اصل جنگ شناخت کی

زندگی میں کئی ایسے سفرہوتے ہیں جنہیں انسان کبھی بھول نہیں سکتاجیسے پچھلے سال اپنے خاونداوربیٹی کے ہمراہ مری کی سیرکیلئے گئی توپھرسے اپنے ملک کی خوبصورت کودیکھنے کاموقع ملا بلکہ ان حسین لمحوں کو کیمرے میں بھی قیدکرلیا شادی سے پہلے مری جانااوراپنی فیملی کے ساتھ جانے میں زمین آسمان کافرق محسوس ہوامری جا کر محسوس ہواکہ اپنے خاوندکے ہمراہ خود کو کتنامحفوظ محسوس کیاواپس آنے کے بعدبہت کچھ لکھنے کاسوچاپرکبھی وقت نہ ملے توکبھی لفظوں نے ساتھ نہ دیاگزشتہ ہفتے پنجاب کے پسماندہ ترین ضلع مظفرگڑھ کی طرف سفرکاموقع ملاضلع مظفرگڑھ میرے لیے نیانہیں کیونکہ میراسسرال وہیں سے ہے مگراس بارجانے میں کچھ خاص تھاناتوجاب کی پریشانی اورنہ ہی بچوں کوسنبھالنے کاخیال کیونکہ میرے شوہرمیرے ساتھ تھے اورانہوں نے بیٹی کی سدھ خبررکھی گھربیٹھے گاڑی بک ہوگئی ڈائیواڈاجاکے گاڑی میں بیٹھے فجرکی نماز کے لگ بھگ سسرال پہنچ گئے سب لو انتظارمیں تھے سب سے مل کے تھوڑی دیرریسٹ کی اورایک ایک تعزیتی ریفرنس میں جاناہواجس کی دعوت پہلے سے رریجنل یونین آف جرنلسٹس نے دی ہوئی تھی جناح ہال میں تقریب کااہتمام تھاہم واہاں پہنچے توتقریب شروع تھی ۔ ضلع کونسل ہال مظفرگڑھ میں ریجنل یونین آف جرنلسٹس، روزنامہ جھوک اور ہفت روزہ میڈیا کورٹ کے زیر اہتمام ڈاکٹر عاشق ظفر بھٹی، سردار اکبر خان ملکانی اور میاں غلام حامیم بھٹی کی صوبہ سرائیکستان کے قیام، طبقاتی تحریک، صحافتی و سماجی خدمات کو خراج تحسین پیش کرنے کے لیے تعزیتی ریفرنس کا اہتمام کیاگیاجو کہ سید غلام علی بخاری کی کاوشوں سے منعقد ہوا جس میں معروف سرائیکی دانشور اور سربراہ سرائیکستان قومی کونسل ظہور احمد دھریجہ، سردار اکبر خان ملکانی کے بھائی سردار سردار اسلم خان ملکانی، کامران ظفر بھٹی،رضوان الحسن قریشی صوبائی جنرل سیکریٹری ریجنل یونین آف جرنلسٹس سرائیکی وسیب، ملک جاوید چنڑ مرکزی ڈپٹی سیکرٹری جنرل پاکستان سرائیکی پارٹی، شریف خان لاشاری مرکزی سیکریٹری جنرل سرائیکستان قومی موومنٹ، کامریڈ لیاقت چوہان صدر نیشنل پارٹی سرائیکی وسیب، احسان خان چنگوانی ڈویڑنل صدر پاکستان سرائیکی پارٹی، محسن خان ڈاہر ضلعی صدر پاکستان سرائیکی پارٹی، رانا محمد افضل سربراہ تحریک حقوق مظفر گڑھ، سرائیکی کی معروف گلوکارہ ثوبیہ ملک، غوث بخش فریدی، انجنئیر افتخار قریشی سمیت دیگر نے خطاب کرتے ہوئے کہاکہ ڈاکٹر عاشق ظفر بھٹی، اکبر خان ملکانی اور غلام حامیم بھٹی نے پوری زندگی استحصالی طبقہ کے خلاف جدوجہد کی اور وسیب کے حقوق کی جنگ لڑی جس پر ہم انہیں خراج تحسین پیش کرتے ہیں انہوں نے کہا کہ سرائیکی دھرتی کے ہیرو نواب مظفرخان اور محسن مظفرگڑھ سردار کوڑا خان جتوئی کے ایام سرکاری طورپر منائے جائیں، سردار کوڑا خان جتوئی یونیورسٹی،میڈیکل کالج اور انجینئرنگ کالج قائم کئے جائیں، پارکو قصبہ گجرات سمیت تھرمل پاور اور شوگر ملز میں مقامی آبادی کی ملازمت کیلئے کوٹہ مقرر کیا جائے، مظفرگڑھ تا علی پور چار رویہ سڑکیں تعمیر کی جائیں تاندلیانوالہ شوگر ملز مظفرگڑھ میں غیر قانونی و غیر آئینی ظلم و ستم کو بند کیا جائے اور ملز انتظامیہ کے خلاف قانونی کاروائی کی جائے، سیلاب متاثرین کو حکومت مکانات تعمیر کرائے اور نقصان کو پورا کرتے ہوئے مالی امداد ادا کرے، پاکستان کی سلامتی و بقاء اور خوشحالی اور امن و امان کی بحالی اور ملک دشمن عناصر کے خاتمہ اور مرحومین کے درجات بلندی کیلئے قاری ظفر کوثر چشتی نے دعا کی۔سرائیکی وسیب کی گلوکارہ صوبیہ ملک اور انقلابی شاعر محمد حسین سحر نے اپنی خوبصورت آواز و انداز میں صوبہ سرائیکستان اور مقامی مسائل پر گیت اور ترانے پیش کرکے حاضرین سے خوب داد حاصل کی اس موقع پر مشتاق بلال بھٹی مرکزی کوآرڈینیٹر سرائیکی ہالی کمیٹی، ملک جمشید ، معروف کالم نگار علی جان ،ابوالحسن لغاری صدر طلبہ ونگ ڈیرہ غازیخان، انجینئر عبدالہادی گاڈی طلباء ونگ خضر عباس ملکانی جنرل سیکرٹری طلبہ ونگ، سید قمر عباس کاظمی، آصف علی چوہان ضلعی صدر نیشنل پارٹی مظفرگڑھ، اکبر خان کھوسہ چیف آرگنائزر پاکستان عوامی سرائیکی پارٹی سمیت دیگر بھی موجود تھے۔2008 ء میں پیپلز پارٹی نے پنجاب کے اس جنوبی حصہ کو صوبہ بنانے کا اعلان کیا تھا لیکن یہ پیپلز پارٹی کا سیاسی نعرہ عمل کی حد عبور نہ کر سکا اور اس سے قبل مسلم لیگ ن نے تو پنجاب اسمبلی میں جنوبی پنجاب کو صوبہ بنانے کے لئے قرار داد بھی پیش کی لیکن یہ قرار داد بھی سیاسی مصلحتوں کا شکار ہو کر سیاسی پوائنٹ اسکورنگ تک ہی محدود رہی ضرورت اس بات کی ہے کہ اس مسئلہ کو لسانیت کی ہوا نہ دی جائے لیکن لسانی بنیاد پر اگر ان لوگوں کو شناخت مل جائے تو کوئی مضائقہ نہیں کیونکہ پاکستان میں بننے والے صوبوں میں صوبہ خیبر پختونخوا میں نوے فیصد پشتون آباد ہیں اور اسی طرح سندھ اور بلوچستان میں بھی صورتحال مختلف نہیں ہے اگربات کریں تحریک انصاف کی توان میں بھی کئی حاسدین ومنافقین موجود ہیں جو الگ صوبے کی مخالفت کرتے دکھائی دیتے ہیں۔ ملک میں بسنے والی تمام قومیتیں ’مذاہب اور زبانوں کے حامل افراد اس اسلامی جمہوریہ پاکستان کے نقشہ کو مکمل کرتے ہیں یہ قومیتیں‘ مذاہب اور زبانیں پاکستان کا حسن ہیں جو زیور کی طرح ہمارے دلوں میں کھنکتا ہے۔اگر تحریک انصاف اپنے وعدے اور اعلان کے مطابق جنوبی پنجاب کے پانچ کروڑ سے زائد لوگوں کو الگ صوبہ دے کر شناخت دینے میں کامیاب ہو گئی تو وہاں کے لوگوں کے سروں پر چھائے احساس محرومی کے بادل چھٹ جائیں گے دنیا میں صوبوں اور ریاستوں کے تناظر میں دیکھ لیں پاکستان سے کم آبادی کے حامل ممالک ترکی ’افغانستان اور ایران میں زیادہ انتظامی اکائیاں ہیں ترکی میں 81 افغانستان میں 34 اور ایران میں 31 صوبے ہیں امریکہ میں اس وقت پچاس سے زائد ریاستیں ہیں۔