1947 میں آزادی کے وقت برصغیر میں565 ریاستیں تھیں۔552
ریاستوں نے ہندستان میں شمولیت اختیار کی اور چند پاکستان کے حصے میں آئیں۔
اس وقت سب سے زیادہ 354بمبئی حکومت کے تحت تھیں۔سندھ کی دو ریاستیں خیر پور
اور امر کوٹ جو آج عمر کوٹ کہلاتی ہے،پاکستان میں شامل ہوئیں۔یہ ریاستیں
عملاً بادشاہتیں تھیں اورخیر پور کے بادشاہ رئیس کہلاتے تھے ۔وہاں کے وزیر
کو دیوان کہا جاتا تھا جو انگریز دور میں انڈین سول سروس سے لیا جاتا تھا۔
خیر پور کے دو اضلاع تھے جن کے سربراہ نائب وزیر یا نائب دیوان ہوتے تھے۔
ایک ضلع یا سب ڈویژن خیر پور تھا جس کے د و تلوک یا تحصیلیں خیر پور اور
گمبٹ تھیں ۔ دوسرا ضلع یا سب ڈویژن میر واہ تھی جس کے تین تلوک یا تحصیلیں
میر واہ، فیض گنج اور نارو تھیں۔ ہر تحصیل کا سربراہ مختار کار کہلاتا تھا۔
سندھ میں 1783 تک کلہوڑا خاندان کی حکومت تھی۔ تالپور خاندان 1680 میں
بلوچستان سے سندھ میں آیااور ان کے لوگ کلہوڑا خاندان کے وفادار رہے۔ اس
وقت تک ان کے آپس میں اچھے تعلقات تھے۔ مگرکلہوڑا خاندان کے پہلے سربراہ کی
وفات کے بعد نئے آنے والے سربراہ سے تالپوروں کے تعلقات بگڑ گئے چنانچہ جب
انہوں نے تالپور خاندان کے سربراہ میر بہرام خان کو پھانسی دینے کا اعلان
کیا اورتالپورقبیلے پر حملہ آرو ہو گئے تو میر فتح خان تالپور کی قیادت میں
اس کے سارے بھائی میر غلام، میر کرم ، میر مراد، اس کے بھتیجوں اور دوستوں
نے ہلانی کی جنگ میں ان کا بھر پور مقابلہ کیا اور کلہوڑا خاندان کو شکست
دے کر تالپور خاندان کی بادشاہی کی بنیاد رکھی۔ابتدائی طور پر میر فتح علی
خان تالپور اس کے پہلے میر اور حیدرآباد اس مملکت کا دارالخلافہ تھا مگر
فوراً بعد اس وقت فتح کیا ہو سارا علاقہ تالپور برادری نے آپس میں تقسیم کر
لیااور یوں چار نئی ریاستیں وجود میں آئیں ۔زیریں سندھ میں حیدرآباد کی
ریاست پر شاہدا دانی تالپور جس کے سربراہ میر فتح علی خان تالپور تھے،
بالائی سندھ کے علاقے خیر پور میں سہرابانی تالپور جس کے سربراہ میر فتح
تالپور کے بھتیجے میر سہراب خان تالپور تھے ، مشرقی سندھ میں میر پور خاص
کے علاقے میں من کانی تالپور جس کے سربراہ میر تھرا خان تالپور اور ٹنڈو
محمد خان پر شاہ وانی تالپور قابض ہو گئے۔
1783 سے 1840 تک یہ چاروں ریاستیں قائم تھیں۔ لیکن انگریزوں کے ساتھ میانی
اور ڈبو کی جنگ میں تین ریاستیں انگریزوں سے شکست کھا گئیں اور ان کا وجود
ختم ہو گیا۔ مگر شمال کی ریاست خیرپور نے مفاہمت کا راستہ اپنا کر اپنا
وجود برقرار رکھا۔خیر پور کی یہ پرنسپلی ریاست 1955 تک قائم رہی اور اس کے
بعد اسے پاکستان میں ضم کر دیا گیا۔ 1783 سے 1955 تک تالپور خاندان کے کل
