حکیم جی ، رات بھر کھانسی اٹھتی ہے ، پسلیاں دُکھ جاری
ہیں ، ایک منٹ کے لیے سونا نہیں ملتا ۔
” بڑے میاں ، یہ بڑھاپا ہے ۔“، حکیم جی نے کہا ۔
ِ حکیم جی بھوک قطعاً بند ہے ، دو لقمے کھا لیتا ہوں تو چھاتی پر بوجھ بنے
رہتے ہیں ۔
” بڑے میاں ، یہ بڑھاپا ہے ۔“، مریض تو فہرست لیے بیٹھا تھا ، پھر کہا کہ
بینائی کم ہو رہی ہے ۔ اب سنائی بھی اونچا دیتا ہے، اٹھتا ہوں تو پاﺅں
لڑکھڑاتے ہیں۔
” بڑے میاں ، یہ بڑھاپا ہے ۔“، یہ سنتے ہی مریض چراغ پا کہ تجھے کس پاجی نے
حکیم بنا دیا ، گدھا کہیں کا ، میں جو کچھ کہتا ہوں ، کہہ دیتا ہے ، بڑھاپا
ہے ؟۔
” بڑے میاں ، یہ بڑھاپا ہے ۔“ ، حکیم نے مسکراتے ہوئے کہا۔
بڑے میاں اور حکیم جی کا قصہ ، افسانہ ہو یا لطیفہ لیکن یہ حقیقت ہے کہ کسی
کی بے قاعدگی پر بات کی جائے تو ایک ہی جواب سننے کو ملتا ہے کہ بہتری کہاں
سے لائیں ، کیاکریں آدمی نہیں ملتے ۔ ہم کالم ، رپورٹس اور عوام شکایتیں و
تجاویز لکھ لکھ کر تھک جاتے ہیں ، دفاتر کے اتنے چکر لگانے پڑتے ہیں کہ
گنتی تک بھول جاتے ہیں کہ کس دفتر میں جانے کے لیے کتنے زینے چڑھے اور
پھولی سانس کے ساتھ کتنی سیڑھیاں سنبھل سنبھل کر نیچے اترے ،لیکن اس جواب
کو کبھی اس لیے نہیں بھول پاتے کیوں کہ ایک ہی جواب ملتا ہے کہ ’ کیا کریں
آدمی نہیں ملتے ؟ “ ۔ اہل دانش اور باشعور طبقہ اس امر کی ضرورت کو اجاگر
کرتے کرتے بے حال ہوگئے کہ حکومت اور عوام میں رابطہ پیدا کیا جائے ، ملکی
اجتماعی مفادات پر سیاسی مفاہمت ہو ، اختلاف کو ایک جانب رکھ عوام کا بھی
باہمی اعتماد بڑھایا جائے ۔ تو رٹا رٹایا جواب ملتا ہے کہ ” کیا کریں ،
آدمی نہیں ملتے “۔ تو کیا کریں ، اگر ایسا ہے تو آدمی پیدا کرنے میںکوئی
سبیل کیجئے ، اس طرح کیسے کام چلے گا اور پھر سر پکڑ کر بیٹھ جاتے ہیں جب
یہ جواب ملتا ہے کہ ، اس کے لیے بھی آدمیوں کی ضرورت ہے اور آدمی ملتے نہیں۔
گھروں پہ نام تھے ناموں کے ساتھ عہدے تھے
بہت تلاش کیا کوئی آدمی نہ ملا
ارباب بست و کشا یہ جواب دے کر مطمئن ہوجاتے ہوں گے کہ ان پر جو فرائض عائد
ہوتے ہیں ، وہ ان سب سے سبکدوش ہوگئے لیکن یہ معاملہ ایسا نہیں جسے یہیں تک
ختم کردیا جائے ، یہ ساری قوم کی زندگی اور موت کا سوال ہے ، اگر یہ حقیقت
ہے کہ کروڑ وںکی آبادی میں اتنے بھی آدمی نہیں یا ایسے بھی نہیں کہ ان کے
ہاتھ میں زماّم ملت ، اعتماد اور بھروسہ سے سونپی جاسکے تو یہ مقام بڑے غور
و فکر کا ہے ۔ کوئی حکومت اور نظام آدمیوں کے بغیر نہیں چل سکتا ، نہ کبھی
چلا ہے اور نہ یہ چلے گالیکن میری ناقص رائے میں صورت حال ایسی مایوس کن
بھی نہیں، جیسی بتائی جاتی ہے ، ہماری قوم ایسی بھی بانجھ نہیں کہ اس میں
آدمی پیدا ہونا بند ہوچکے ہوں ۔ نوجوان طبقے میںیقیناً ایسے ہونہار دل و
