے رہے تھے جن کے عزیز و اقارب فسادات میں مار دیے گئے تھے۔ ان کی آہوں اور سسکیوں نے ماحول کو انتہائی سوگوار بنا دیا تھا۔ اچانک میرا خیال ماضی کے ان دنوں کی طرف چلا گیا جب اس شہرکے امن وسکون ایک مثال تھا۔ شہرقائدؒ کو عروس البلاد اور روشنیوں کے شہر جیسے نام دیے جاتے تھے ۔ سارے ملک سے بے روزگار افراد روزی کمانے کیلئے کراچی کا رخ کیاکرتے تھے ۔ یہاں کام کرنے والے دیہاتی جب روزی کما کر اپنے اپنے گھروں کوواپس جاتے تھے تو ان کی بودو باش میں شہری طرز زندگی کی جھلک دکھائی دیاکرتی تھی۔ انہی دنوں شاید پنجابی کی یہ کہاوت ایجاد کی گئی تھی'' چل کراچی کر کمائیاں دھوتیاں لا کے پتلوناں پائیاں''۔ اب شہرقائدؒ اندھیرے ،دہشت، خوف اور بربریت کی علامت بن چکا ہے۔ وہ عروس البلاد جو کبھی اہل زبان اور مہذب لوگوں کا مرکز تھا اب اس کی سڑکوں پرموت کا ڈیرہ اور دہشت کا راج ہے۔ جس شہر میں سارے ملک سے لوگ آیاکرتے تھے اب اسی شہر کے مکین بھی وہاں سے ہجرت کرنے پرمجبورہیں۔ آخراہلیان کراچی سے ہونیوالی زیادتی کا قصور وار کون ہے۔ اس سوال کا جواب اتنا پیچیدہ نہیں ہے جتنا ہمارے سیاستدانوں اور حکمرانوں نے بنا رکھا ہے ۔پنجابی طالبان کی اصطلاح ایجاد کرنےوالے رحمان ملک جو اپنے مضحکہ خیز بیانات کی وجہ سے انتہائی متنازعہ ہوتے جارہے ہیں۔ انہوں نے ملک دشمن قوتوں کو'' کلیئرنس چٹ ''دیتے ہوئے کراچی کے حالات کاملبہ بھی طالبان پرڈال دیا ہے۔فرماتے ہیں کہ طالبان کراچی کے شر پسندوں کے ساتھ مل کر حالات بےحد خراب کر سکتے ہیں ۔ لیکن سچی بات یہ ہے کہ حالات کی خرابی کی ساری ذمہ داری موصوف اوران کے آقاﺅں پر عائد ہوتی ہے ۔ کیا ارباب اقتدارکو حضرت عمر فاروق ؓ کا یہ قول یاد نہیں کہ اگر دریائے فرات کے کنارے کتا بھی پیاسا مر گیا تو میں اس کےلئے بھی جواب دہ ہوں گا۔ وہ کتا ہمارے آج کے شہریوں سے زیادہ خوش نصیب ہے کہ جس کی ذمہ داری حضرت عمرفاروق ؓ نے قبول کی تھی ۔کراچی میں اموات کی شرح دیکھتے ہوئے تویہ لگتا ہے کہ کسی نقاب پوش طاقت فی کس کے حساب سے مارنیوالے کیلئے انعام مقررکیا ہوا ہے۔ جوحکومت ابھی تک قاتلوں اوران کے آقاﺅں کاتعین کرنے میں ناکام ہے وہ قیام امن میں کس طرح کامیاب ہوگی۔شہرقائدؒ میں ہونیوالی ہلاکتوں نے سکیورٹی فورسزاورخفیہ ایجنسیوں کی کارکردگی پرایک بڑا سوالیہ نشان لگادیا ہے،یاپھروہ حکومت کے دباﺅمیں ہیں۔