آٹھ میروں نے ریاست خیر پور پر حکمرانی کی جو کچھ یوں ہے؛
1۔ میر سہراب خان تالپور 1783 - 1830
میر فتح علی خان تالپور کے بھتیجے میر سہراب خان تالپور خیر پور ریاست کے
پہلے حکمران تھے۔انہی کے حوالے سے یہ خاندان سہرابانی تالپور کہلاتا ہے۔میر
سہراب خان تالپور نے خیر پور پر 47 سال حکمرانی کی ۔ان کا دور ایک بہترین
دور تھا۔ انہوں نے ایک شاندار محل جو فیض محل کے نام سے جانا جاتا ہے، ایک
قلعہ ڈجی فورٹ ، شیش محل اور بہت سی دوسری عمارتیں بنوائیں جو اپنی نفاست
،طرز تعمیر اور لافانی حسن کے سبب آ ج بھی سیاحوں کی توجہ کا مرکز ہیں۔
2 ۔میر رستم علی تالپور 1830 - 1842
میر سہراب کے بعد ان کے بیٹے میر رستم علی تالپور حکمران ہوئے۔1832 میں میر
رستم علی نے انگریزوں کے ساتھ امن معاہدہ کیا۔
3 ۔میر علی مراد خان تالپور 1842 - 1894
میر رستم کے بعد ان کے سوتیلے چھوٹے بھائی میر علی مرادخان تالپور نئے رئیس
قرار پائے۔ 1843 میں میانی کی جنگ میں انگریزوں نے میر علی مراد کو شکست دی
اور ایک معاہدے کے نتیجے میں علی مراد کی حکومت برقرار رہی۔1851-52 میں میر
علی مراد پر انگریزوں کے خلاف ترکوں کی مدد کا الزام لگایا گیا اور ریاست
کی زیادہ زمین چھین لی گئی۔ریاست کے پاس فقط خیرپور اور گرد و نواح کے
معمولی علاقے باقی رہے۔ 1857 کی جنگ آزادی میں رئیس علی مراد نے انگریزوں
کی مدد کی ، شکار پور جیل کے قیدیوں کو ضبط میں رکھا اور انگریز خزانے کو
لٹنے سے بچایا۔اس حمایت کے نتیجے میں انگریزوں نے 1866 میں ریاست کے تمام
اختیارات اور زمین کو بحال کر دیا۔
4 ۔میر فیض محمد خان تالپور (اول) 1894 - 1909
میر علی مراد کے بعد ان کے دوسرے بیٹے میر فیض محمد خان تالپور رئیس مقرر
ہوئے۔
5۔میر امام بخش خان تالپور 1909 - 1921
میر فیض کی وفات پران کے بیٹے میر امام بخش تالپور ریئس بنے ۔ میر امام کے
انگریزوں سے اچھے تعلقات تھے۔ انہوں نے پہلی جنگ عظیم میں انگریزوں کی بہت
مدد کی جس کے صلے میں انہیں اعزازی لفٹیننٹ کرنل کا خطاب دیا گیا۔
6 ۔میر علی نواز تالپور 1921 - 1935
میر امام ٍبخش کی وفات کے بعد میر علی نواز تالپور نئے رئیس ہوئے۔ ان کے
عہد میں جبری مشقت کا خاتمہ ہوا اور زراعت کی ترقی کے لئے نئی نہریں نکالی
گئیں۔شروع 1921 ہی میں ان کی خراب اور کمزور انتظامی صلاحیتوں اور ان کے لا
ابالی پن کے باعث ان کے سارے اختیارت انگریزوں نے ضبط کر لئے اور نظم و نسق
کے لئے اپنے نمائندوں کا تقرر کر دیا۔
7 ۔ میر فیض محمد خان تالپور (دوم) 1935 - 1947
میر فیض محمد کا دور ابتری کا دور تھا۔ وزرا سے اختلاف کے باعث انہوں نے
آخری بارہ سال ریاست بدر ہو کر پونا میں گزارے ۔ واپس آنے کے فوراً بعد وہ