دماغ موجود ہیں جو تھوڑی سی حوصلہ افزائی اور ترتیب سے نہایت موزوں آدمی بن
سکتے ہیں ، موجودہ ارباب ِ حکومت کو دیکھئے ، ان میں سے کون سا ہے جس نے
حکومتی کاروبار کی ٹریننگ حاصل کی تھی ؟ اگر یہ حکومت چلا سکتے ہیں تو ان
جیسے یا ان سے بہتر اس زر خیز زمین میں مزید رفقاءکار کیوں نہیںبن سکتے۔
جنہیں آدمیوں کی ضرورت ہوتی ہے وہ آدمی پیدا کرنے میں انتظام کیا کرتے
ہیں۔ہمارے معاشرے میں ہزاروں تعلیم یافتہ صحیح الدماغ اور صاحب قلب افراد
موجود ہیں جو محض اس لیے آگے نہیں بڑھ سکتے کہ وہ جاگیر داروں کے بیٹے نہیں
، وہ معاشی طور پر آزاد نہیں ،۔ وہ ” آدمی“ بن سکتے ہیں بشرطیکہ کسی کو
آدمیوں کی فی الواقعہ ضرورت ہو ۔
سب سے پر امن واقعہ یہ ہے
آدمی آدمی کو بھول گیا
بغور دیکھئے تو یہ حقیقت نکھر کر سامنے آجائے گی کہ ہمارے ہاں ارباب اقتدار
و سیاست کا چلن بالکل مطلق العنان ہے ، جس قدر اقتدار اور اختیار کسی کے
ہاتھ میں آگیا ، وہ اس میں کسی اور کو شریک اور سہیم نہیں بنانا چاہتا ،
بلکہ چاہتا یہ ہے کہ اِدھر اُدھر سے اور اختیارات بھی اسی کے قبضہ میں
آجائیں ۔ نتیجہ یہ کہ نظام سیاست خراب سے خراب تر ہوتا جارہا ہے اور ان سے
جب بھی شکایت کیجئے حکیم جی کی طرح ایک ہی جواب مل جاتا ہے کہ ” آدمی نہیں
ملتے“ ۔ اگر دل سے چاہتے ہیں کہ مملکت مضبوط اور دنیا کی آنکھوں میں آنکھیں
ڈال کر برابری کی سطح پر بات کرےں تو صوبائیت ، لسانیت ، نسل پرستی اور
فرقہ واریت کو چھوڑ کر مملکت کو مرکزی نظام کے ماتحت لے آیئے ، اس سے ایسا
طبقہ جو محض پارٹیوں کے زور پر بر سر اقتدار آجاتا ہے اور شجر حکومت پر
اکاس بیل کی طرح، اس طریقے سے چھا جاتے ہیں کہ بیل تو تر و تازہ ہو رہی ہو
اور درخت دن بدن سوکھتا جائے ۔ ارباب ِ حل و عقد اورعوام کو بھی شعور سے
کام لے کر ایسے نمائندوں کا انتخاب کرنا چاہیے کہ معیار انتخاب یہ رجحان نہ
قرار پائے کہ کس کے تعین سے کون سا طبقہ یا پارٹی خوش ہوگی ۔ فنی شعبوں کو
سیاست کے نذر کرنے کے بجائے عوام سے ایسے صاحب درک لوگوں پرمشتمل طبقہ
بنائیں جو تمام امور پر مشاورت کرنا ضروری سمجھتا ہو۔ یہ سمجھ لیجئے کہ
زمانہ جنگ سے گزر رہے ہیں ، اس لیے کام کی رفتار اسی نہج سے مقرر کیجئے ۔
پارٹی بازیاں اس قدر شدید اور محکم صورت اختیار کرچکی ہیں کہ اگر کچھ وقت
اور یہی صورت رہی تو نظام کی مشینری خود کار پرواز ِ نادان دوستوں کے
ہاتھوں تہس نہس ہوجائے گی ۔ پاکستان کے تحفظ کے لیے اپنا سب کچھ قربان
کردینے کے لیے تیار تو رہتے ہیں لیکن قوم کا اعتماد حاصل کرنے اور ان سے
رابطہ پیدا کرنے کی کوئی سنجیدہ کوشش بھی شاید اس لیے نظر نہیں آتی کہ آدمی
نہیں ملتے۔
سفینہ برگ گل بنا لے گا قافلہ مور ناتواں کا
ہزار موجوں کی ہو کشاکش مگر یہ دریا سے پار ہوگا
|