وزیر اعظم نریندر مودی پر چونکہ ہر کام کے کریڈٹ لینے کا
جنون سوار رہتا ہے اس لیے فی الحال سرکار دربار میں گاڑی آگے اور گھوڑا
پیچھے چلتا ہے یعنی سرکاری فیصلے بعد میں ہوتے ہیں اور ان کا اعلان پہلے
ہوجاتا ہے۔ اس کی ایک مثال گذشتہ برس یوم آزادی کے موقع پر لال قلعے کی
فصیل سے وزیراعظم کی تقریر میں لڑکیوں کے نکاح کی کم از کم عمر میں اضافہ
کا اعلان تھا۔ اس کے بعد مودی کابینہ نے چائیلڈ میرج ایکٹ 2006ء ، اسپیشل
میرج ایکٹ اور ہندو میرج ایکٹ 1955ء میں ترمیم کرکے لڑکیوں کی شادی پر
لڑکوں کے مانند 21 برس تک روک لگانے کی منظوری دے دی ۔ فی الحال 18برس کی
لڑکیوں کو شادی کی قانوناً اجازت حاصل ہے۔حکومت نے گزشتہ سال دسمبر میں یہ
بل ایوان میں پیش کیا مگرحزب اختلاف کی تنقید کے سبب اسے پارلیمانی امور کی
کمیٹی کوسونپ دیا گیا۔ اس طرح گویاا کثریت کی بنیاد پر اسے بزور قوت نافذ
کرنے کے بجائے ٹھنڈے بستے میں ڈال دیا گیا۔
یہ عجب تماشہ ہے کہ ایک طرف مودی جی فرماتے ہیں کہ حکومت کا کام کاروبار
کرنا نہیں ہے اس لیے سرکار کو تجارتی امور میں دخل اندازی نہیں کرنی چاہیے
دوسری جانب سماجی معاملات میں وہ بے دریغ مداخلت کو ضروری سمجھتے ہیں۔ اس
دراندازی کی آڑ پرسنل لا کے توسط سے تسلیم شدہ شرعی آزادی کو پامال کیا
جاتا ہے۔ ایک طرف تو یوگی جیسے لوگ شادی کی جھنجھٹ میں پڑنے کی ضرورت ہی
نہیں محسوس کرتے اور مودی کو ماں باپ کی زبردستی ساتھ پھیرے تولگوا دئیے
جاتے ہیں تب بھی وہ رسی توڑ کر بھاگ نکلتے ہیں ۔ ستم بالائے ستم یہ کہ اس
غیر فطری طرزِ حیات کو قابلِ رشک سمجھاجاتا ہے ۔ آر یس ایس کے اندر برہما
چاریہ کا پالن ہوتا ہے یعنی اس کے کارکن مجرد زندگی گزارتے ہیں۔ اس لیے ان
کا ازدواجی زندگی کی نزاکتوں کو سمجھنا مشکل ہے۔ اس کے باوجود سنگھ پریوار
کا اسے محسوس کرنا اور ذرائع ابلاغ میں اپنی ہی حکومت سے شادی کی عمر کے
معاملے میں اختلاف کرنا خوش آئند ہے۔
یہ ایک حقیقت ہے کہ سیاست اور معاشرت کے درمیان توازن کا بگڑ جاناصحتمند
سماج کے مضر ہے۔ آر ایس ایس جیسی کوتاہ بین تحریک کو اس ضرورت کا احساس
ہونا اور اس کی خاطر عملی اقدام کرنا قابلِ تعریف ہے۔ ایک معاشرے میں رہنے
والے مختلف بلکہ مخالف لوگوں کےکئی مسائل مشترک ہوتے ہیں ۔ اس لیے ایک
دوسرے سے سیکھنے کا عمل جاری رہنا چاہیے۔ بہت ممکن ہے کہ آر ایس ایس کو
خاندانی رشتوں کی کمزوری کا احساس تنظیمی سرگرمیوں میں بے شمار اضافہ کے
سبب ہوا ہو۔ ایسا کسی کے ساتھ بھی ہوسکتا ہے۔ 2025 میں سنگھ اپنی عمر کے سو
سال مکمل کرلے گا ۔ صد سالہ تقریب کی منصوبہ بندی بھی اس نشست میں ہوگی ۔
اس کے تحت سنگھ موجودہ شاخوں کر ۵۵ ہزار سے بڑھا کر ایک لاکھ تک پہنچانے
ارادہ رکھتا ہے۔ نوجوانوں اور پیشہ ور حضرات کی خاطر ان مزاج کا لحاظ کرتے
ہوئے سنگھ نے صرف صبح کے بجائے رات ساڑھے نو بجے بھی شاکھا منعقد کرنے کا
فیصلہ کیا ہے۔ اسی کے ساتھ روز آنہ کی شاکھا کے ساتھ ہفتہ وار پروگرام کا