جب کسی آبادی میں کوئی کوا مارا جاتا ہے تودرجنوں کوے وہاں اکٹھے ہوکر اپنے مخصوص اندازمیں کائیں کائیں کرتے ہوئے مرنیوالے کوے کی موت کاسوگ مناتے اوراپنے غم وغصہ کااظہارکرتے ہیں۔کیا ہم انسان ان کووں سے بھی گئے گزرے ہیں ۔کراچی اورکوئٹہ میں ٹارگٹ کلنگ ،ڈرون حملوں اورخودکش دھماکوں کی آڑمیں ہمارے اپنوں کو موت کے گھاٹ اتاراجارہا ہے لیکن ہم قبروں میں آسودہ خاک مردوں کی طرح خاموش ہیں ۔ہم نے دوسروں کے آنسوپونچھنا اور اپنوں کی موت پرآنسوبہاناچھوڑدیا ہے ۔ہم اس کبوتر کی مانند ہیں جوآنکھیں موندکریہ سمجھتا ہے کہ اب وہ بلی کی نگاہوں سے چھپ گیا ہے اوروہ اسے نہیں کھائے گی۔آج اگرشہرقائدؒ میں یاکوئٹہ میں صف ماتم بچھی ہے اورہم خاموش ہیں توکل ہمارے پیاروں اورہمارے شہروں کی باری بھی آسکتی ہے ۔
راہ چلتے کل کسی کتے نے کتے سے کہا
بھاگ ورنہ آدمی کی موت مارا جائے گا

سچ تو یہ ہے کہ ہمارے حکمرانوں نے اس شہر کوسیاسی مصلحت اور اپنے مفادات کی بھینٹ چڑھا دیا ہے ۔ ورنہ ریاستی مشینری اتنی بے بس نہیں کہ حالات نہ سدھار سکے۔ جھوٹ، نامعقولیت، نالائقی اور ڈھٹائی کی بھی کوئی حد ہوتی ہے ۔ کیا مرنے والوں کا خون اتنا سستا ہے کہ اسے مفاہمت اور مفادات کی بھینٹ چڑھا دیا جائے۔ جو لوگ امن کی تباہی کے ذمہ دار ہیں وہ تو حکومت کے اتحادی بن اقتدار کے ایوانوں میں بیٹھے ہوئے ہیں۔توپھرحالات کو ن سدھارے گا ۔پیپلزپارٹی کواقتداراورانسانی اقدارمیں سے ایک کاانتخاب کرناہوگا۔حکومت کیلئے اپنے اتحادیوں کومنانانہیں بلکہ اہلیان کراچی کی زندگیاں بچانااوربلوچ بھائیوں کوراضی کرنااہم ہے۔

کراچی کی لڑائی اصل میں چودھراہٹ اوروسائل پر قبضے کی لڑائی ہے، ہر فریق یہ سمجھتا ہے کہ یہ شہر اس کی ملکیت ہے اور اس پر ان کا سب سے زیادہ حق ہے لیکن میں کہتا ہوں کہ کراچی کسی ایک لسانی یا مذہبی گروہ کی ملکیت نہیں ہے بلکہ یہ اٹھارہ کروڑ پاکستانیوں کی ملکیت ہے ۔ وفاقی حکومت کی مصلحت پسندی آہستہ آہستہ اس شہر کو ڈبو رہی ہے ۔ حکومت اپنے اتحادیوں کو گنوانا نہیں چاہتی۔ یہاں برسر پیکار لسانی گروہوں کی وجہ سے عوام کا جانی اور مالی نقصان ہو رہا ہے ۔ سانڈوں کی لڑائی میں نقصان ہمیشہ گھاس کا ہی ہوتا ہے ۔ اس لڑائی میں اکثر ایسے لوگ مارے جارہے ہیں جن کا لسانیت اور سیاست سے دور کا بھی واسطہ نہیں ہے۔ کراچی کی بدامنی کا سب سے برا اثر ملک کی معیشت پر پڑتا ہے۔ ملکی معیشت کا بہت بڑا دارو مدار اس کی بندر گاہ پر ہے ۔ کراچی میں آئے دن کھیلی جانیوالی خون کی ہولی نے اس معاشی مرکز کو بہت حد تک ناکارہ کر دیا ہے۔ ہماری غربت اور مالی بد حالی کی ایک بہت بڑی وجہ یہاں کے حالات بھی ہیں۔ ملک دشمن طاقتوں کو اسی بات کو جواز بنا کر پاکستان کے خلاف پروپیگنڈا کرنے کا موقع مل جاتا ہے اور ساری دنیا میں وہ پاکستان کو ایک آفت زدہ اور شورش زدہ ملک ثابت کرکے غیرملکی سرمایہ کاروں کو متنفر کرنے کی مہم چلائے ہوئے ہیں ۔ ایسا بھی ممکن ہے کہ کراچی کے حالات خراب کرنے والے کسی بیرونی طاقت کے ایجنڈے کی تکمیل کر رہے ہوں۔ یہاں ہونے والی لڑائی اصل میں قومیت کی لڑائی ہے ۔ کتنے افسوس کی بات ہے کہ ہم لوگوں کی عقلوں پر اتنے پردے پڑ چکے ہیں کہ ہم قوم سے زیادہ قومیت کو ترجیح دے رہے ہیں ۔ کچھ ایسے عناصر بھی ہیں جو یہ چاہتے ہیں کہ کراچی میں بسنے والی تمام قومیں باہم برسر پیکار رہیں تاکہ ان کا نظام چلتا رہے۔ ان قوتوں کی حوصلہ شکنی کےلئے ہمیں اپنی بندآنکھیں کھولنا ہوں گی اور انفرادی مفادات کو بالائے طاق رکھتے ہوئے قومی مفادات کے بارے میں سوچنا ہوگا۔ کیا مسلمان اور ہم وطن ہونا ہماری ہم آہنگی کیلئے کافی نہیں ہے ۔ قرآن مجید میں ارشاد فرمایا گیا ہے کہ اے اللہ کے بندو آپس میں بھائی بھائی بن جاﺅ اور سب مل کر اللہ کی رسی کو مضبوطی سے تھام لو ۔ لیکن ہمارا یہ حال ہے کہ ہم اللہ تعالیٰ کی رسی کی بجائے پیپلزپارٹی،متحدہ قومی موومنٹ،اے این پی ،مسلم لیگ (ن)،مسلم لیگ (ق)،تحریک انصاف ،جماعت اسلامی کی رسی کو تھامے ہوئے ہیں۔سرورکونین حضرت محمد نے فرمایا تھا کہ مومن آپس میں ایک جسم کی طرح ہیں جب جسم کے ایک حصے کو تکلیف پہنچتی ہے تو دوسر ا حصہ بھی اس کی تکلیف محسوس کرتا ہے۔ لیکن ہم پر ایسی بے حسی طاری ہے کہ ہمیں اپنے سوا کو ئی دوسرا نظر نہیں آتا۔کراچی میں روزانہ بیسیوں انسانوں کاقتل عام قومی المیہ ہے اورمن حیث القوم ہمارا اس بربریت پرخاموش رہنا اس سے بڑاقومی سانحہ ہے۔
خدا ہم کو ایسی بینائی نہ دے
کہ اپنے سوا کچھ دکھائی نہ دے

یہ بھی کہا گیا ہے کہ جس نے ایک انسان کو قتل کیا اس نے گویا ساری انسانیت کو قتل کیا اور جس نے ایک انسان کی جان بچائی اس نے گویا ساری انسانیت کی جان بچائی ۔ شہرقائدؒ ارباب اقتدارکومددکیلئے پکاررہا ہے ۔ امن ریلیوں کے نام پرپوائنٹ سکورنگ سے بدامنی کی آگ نہیں بجھے گی ۔جس طرح صدرزرداری کوبینظیربھٹو کے ایک ایک قاتل کانام معلوم ہے اس طرح ارباب اقتدارکراچی میں سرگرم شرپسندوں کوبھی بخوبی جانتے اورپہچانتے ہیںمگرعوام کوجان بوجھ کراندھیرے میں رکھا جارہا ہے۔حکمران چاہیں تو اپنے غیرفطری اتحادکی قربانی دے کرملک کومضبوط اورمنتشرعوام کومتحد کرسکتے ہیں۔
Muhammad Nasir Iqbal Khan
About the Author: Muhammad Nasir Iqbal Khan Read More Articles by Muhammad Nasir Iqbal Khan: 173 Articles with 139607 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.