مودی سرکار نے اپنے دامن پرلگے بدعنوانی کے دھبوں کو
چھپانے کی خاطر نواب ملک کو گرفتار کیا ہے۔ مرکزی حکومت فی الحال اے بی جی
کمپنی کے معاملے میں پھنسی ہوئی ہے اس کمپنی کے نام میں اے اور بی کے بعد
جی کچھ عجیب سا لگتا ہے لیکن جیسے مودی جی اسی طرح اے بی جی ردیف قافیہ
بالکل ہم وزن ہے۔ یہ بات اگر نہیں ہوتی تو رشی اگروال اپنی کمپنی کا مخفف
آر اے جی رکھتا ۔ خیر وہ سمجھدار آدمی ہے اس کوسورت کے اندر بیٹھے بیٹھے
2013 ء میں ہی نہ جانے کیسے پتہ چل گیا کہ آج جو وزیر اعلیٰ ہے کل وہ ملک
وزیر اعظم ہوگا ۔ آج جو گجرات کو بہلا رہا ہے کل وہ پورے ملک کو پھسلائے
گا اس لیے جیسے ہی مودی نے ’اچھے دن آنے والے ہیں‘ کا نعرہ لگایا فوراً
رشی کمار اگر وال اس پر ایمان لے آیا ۔ اس کو یقین کامل تھا کہ اگر کوئی
مودی جی کے زمانے میں جی بھرکے بنکوں کو لوٹے گا تب بھی اس کا بال بیکا
نہیں ہوگا ۔ مودی سرکار اس کو بھرپور تحفظ فراہم کرے گی ۔ پھلنے پھولنے کے
خوب دیا جائے گا ۔ بدعنوانی کی جہازرانی بلا خوف و خطر جاری رہے گی لیکن
اگرگھپلے بازی کے سوراخ سے اندر آنے والا فریب دہی کا پانی سر سے اونچا
ہوجائے تو مودی جی کا آشیرواد رافیل لڑاکا جہاز میں اسے اڑا کر کسی ایسے
محفوظ ملک میں پہنچا دے گا تاکہ وہ بھارت ماتا کی دسترس سے باہر ہوجائے۔
انگریزی حروف تہجی میں اے اور بی کے بعد سی آتا ہے۔ کانگریس کے لیے یہ
ترتیب بہت سہل تھی اس لیے کہ اینی بیسنٹ نے اس کی داغ بیل ڈالی ۔ ان کے نام
کا مخفف اے اور بی نیز کانگریس کا سی ۔ آر ایس ایس کو سیاسی جماعت کا خیال
آیا تو اس نے اکھل بھارتیہ جن سنگھ نام رکھا یعنی اے کے بعد بی اور جے۔ اس
نام کے اندر بڑی صفائی کے ساتھ سنگھ شامل کردیا گیا ۔ جن سنگھ کے لوگ جب
کچھ دن جنتا پارٹی میں رہے تو ان کو خیال آیا کہ یہ سنگھ بڑی مصیبت ہے اس
لیے وہاں سے باہر نکلنے کے بعد انہوں نے اے کو غائب کردیا اور جن کو جنتا
بنانے کے بعد سنگھ کو پارٹی سے بدل دیا ۔ وہ در اصل اپنے آپ جنتا پارٹی سے
قریب رکھنے کی ایک کوشش تھی۔ اسی لیے اس زمانے میں بی جے پی گاندھیائی
سوشلزم کا نعرہ بھی بلند کیا تھا۔ مودی یگ (دور) میں اب اے بی جی کی دریافت
ہوئی ۔ یہاں اے اور بی کے بعد جی آجاتا ہے ۔ یعنی اے سے امیت شاہ ، بی سے
بھارتیہ جنتا پارٹی اور جی سے گجرات ۔
سنگھ پریوار میں مودی جی چونکہ دیوتا کا روپ دھارن کر چکے ہیں اس لیے وہ اس
مایا جال سے اوپر کی چیز ہوگئےہیں ۔ وہ ہر معاملے میں ملوث رہتے ہیں لیکن
کہیں نظر نہیں آتے ، اگریقین نہ آتا ہو تو اے بی جی نامی کمپنی کی گھپلے
بازی کو دیکھ لیں ۔ اس کے ہر فریم میں مودی جی موجود تو ہیں لیکن دکھائی
نہیں دیتے ۔ اسی طرح جیسے ان کا ٹیلی پرامپٹر لوگوں کو نظر نہیں آتا لیکن
موجود ہوتا ہے۔ وہ خود تو اس میں لکھا دیکھ دیکھ کر پڑھتے ہیں لیکن کوئی
اور دیکھ نہیں سکتا ۔ اس کی موجودگی کا پتہ اس وقت چلتا ہے جب وہ خراب
ہوجاتا ہے اور مودی جی کی بولتی بند ہوجاتی ہے۔ اے بی جی کی بدعنوانی بھی
نہ کھاوں گا نہ کھانے دوں گا کی چادر کے نیچے بڑے آرام سے پھل پھول رہی
تھی اور دکھائی نہیں دیتی تھی۔ اس کا پتہ اس وقت چلا جب پاپ کا گھڑا بیچ
چوراہے پر پھوٹ گیا اور اس کے ’جی ‘ نے گجرات اور مودی جی کی چغلی کردی۔
مودی جی نے بدعنوانی کے خلاف نعرہ نہ کھاوں گا کا نعرہ تو خوب لگایا لیکن
نہ کھانے دوں گا کہہ کر پھنس گئے ۔ انہوں نے یہ بھی کہا تھا کہ چوکیدار بن
کر بیٹھ جاوں گا لیکن اس خزانے کا کیا کہنا جس کا چوکیدار ہی چور ہو ۔ یہی
وجہ ہے کہ ہندوستان میں بینکنگ کی تاریخ کا سب سے بڑا گھوٹالہ گجرات میں
سامنے آیا ہے۔
اسٹیٹ بینک آف انڈیاکے مطابق اے بی جی شپ یارڈ 15؍مارچ 1985کو قائم کی گئی
تھی او ر وہ 2001سے بینکنگ سہولت لے رہی تھی۔ کیا یہ محض اتفاق ہے مودی جی
کے وزیر اعلیٰ کا عہدہ سنبھالتے ہی اپنی عمر کے سولہویں سال میں اس کمپنی
کو قرض لینے کا خیال آیا اور اس کو دو درجن سے زیادہ بینکوں اور مالیاتی
اداروں سے قرض کی سہولت ملتی چلی گئی ۔ اسے قرض دینے والوں میں آئی سی آئی
سی آئی بینک سب سے آگے تھا مگروہ شکایت کی جرأت نہیں کرسکا ۔ کس کے خوف
یا لالچ نے اس بنک کو زبان کھولنے سے روکے رکھا ؟اس سوال کا جواب اس حقیقت
میں پنہاں ہے کہ سورت کے باشندے رشی کملیش اگروال کا تعلق روئیا گھرانے سے
ہے جو گجرات کے وزیر اعلیٰ نریندر مودی سے خاصہ قریب رہا ہے۔ اس کا ثبوت یہ
ہے کہ 2007میں وزیر اعلیٰ مودی کی نظر عنایت سے اے بی جی شپ یارڈ کو گجرات
سرکار نے ایک لاکھ اکیس ہزار مربع میٹر زمین نصف قیمت پر فراہم کی۔
وزیر اعظم نریندر مودی کا شمار ان وزرائے اعلیٰ میں ہوتا تھا ہے کہ جو
سرکاری خرچ پر اپنا سیاحت کا شوق پورا کرنے کے لیے غیر ملکی دورے فرمایا
کرتے تھے۔ 2013میں جب انہوں نے کوریا کا قصد کیا تو ان کے وفد میں رشی کمار
اگروال شامل تھا۔ وزیر اعلیٰ نریندر مودی کا ایک تماشہ وائبرنٹ گجرات نامی
نمائش ہوا کرتی تھی ۔ اس میں بڑے بڑے خواب دکھائے جاتے تھے جو کبھی شرمندہ
ٔتعبیر نہیں ہوئے ۔ رشی کمار نے اس میں سرمایہ کاری کے طول طویل وعدے کیے
تھے۔ ویسے وہ سمجھدار آدمی ہے ۔ اس کو اپنے کالے کارناموں کا علم ہے اس
لیے ایک رنگین تصویر یا کوئی خاص معلومات انٹرنیٹ پر نہیں ملتی ۔ اور تو
اور اس دانشمندی کا اندازہ اس غیر مصدقہ خبر سے بھی لگایا جاسکتا ہے کہ اس
نے حفظ ماتقدم کے طور سنگاپور کی شہریت لے رکھی اور بعید نہیں کہ فرار
ہوچکا ہو یا بدنامی کے ڈر سے اسے رفو چکر کر دیا گیا ہو۔ رشی اگروال کی
کمپنی کا کام کاج دیکھتے ہوئے اس کو قرض کی فراہمی ایک چمتکار سے کم نہیں
ہے اور ا س کے لیے مودی جیسے جادوگر درکار ہوتا ہے جو اپنی طلسماتی ٹوپی سے
جب جی میں آئے الو نکالے اور جب چاہے فاختہ برآمد کردے ۔
اے بی جی کی خراب کارکردگی کے سبب ا س کا کھاتہ 30نومبر 2013کو غیر منافع
بخش (این پی اے ) قرار دے کر بلاک کردیا گیا تھا اور لاکھ کوشش کے باوجود
وہ اسے بحال نہیں کیا جاسکا ۔ یہ بھی ایک حسن ِ اتفاق ہے کہ مودی جی نے
گجرات میں اقتدار سنبھالا تو اس تجارتی ادارے نے قرض لینا شروع کیامگرجب وہ
دہلی کے اقتدار پر فائز ہونے کی تیاری کررہے تھے تو مارچ 2014میں تمام قرض