بھی اہتمام کیا جارہاہے۔
حالات کی تبدیلی کے پیش نظراپنے لگے بندھے طریقۂ کار میں لچک پیدا کرنا
سنگھ یا کسی بھی تنظیم کی توسیع و استحکام میں معاون ومددگار ثابت ہوسکتا
ہے۔ فی الحال وطن عزیز میں نکاح کے اندر عصمت دری کا مضحکہ خیز قضیہ بھی
زیر بحث ہے اور مغرب زدہ دانشوروں کےساتھ عدالت کا بھی سرکار پر دباو ہے
مگر سنگھ کے خیال میں اس کا حل بھی خاندان پر چھوڑ دیا جانا چاہیے۔ ان
مسائل کی بابت سنگھ کی تشخیص درست معلوم ہوتی ہے کہ یہ قومی سطح پر خاندانی
رشتوں کو بہتر بنانے والی مہم کے خلاف ہیں۔ سنگھ کے خیال میں جدید معاشی
مجبوریوں اور مغربی اثرات کے سبب خاندانی رشتے دباو میں ہیں۔ آر ایس ایس
خاندان کو معاشرے کی سب سے اہم اکائی مانتا ہے۔ وہ کٹمب پربودھن(خاندانی
افہام و تفہیم) کے عنوان سے ایک پروگرام چلاتا ہے ۔ اس کے تحت افراد کو
ہفتے میں کم ازکم ایک دن اپنے وسیع خاندان کے ساتھ وقت گزارنے اور مل جل کر
کھانا کھانے کی ترغیب دی جاتی ہے ۔ اس دوران سیاسی موضوعات کے بجائے سماجی
مسائل پر گفتگو کرنے کے لیے کہا جاتا ہے۔
دنیا کی کسی بھی تحریک کو کوئی غیر توسیع سے نہیں روک سکتا یہاں تک کہ وہ
خود اپنی دشمن بن جائے۔ بزور قوت روکنے سے اکثر تحریکات زیادہ طاقتور
ہوجاتی ہیں ۔اپنے مخالفین سےخوفزدہ ہونے کے بجائے اس کی جو سرگرمیاں اپنے
خلاف ہوں اس کے توڑ کا اہتمام کیا جانا چاہیے نیز اپنی طاقت کو بڑھانے پر
توجہ ہونی چاہیے۔ اس لیے کہ یہ ہمارے دائرۂ اختیار میں بھی ہے اور ہم اسی
کے مکلف و مسئول ہیں ۔ نبی کریم ﷺ اپنے مخالفین پر نظر رکھتے تھے لیکن ان
سے مرعوب یا خوفزدہ ہونے کے بجائے اپنے دفاع اور اقدام کی منصوبہ بندی فرما
کر ان کو عملی جامہ پہناتے تھے۔ امت مسلمہ پر یہ اللہ تعالی کا احسان ہے کہ
نکاح کی عمر کے سلسلے میں اس کے پاس واضح ہدایت موجود ہے ۔یہی وجہ ہے کہ
امیر جماعت اسلامی ہند انجنیرسعادت اللہ حسینی نے حکومت کے ا س فیصلے کو
غیردانشمندانہ قرار دے کر اس پر تنقید کی ہے ۔
آل انڈیا مسلم پرسنل لا بورڈ کے جنرل سکریٹری مولانا خالد سیف اللہ رحمانی
نے شریعت کا موقف واضح کرتے ہوئے فرمایا ہےکہ نکاح انسانی زندگی کی ایک اہم
ضرورت ہے؛ لیکن نکاح کس عمر میں ہو، اس کے لئے کسی متعین عمر کو پیمانہ
نہیں بنایا جا سکتا، اس کا تعلق صحت وتندرستی کے ساتھ سماج میں اخلاقی
اقدار کے تحفظ اور سوسائٹی کو اخلاقی بگاڑ سے بچانے سے بھی ہے۔ اسی لئے نہ
صرف اسلام بلکہ دیگر مذہب میں بھی نکاح کی کوئی عمر متعین نہیں کی گئی
ہے۔مولانا کے مطابق نکاح کے بعد عائد ہونے والے واجبات کو ادا کرنے کی
صلاحیت رکھنے وا لے نوجوان کو نکاح سے روکنا ظلم اور شخصی آزادی میں
مداخلت ہے۔ 18؍ یا 21 سال شادی کی کم سے کم عمر متعین کر دینے سے سماج میں
جرائم کو بڑھاوا مل سکتا ہے۔ آر ایس ایس کو چاہیے کہ وہ اس بیان کی روشنی
میں اپنی تجویز مرتب کرے ۔
اسلام کے برعکس سرکار کے خیال میں کم عمری کی شادی سے تعلیم متاثر ہوتی اور
