لوٹوں اور اتحادیوں پرانحصارکیوں؟
(Dr Rais Ahmed Samdani, Karachi)
لوٹوں اور اتحادیوں پرانحصارکیوں؟ ٭ ڈاکٹر رئیس احمد صمدانی ان دنوں وطنِ عزیز سیاست کے بدترین دور سے گزر رہا ہے۔ حکومت ِ وقت کے خلاف تو حزب اختلاف ہر دور میں رہی صف آرا رہی ہے لیکن آج کپتان کی حکومت کے خلاف حزب اختلاف کی جنگ اور جواب میں کپتان کی جوابی جنگ اپنے عروج پر پہنچ چکی ہے۔ اس جنگ کو جسے صرف ایوان میں ہونا چاہیے تھا وہ جنگ ایوانوں کے علاوہ، میدانوں میں، انصاف کے ایوانوں اور میڈیا کے نشریاتی پروگراموں میں متصادم دکھارہی ہے۔میدان جس میں جلسے، جلوس اور ریلیا ں شامل ہیں، عدالت کے ذریعہ منحرف اراکین کو نااہل کرانے اور میڈیا پر اپنے اپنے لیے راہ ہموار کرنے کے لیے استعمال ہورہا ہے۔ عدم اعتماد کی تحریک کا آخری اور حتمی فیصلہ منتخب ایوان میں گنتی پوری کرنے سے ہی ہوگا۔ اس سے قبل جو کچھ بھی محاز آرائی، ایک دوسرے کو برا بھلا کہنا، غلیظ زبان کا استعمال ہورہا ہے وہ انتہائی غیر مناسب ہے، خواہ وہ زبان کوئی بھی استعمال کررہا ہو۔مہذب معاشرہ کسی بھی طور بد گوئی، عیب جوئی کی اجازت نہیں دیتا۔ یہ بات درست ہے کہ کمان سے نکلا ہوا تیر اور زبانسے نکلا ہوا جملہ واپس نہیں آسکتے۔ یہ بھی کہ زبان کا گھاوتیر کے وار سے زیادہ تکلیف دہ ہوتا ہے۔ لوٹا کریسی کوئی نئی نہیں بات نہیں یہ ہر دور میں ہوتی رہی ہے۔ ہمارے منتخب اراکین بکتے رہے ہیں،لوٹے بنتے رہے ہیں۔ اس وقت جو معرکہ حکومت اور حزب اختلاف کے مابین جاری ہے ان میں لوٹوں نے اہمیت اختلار کر لی ہے۔ کپتان سے ناراض کئی اراکین حزب اختلاف سے جاملے جنہیں لوٹا کہا جارہا ہے اور بے ضمیر کہا جارہا ہے۔ لوٹا بن جانے والوں کو حکومت تو ضمیر فروش اور لوٹا گردان رہی ہے لیکن یہ لوٹے جس زمین کو اپنے عمل سے فیض پہنچانے کے در پے ہیں وہ جمہوری بھی ہیں اور منجھے ہوئے سیاست داں داں اور ماضی کے حکمراں کے ساتھ بھی اقتدار کے مزے لے چکے ہیں۔حکومت نے تحرک عدم اعتماد کا مقابلہ کرنے کے جو طریقے اختیار کیے ہیں ان میں ایک سپریم کورٹ میں صدارتی ریفرنس دائر کرنا ہے جس میں صدر مملکت نے عدالت اعظمیٰ سے آئین 63اے کی تشریح کے بارے میں مانگی ہے جس میں کہا گیا ہے کہ کیا جو رکن اسمبلی کے اپنی سیاسی جماعت کی منشاکے برعکس ووٹ دینے سے متعلق ہے۔ آئین پاکستان کی شق 186کے تحت صدرمملکت کو کسی قانونی نکتے پر جو مفاد عامہ کا حامل ہو،م سپریم کورٹ سے رائے لے سکتے ہیں۔ سپریم کورٹ صدر مملکت کو قانونی نکگے ہر غور کے بعد اپنی رپورٹ دے گی۔واضح رہے کہ ماضی میں بھی کئی صدور ایسے گزرے ہیں کہ جنہوں نے سپریم کورٹ سے رائے طلب کی تھی ان میں گورنر جنرل غلام محمد، ذوالفقارعلی بھٹو، غلام اسحاق خان، فاروق احمد خان لغاری، پرویز مشرف، آصف علی زرداری کے اب صدر عارف علوی نے سپریم کورٹ سے رائے مانگی ہے۔ صدارتی ریفرنس میں صدر نے آرٹیکل 186کے تھت چار بنیادی سوالات پر رہنمائی مانگی ہے۔ سوالات کچھ اس طرح ہیں ۱۔ کیا پارٹی سے خیانت والے رکن کی سزا صرف ڈی سیٹ ہونا ہے؟ ۲۔ کیا پارٹی سے خیانت پر آئندہ انتخابات میں حصہ لینے سے روکا ہے یا نہیں؟ ۳۔کیا آرٹیکل 63اے کے تحت ممنوعہ غیر اخلاقی عمل پر رکن تاحیات نااہل ہوں گے؟ ۴۔ پارٹی پالیسی کے خلاف دیا گیا ووٹ گنتی میں شمار ہوسکتا ہے؟ عدالت میں تحریک عدم اعتماد کو شکست دینے کا عمل جاری ہے۔ نتیجہ کیا نکلتا ہے، عدالت کیا فیصلہ دیتی ہے اور کب دیتی ہے، ضروری نہیں کہ تحریک عدم اعتماد جب ووٹوں کی گنتی ہو فیصلہ آجائے یہ بعد میں بھی آسکتا ہے۔تحریک عدم اعتماد کا فیصلہ قومی اسمبلی کے اجلاس میں ہوگا۔ اس حوالہ سے آج یعنی 25مارچ کو اجلاس منعقد ہوا اور روایت کے مطابق مرحوم رکن اسمبلی کے لیے ایصال ثواب کے بعد اسپیکر نے اجلاس دو دن کے لیے ملتوی کردیا۔ حزب اختلاف نے اسپیکر کے اس عمل کو غیر آئینی اور جانب داری قرار دیا۔ اس حوالہ سے ایک میدان 27مارچ کو اسلام آباد میں سجنے جارہا ہے۔ پہلے حکومت نے اس تاریخ کااعلان کیا تھا اب حزب اختلاف نے بھی اسی دن کا انتخاب کیا ہے۔ یعنی اسلام آباد میں دونوں پہلوان اپنی عوامی قوت کا عملی مظاہرہ کریں گے۔اس عمل سے تحریک عدم اعتماد پر مثبت اور منفی اثرات اس طرح ظاہر ہوں گے کہ جس نے عوامی طاقت کا مظاہرہ زیادہ کیا وہ فریق یہ دعویٰ کرے گا کہ پاکستان کی عوام اس کے ساتھ ہے۔ اگر کپتان دس لاکھ افراد کو جمع کرنے میں کامبیاب ہوگیا تو حزب اختلاف پر منفی اثرات ہوں گے۔ دباؤ پڑے گا، ان کا مارل ڈاؤن ہوگا۔ اگر ایسا نہ ہوا تو کپتان کو ایسے ہی کیفیات کا سامنا کرنا پڑے گا۔ تحریک عدم اعتماد کی کامیابی اور ناکامی میں ایک دوسرے کے اراکین کو لوٹا بنانے کا عمل جاری ہے۔حزب اختلاف تحریک عدم اعتماد کی کامیابی میں لوٹوں پرانحصار کررہی ہے۔ اب تک حکومت نے حزب اختلاف کے کسی رکن کو توڑنے کا دعویٰ نہیں کیا لیکن ممکن ہے کہ ماضی کی طرح حزب اختلاف کے کچھ اراکین اجلاس میں غیر حاضر ہوجائیں۔ البتہ تحریک انصاف کے دس سے زیادہ اراکین لوٹا بن کر سامنے آچکے ہیں۔ جنہیں واپس لانے کی جدوجہد جاری ہے۔ تحریک عدم اعتماد میں ایک عنصر حکومت کے اتحادی بھی ہیں جو ساڑے تین سال سے اقتدار کے مزے لیتے رہے۔ اب ان کی مشاورت ہے کہ ختم ہونے کا نام ہی نہیں لے رہی۔ وہ کس جانب جاتے ہیں، سرِ دست کچھ کہانہیں جاسکتا۔ تحریک عدم اعتماد میڈیا پر بھی لڑی جارہی ہے۔ ٹی وی چینل پر دونوں فریقین کے چاہنے والے اپنی اپنی فتح کے جھنڈے گاڑتے دکھائی دے رہے ہیں۔ اس مقصد کے لیے دونوں فریقین شہر اقتدار میں اپنی اپنی افرادی قوت دکھانے جا رہے، قافلے اپنے اپنے شہروں سے نکل چکے ہیں۔ ایک ہی وقت میں دونوں فریقین کے چاہنے والے ایک دوسرے کے مدِ مقابل ہوں گے۔ خطرہ بہر طور موجود ہے، اللہ نہ کرے کہ شہر قائد میں ہونے والے دونوں فریقین کے مظاہرے دنگل کی صورت اختیار نہ کر لیں۔ ماضی میں اس قسم کی صورت حال میں کوئی بھی طاقت ور بیچ میں آکر معاملے کو رفعہ دفعہ کرادیا کرتا تھا۔ اس مرتبہ ہر جانب سے خاموشی ہے۔ اللہ پاک ان دونوں فریقین کے کرتا دھرتاؤں کو ہوش کے ناخن دے اور وہ اپنے چاہنے والوں کو ایک دوسرے سے دست و گریباں ہونے سے بعض رکھ سکیں۔ (26مارچ2022ء)
|