سرائیکی وسیب کی مظلوم عوام کو جاگیرداروں وڈیروں اور سرمایہ داروں سے نجات حاصل کرنے اور اپنے حقوق اور صوبہ سرائیکستان کی مشترکہ جدوجہد کی کامیابی کیلئے ووٹ کی طاقت کا استعمال کرنا ہوگا، سرائیکی وسیب کے ہیرو اور باکردار باوقار شخصیت نواب مظفرشہید نے اپنے خاندانوں او ر وفادار ساتھیوں کے ہمراہ اپنی دھرتی کی حفاظت کرتے ہوئے اپنی جانیں قربان کردیں۔پی ٹی آئی نے انتخابات سال 2018 ء سے قبل نہ صرف جنوبی پنجاب کو ایک الگ حیثیت دے کر صوبہ بنانے کا اعلان کیا تھا بلکہ اس اعلان کی تکمیل کاسٹرکچرتک عوام کودکھاکے بے وقوف بنانے کی ناکام کوشش کی اس میں کوئی شک نہیں کہ جنوبی پنجاب کے لوگوں نے تحریک انصاف کوحکمران جماعت بنایا۔ جنوبی پنجاب کو ایک الگ شناخت دینے کے مطالبہ کو اس وقت مزید تقویت ملی جب جنوبی پنجاب صوبہ محاذ کے نام سے مسلم لیگ ن کے اراکین اسمبلی پر مشتمل گروپ نے باقاعدہ تحریک انصاف میں شامل ہونے کا اعلان کیا اور یہ اعلان جنوبی پنجاب کو صوبہ بنانے سے مشروط تھا۔اس اعلان کے بعدعمران خان نے نہ صرف سو دن کے اندر جنوبی پنجاب کو صوبہ بنانے کاوعدہ کیا تھا بلکہ وفاقی کابینہ کے اجلاس میں اس صوبہ کے قیام کے سلسلے میں ایک کمیٹی بھی تشکیل دی تھی۔اب چارسال ہونے کوآئے مگر تحریک انصاف اپنے کیے گئے وعدے کووفانہ کرسکی حالانکہ اگر پاکستان میں صوبے قائم ہونے کی تاریخ کے تناظر میں دیکھا جائے تو قیام پاکستان سے لے کر 1969 ء تک ملک میں پنجاب ’سرحد اور سندھ تین صوبے تھے اور 1969 ء میں ہی بلوچستان کو بھی صوبہ کا درجہ دے دیدیا گیا تھا اور اس کے بعد اب تک کوئی نیا صوبہ نہیں بنایا جا سکا۔ پنجاب جو کہ بارہ کروڑ نفوس پر مشتمل ملک کا سب سے زیادہ آبادی کا حامل صوبہ ہے اس کے چھتیس اضلاع میں سے صرف لاہور میں57 فیصد بجٹ خرچ ہو تاہے جبکہ جنوبی پنجاب جو کہ پنجاب کا جنوبی حصہ ہے اس حصہ میں آباد اضلاع میں ایسے افراد بھی مقیم ہیں جن سے روزگار‘ تعلیم اور صحت جیسی سہولیات کوسوں دور ہیں اورہمیشہ اپنی محرومی کاذمہ دارلاہورکوٹھہراتے ہیں جنوبی پنجاب میں انتظامی اکائی نہ ہونے کے باعث وہاں کے لوگ مسائل حل نہ ہونے کی وجہ سے احساس محرومی سے دوچار ہیں۔بارہ فروری کو ایک تعزیتی ریفرنس کی تقریب میں شرکت کاموقع ملاجس میں مقررین سے ایک بارپھرسرائیکی قوم کو چونالگانے والے حکمرانوں کیلئے غصہ سننے اوردیکھنے کوملا۔محسن مظفرگڑھ سردار کوڑا خان جتوئی کی وقف جائیداد کی آمدنی سے میڈیکل اور انجنئیرنگ یونیورسٹی قائم کی جائیں۔ محروم طبقے کی جنگ لڑنے والاانسان بڑی مشکل زندگی گزاررہاہوتاہے اس لیے وہ روزمرتااورروزجیتاہے۔ پروگرام ختم ہونے کے بعد میں سوچتی رہی اگرتحریک انصاف الگ صوبے کاوعدہ پورا کرتی ہے جوکہ پوراہوتانظرنہیں آرہااگر الگ صوبے میں کامیاب ہوجاتی ہے تواگلی حکومت بھی بنانے میں کامیاب ہوجائیگی ورنہ جنوبی پنجاب کی عوام ان کابھی وہی حشرکریں گے جوپی پی کاہواہے۔
 

Rukhsana Asad
About the Author: Rukhsana Asad Read More Articles by Rukhsana Asad: 47 Articles with 29487 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.