حاملہ ہونے نوبت بھی بہت جلد آجاتی ہے۔ سرکاری ادارہ نیتی آیوگ نے اس کام
کے لیے جیا جیٹلی کی سربراہی میں ایک ٹاسک فورس بنائی ۔ جیا کے مطابق
لڑکیوں کے نکاح کی عمر میں اضافے کی سفارش کا تعلق آبادی پر کنٹرول سے قطعی
نہیں ہے کیونکہ ہندوستان میں مجموعی فرٹیلیٹی ریٹ مسلسل گر رہا ہے اور
آبادی قابومیں ہے۔ اس سفارش کا اصل مقصد خواتین کو بااختیار بنانا ہے۔ ان
کے مطابق بڑے پیمانے پر ماہرین اور نوجوانوں،بالخصوص خواتین کے ساتھ صلاح و
مشورے کے بعد ان سفارشات کو مرتب کیا گیاہے۔ راجستھان، جہاں کم سن بچوں کی
شادی کا رواج عام ہے، کے بیشتر اضلاع کے علاوہ ملک کے متعدد شہری اور دیہی
علاقوں کے لوگوں سے رائے معلوم کی گئی۔ سوال یہ ہے کہ اگر سب لوگ اس کے
حامی ہیں تو یونیسیف کی رپورٹ یہ انکشاف کیوں کرتی ہے کہ ہر سال ملک میں
15لاکھ سے زیادہ لڑکیوں کی21تو دور 18برس سے کم عمر میں شادی ہوجاتی ہے۔
جیا جیٹلی نے تسلیم کیا کہ بعض حلقوں نے لڑکیوں کی شادی کی عمر میں اضافہ
کی مخالفت کی ہے۔ ان کے مطابق خواتین اور بچوں کے حقوق کے لیے سرگرم
کارکنوں نیز خاندانی منصوبہ بندی (فیملی پلاننگ) کے ماہرین بھی لڑکیوں کی
شادی کی عمر میں اضافہ کرنے کے حق میں نہیں ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ اس مقصد
کے لیے قانون سازی کے بعد آبادی کا ایک بڑا طبقہ غیر قانونی شادی کا راستہ
اختیار کرلے گا۔ یہ دلیل اس لیے معقول ہے کہ ہندوستان میں لڑکیوں کے نکاح
کی کم از کم قانونی عمر 18برس ہونے کے باوجود اس سے کم لڑکیوں کی شادی عام
ہے۔ یعنی پہلے سے موجود قانون کی بجا آوری نہیں ہوتی اور انتہائی کم عمری
میں شادیوں کی تعداد میں اس سے کوئی کمی واقع نہیں ہوتی تو اسے مزید سخت
بنادینے سے کیا فرق پڑے گا؟
خواتین اوربچوں کے حقوق کے لیے سرگرم کارکنوں کا کہنا ہے کہ اگر لڑکیوں کی
شادی کی کم از کم عمر 21 برس کا قانون منظور ہوجاتا ہے تو دیگر قوانین کی
طرح اس کے بھی غلط استعمال کا خدشہ ہے اور اس کا سب سے زیادہ منفی اثر
پسماندہ طبقات اور قبائلی لوگوں پر پڑے گا۔ زمینی سطح پر کام کرنے والوں کے
خیال میں قانون سازی کی بجائے لڑکیوں کے لیے تعلیم اور روزگارکے مواقع میں
اضافہ کرکے اس رجحان کو کم کیا جاسکتا ہے۔ ان مخالفین کا تعلق نہ تو اسلام
پسندوں سے ہے اور نہ آر ایس ایس سے ہے ۔ اس لیے سرکار کو چاہیے کہ کم ازکم
ان کی سن کر یہ قانون نہ بنائے ورنہ پھر عوام کی مخالفت کے سبب اسے بھی
کسان قانون کی طرح واپس لینے کی نوبت آجائے گی یا کاغذ پر تو قانون موجود
ہوگا مگر عملی دنیا میں بلاروک ٹوک اس کی مخالفت ہوگی ۔ اس سے سماج کے اندر
نہ صرف بے راہ روی میں اضافہ ہوگا بلکہ رشوت ستانی بھی بڑھے گی کیونکہ
انتظامیہ کے پاس عوام کو ہراساں کرکے روپیہ اینٹھنے کا ایک وسیلہ ہاتھ آ
جائے گا۔ اس لیے مودی سرکار اور سنگھ پریوار کے درمیان یہ اختلاف خوش آئند
ہے بشرطیکہ مودی جی اس پر توجہ دیں ۔
(۰۰۰۰۰۰۰جاری )
|