جولائی 1947 میں اپنے بیٹے جارج علی مراد تالپور کے حق میں دستبردار ہو
گئے۔
8 ۔میر جارج علی مراد خان تالپور 1947 - 1955
جارج علی مراد خان تالپور کا عہد بہترین عہد مانا جاتا ہے۔ انہوں کے چند
سال بہت اچھی اور بھر پور حکومت کی۔ان کے عہد میں لوگوں کو ووٹ کا حق دیا
گیا۔میٹرک تک تعلیم مفت کر دی گئی۔ مفت طبی سہولتیں مہیا کی جانے لگیں۔ ہر
طرح کا ٹیکس بشمول انکم ٹیکس، پراپرٹی ٹیکس، ویلتھ ٹیکس اور کسٹم ڈیوٹی سب
ختم کر دئیے گئے۔انڈسٹری کو ترقی دی گئی۔ امن و امان کی بہترین صورت کے
باعث کرائم ریٹ نہ ہونے کے برابر رہ گیا۔
پچھلے دنوں مجھے خیر پور جانے کا اتفاق ہوا تو فیض محل کی کشش مجھے وہاں لے
گئی ۔فیض محل خیر پور کے رئیس خاندان کا ذاتی محل ہے جسے خیر پور کے پہلے
تالپور حکمران رئیس سہراب خان تالپور نے بنوایا تھا۔۔فیض محل کو تعمیر کرنے
میں 13 سال لگے ،اس کا رقبہ بارہ ایکڑ ہے اور یہ 1798 میں مکمل تعمیر ہوا۔
اس وقت اس کی تعمیر پر ایک لاکھ روپے لاگت آئی چنانچہ اس حوالے سے اسے لکھی
محل بھی کہتے ہیں۔اپنی انتہائی خوبصورتی کے سبب سیاحوں کے لئے دلکش اس
عمارت میں رئیس کی عدالت لگا کرتی تھی۔عمارت کے داخل ہوں تو ایک بڑا ہال
ہے۔ جس کے دروازوں کے ساتھ حنوط شدہ ہرنوں کر سر لٹک رہے ہیں۔ ہال ایک مکمل
تاریخ ہے۔ ہال میں پڑا ہوا صدیوں پرانا فرنیچر اپنی پوری آب وتاب سے چمکتا
دمکتا یوں نظر آتا ہے کہ جیسے اسے بنے چند سال ہی گزرے ہوں۔دیواروں پر
تالپور خاندان کے تمام رئیس حکمرانوں اور ان کے خاندانی افراد کی تصویریں
ہیں۔الماریوں میں تاریخی دستاویزات ہیں۔ اس بہت بڑے ہال کی پیتل کی بنی
ہوئی چھت اپنی خوبصورتی میں بے مثال ہے۔ہال کے ساتھ ہی ڈائننگ ایریا ہے۔
ارد گرد 36 کمرے ہیں جن میں 16 کمرے کبھی انتظار گاہ کے طور پر استعمال
ہوتے تھے ، بقیہ شاہی مہمان خانے کے طور استعمال ہوتے تھے۔محل کے احاطے میں
ایک وسیع آموں کا باغ ہے جو کبھی ہاتھی خانہ ہوا کرتا تھا۔ ہاتھی جب نہ رہے
تو اس جگہ کو باغ میں تبدیل کر دیا گیا ۔ وہاں موجود لوگوں نے بتایا کہ
قومی ترانے کے خالق حفیظ جالندھری کے ریاست کے آخری رئیس جناب جارج مراد کے
ساتھ بہت اچھے تعلقات تھے اور رئیس نے ان کا مستقل وظیفہ بھی مقرر کیا ہوا
تھا۔ قومی ترانے میں شامل ایک مصرعہ ’’شاد باد منزل مراد‘‘ جناب رئیس جارج
مراد سے منسوب تھا جسے بعد میں ترانے میں شامل کر لیا گیا۔رئیس جارج مراد
زندہ سلامت ہیں مگر اپنے کسی دوسرے محل میں مقیم ہیں ۔ فیض محل میں ان کے
دو بیٹوں میں چھوٹے بیٹے شہزادہ مہدی رضا تالپور مقیم ہیں۔
ہماری آمد کی اطلاع پا کر رئیس مہدی رضا ایک دروازے سے ہال میں تشریف لائے۔