دہندگان کی طرف سے سی ڈی آر نظام کے تحت اکاونٹ کی تشکیل نو کی گئی اور
جولائی 2016میں پھر سے اسے این پی اے کی فہرست میں شامل کیا گیا ۔ اپریل
2018کے دوران بینکوں نے گول مال کی بوُ کو محسوس کر کے کمپنی کے اکاونٹس کی
فورنسک آڈٹ کرانے کا فیصلہ کیا تھا اور ا ی اینڈ وائی نامی مشہور ادارے کو
آڈیٹر کے طورپر مقرر کیا۔ اس نے اپنی رپورٹ میں 18بینکوں کی فریب دہی کا
انکشاف کرکے کمیٹی کو آگاہ کردیا ۔ اس میں بنیادی طورپر رقومات کی منتقلی،
غبن اور کمپنی میں اعتماد کی مجرمانہ خلاف ورزی کے فراڈ کا حوالہ دیا گیا
تھا۔
اس کے بعد قرض دینے والے بنکوں نے سی بی آئی میں پہلی شکایت نومبر 2019میں
درج کرائی یعنی جنوری 2019میں رپورٹ آئی لیکن دس ماہ شکایت درج کرانے میں
لگ گئے اس سے سیاسی دباو کا اندازہ لگایا جاسکتا ہے ورنہ سی بی آئی اور ای
ڈی کا تو یہ حال ہے کہ وہ بی جے پی کے مخالفین پر پلک جھپکتے ٹوٹ پڑتے ہیں۔
اس کے بعد دو سال ایک ماہ کا طویل عرصہ گزر گیا مگر رشی کمار پر کوئی
کارروائی نہیں ہوئی ۔ اب جاکر مرکزی تفتیشی بیورو نے اے بی جی شپ یارڈ
لمیٹڈ کے خلاف تقریباً 23ہزار کروڑ روپے کی فریب دہی کا معاملہ درج کیا ہے
جس میں 28بینکوں اور مالیاتی اداروں سے لئے گئے قرض میں 22,842کی فریب دہی
شامل ہے۔مودی سرکار کی اس مجرمانہ غفلت کو جواز فراہم کرتے ہوئے وزیر خزانہ
نرملا سیتا رمن نے کہا کہ اے بی جی شپ یارڈ جیسے گھوٹالوں کو پکڑنے میں
بینکوں کو اوسطاً ساڑھے چار سال لگتے ہیں، لیکن بینکوں نے اسے اوسط سے بھی
کم وقت میں پکڑا ہے۔ اب اس معاملے پر کارروائی چل رہی ہے۔
اپنی پیٹھ تھپتھپا کر وزیر خزانہ اس قدر خوش ہوئیں کہ از خود اپنے دعویٰ کی
تردید فرمادی ۔ انہوں نے بی جے پی والوں کی عادت کے مطابق اس بدعنوانی کے
لیے بھی گزشتہ متحدہ ترقی پسند اتحادکی حکومت کو موردِ الزام ٹھہراتے ہوئے
کہا کہ اے بی جی کا بنک کھاتہ یوپی اے سرکار کے زمانے میں این پی اے ہوچکا
تھا۔ یہ بات درست ہے لیکن ایسا تو این ڈی اے کے دورِ حکومت میں 2016میں
دوبارہ ہوا خیر شاید ان کو یہ نہیں معلوم ہو۔ اب سوال یہ ہے کہ یو پی اے کے
بعد اس حکومت کے کتنے سال ہوگئے ہیں؟ 2014میں این ڈی اے کی حکومت برسرِ
اقتدار آگئی اور اس نے سات سالوں تک اسے بینکوں کو لوٹنے کی کھلی چھوٹ
کیوں دی ؟ بدعنوانی پکڑنے میں اگر چار سال لگتے ہیں تو سات سالوں کے دوران
رشی کمار کو گرفتار کیوں نہیں کیا گیا؟ جو وزیر خزانہ یہ نہیں جانتی ہو کہ
چار زیادہ ہیں یا سات تووہ قومی معیشت کو کیسے سنبھالیں گی اور اس کی حکومت
گھپلے نہیں ہوں گے تو کیا ہوگا ؟ ویسے مودی سرکار کے کے پاس دو سال کا مزید
وقت ہے ۔ امید ہے اس دوران کوئی اور جیالا رشی کمار اگروال کا بھی ریکارڈ
توڑ کر مودی جی کے نام میں چار چاند لگا دے گا۔ اس وقت مودی جی نواب ملک کی
طرح کس کو بلی کا بکرا بنائیں گے یہ بھی دیکھنے والی بات ہوگی لیکن فی
الحال مودی سرکار کی دن دونی رات چوگنی بڑھتی بدعنوانیوں پر یہ شعر صادق
آتا ہے؎
ستاروں کے آگے جہاں اور بھی ہیں
ابھی عشق کے امتحاں اور بھی ہیں |