وہی سادگی جو سندھ کلچر کا خاصہ ہے۔ ان کے لہجے، ان کے طرز سخن، ان کی
ملنساری اور ان کے ہر انداز سے نظر آ رہی تھی۔ پڑے تپاک سے ملے۔ دھیما لہجہ
اور میٹھا انداز۔ کہنے لگے کہ میں لیٹا ہوا تھاکہ پتہ چلا مہمان آئے ہیں ،
اسی طرح اٹھ کر ملنے آ گیا ہوں۔ موقع اچھا جان کر میں نے رئیس سے ان کے اور
ان کی ریاست کے بارے جاننے کے لئے چند باتیں کیں ۔ میرے سوال پر کہ آپ کے
والد کے نام کے ساتھ جارج کیوں آتا ہے۔ تو بتانے لگے کی ان کی پرورش
انگریزوں میں ہوئی چنانچہ ان کے تعلق کے حوالے سے ان کے نام مراد کے ساتھ
جارج کا اضافہ کیا گیا ہے ، یہ اس وقت کی روایت تھی کہ پرورش کرنے والے کو
بھی والدین کی طرح احترام دیا جاتا تھا اسی لئے وہ جارج مراد کہلاتے ہیں۔
انہوں نے بتایا کہ 3 اکتوبر 1948 کو قائد اعظم محمد علی جناح کے ساتھ ایک
معاہدے کے تحت ہم نے ریاست کو پاکستان میں شامل کیا۔ اس معاہدے کے تحت
مواصلات، دفاع اور خارجی امور کے علاوہ یہ ریاست اپنے معاملات میں آزاد تھی
مگر 14 اکتوبر 1955 کو ریاست ختم کرکے اسے پاکستان میں شامل کر لیا گیا۔
میں نے پوچھا کہ کوئی وجہ ، تو کچھ اداس سے لہجے میں جواب تھا کہ یہ ہم آج
تک نہیں جان سکے۔ اس وقت ریاست کی صورت حال کے بارے میں بتانے لگے کہ یہ
ایک بہترین ریاست تھی۔ کرائم ریٹ تقریباً صفر تھا۔ کوئی بے روزگاری نہیں
تھی۔ اس وقت ہمارے علاقے میں 56 انڈسٹریاں کا م کر رہی تھیں جن میں
ٹیکسٹائل ،تمباکو، آئل ، گھی، ماچس اوربہت سی فیکٹریاں تھیں۔ نئی دو زیر
تعمیر تھیں اور بہت سوں پر کام ہو رہا تھا۔ لوگوں کو آسانی سے روز گارحاصل
تھا۔ مگر 1955 میں پاکستان میں شامل ہونے کے بعد تمام فیکٹریاں بند کر دی
گئیں کہ یہ علاقہ انڈسٹری کے لئے سازگار نہیں۔ لوگ بے روزگار ہو گئے۔ بہت
احتجاج ہوا مگر سب بے معنی رہا۔تالپور خاندان تعلیم پر اپنے بجٹ کا بائیس
(22) فیصد خرچ کرتا تھا۔ پوری ریاست میں بنیادی تعلیم مفت تھی۔لڑ کیوں کے
علیحدہ سکول قائم کئے گئے تھے۔ ہائر ایجو کیشن کی حوصلہ افزائی کی جاتی
تھی۔ریاست کی کوشش تھی کہ ریاست میں کوئی ناخواندہ نہ رہے۔ حکومت پاکستان
خود تسلیم کرتی تھی کہ یہ ایک بہترین ریاست ہے ۔ رئیس مہدی رضا نے ہال میں
موجود وہ دستاویزات دکھائیں بھی۔ فیض محل اور اس کے مکین جناب رئیس مہدی
رضا صاحب سے ملاقات اور خیر پور کے علاقے کی سیر کے بعد میں محسوس کرتا ہوں
دنیاوی طور پر اقتدار ختم بھی ہو جائے تو بھی اپنے اچھے اعمال اورنیک سلوک
کے سبب آپ لوگوں کے دلوں پر اپنا اقتدار قائم رکھتے ہیں ۔ خیر پور کی
تالپور فیملی اس کی زندہ مثال ہے۔ان کا اقتدار چھن گیا ہے مگر وہ آج بھی
لوگوں کے لئے اسی قدر قابل احترام ہیں۔
|