ایک بے بس کشمیری

آزادی کی قدر اس سے بہتر کون جان سکتا ہے۔ جس نے اپنی زندگی کے چو ہتر سال ایسی قید میں گزا ریں ہوں ۔ جس میں اسکے خاندان کے کئی افراد کو اس کی آنکھوں کے سامنے کاٹ دیا گیا ہو

Munir Anjum

آزادی کی قدر اس سے بہتر کون جان سکتا ہے۔ جس نے اپنی زندگی کے چو ہتر سال ایسی قید میں گزا ریں ہوں ۔ جس میں اسکے خاندان کے کئی افراد کو اس کی آنکھوں کے سامنے کاٹ دیا گیا ہو ۔ اور لاکھوں دوسرے مسلمان بہن بھائیوں کو آزادی کی جدوجہد میں شہید کیا گیا ہو ۔ اور میں اکیلا ایسا شخص نہیں مجھ جیسے کئی اور ہوں گے ۔ جن کی یہی کہانی ہوگی اور وہ اس کہانی کو اپنے سینے میں ہی دفن کرتے ہوئے اس دنیا سے چلے گئے ہوں گے ۔ ہاں میں کشمیر کا وہ بے بس اور لاچار شخص ہوں ۔

جس کی آنکھیں خون دیکھتے دیکھتے اب دھندلا گئی ہیں ہاتھ لاشیں اٹھا اٹھا کر تھک گئے ہیں ۔ پیر اس قابل ہی نہیں کہ اب اپنا بھی بوجھ اٹھا سکیں ۔ اب تو بم کی آواز بھی گولی جتنی سنتی ہے ۔ دماغ میں بہت یادیں ہیں جو میں بھولنے کی کوشش میں ہوں ۔مگر ناکام یہ وہ رلا دینی والی یادیں ہیں جن پر صبر نے پردہ ڈھالا ہوا ہے .ورنہ تو دل کب کا پھٹ جاتا اب بھی روز کسی نہ کسی گھر سے رونے کی آوازیں آتی رہتی ہے ۔ پھر انکو بھی میری طرح صبر آ جاتا ہو گا ۔ میں اکثر یہ سوچتا ہوں ہم پر یہ ظلم کس لیے ہو رہا ہے ۔اس لیے کہ ہم مسلمان ہیں یا اس لیے کہ ہم بھی آزاد رہنا چاہتے ہیں ۔ 27000 دنوں میں کوئی ایسا دن نہیں گزرا ہو گا ۔جس دن ہم نے اللّه سے آزادی کی دعا نہ مانگی ہو ۔ اور یہ بھی نہیں کہ کبھی مایوسی ہوئی ہو ہر دن امید ہوتی ہے کہ کوئی آ کر ہمیں کہے گا ۔ بابا ہم آزاد ہیں اب ہمیں کوئی تنگ نہیں کرے گا ۔اب ہماری بیٹیوں کی عزت کو کوئی نہیں لوٹے گا ۔ اب ہم بے فکر ہو کر نماز پڑھیں گے ۔ ہم کو عید گھر پر نہیں پڑھنا پڑے گی ۔ ایسے ہی کئی لفظ ہیں جن کو سننے کے لیے یہ کان ترس رہے ہیں ۔

ہم نے سن رکھا ہے کہ اللہ کے ہاں دیر ہے اندھیر نہیں ۔

مگر مجھے حیرت اس بات کی ہوتی ہے کہ جن کے لیے ہم آزادی کی جنگ لڑ رہے ہیں ۔ جس کا نام لے لے کر ہم سینوں پر گولیاں کھا رہے ہیں ۔ جس سبز پرچم کو ہم سروں پر باندھ کر آزادی کی جنگ لڑ رہے ہیں ۔ جن کی طرف ہم امید بھری نگاہوں سے دیکھ رہے ہیں ۔ کیا ان کو بھی ہماری فکر ہے ؟ مجھے سب سے زیادہ یہ سوال پریشان کرتا ہے ۔ اور میں چھوٹے بچوں کو یہ کہانیاں سنا سنا کر دلاسہ دیتا ہوں ۔ کہ ہم بھی پاکستانی ہیں جو انیس سو سینتالیس میں بچھڑ گئے تھے ۔ ایک دن ہمارے پاکستانی بھائی ہمیں ڈھونڈتے ڈھونڈتے ضرور آئیں گے ۔ مگر اب یہ کہانی بتا بتا کر میں تھک گیا ہوں میں یہ سوچتا ہوں کہ پاکستان اتنا ہی کمزور ہے ۔ کہ ہم کو آزادی کے لئے اتنا انتظار کرنا پڑ رہا ہے ۔ کیا ان کے پاس وسائل کی کمی ہے ۔کیا ان کے پاس بھی ہماری طرح ہتھیار نہیں ہیں ۔ یا پھر وہ ہم کو بھول گئے ہیں یا پھر ان کے پاس وقت ہی نہیں کہ ہمارے لئے اپنا وقت ضائع کریں ۔ ہماری آزادی ان کے لئے شاید کوئی اہمیت نہیں رکھتی ۔ کیونکہ انکو ہمارے زخموں کا کوئی احساس نہیں وہ کسی نے کیا خوب کہا ہے۔ جس کا درد اسی کا درد باقی سب تماشائی ۔ کیا پاکستان کی 22 کروڑ عوام میں سے صحابہ اکرام والے 313 مرد ابھی پیدا ہی نہیں ہوئے جو ہمارے لئے جنگ لڑ سکیں اور ہماری عزتوں کو بچا سکیں ۔ کیا پاکستان نے جو اتنے بم بنائے ہیں وہ صرف دکھانے کے لئے ہے ۔ مجھے بس کوئی ایک شخص چاہیے جو اس باتوں کا جواب دے دے ۔ تاکہ میں اپنی نسلوں کو یہ بتا سکوں کہ یہ جنگ تم نے اکیلے لڑنی ہے تمھاری مدد کے لئے کوئی دوسرا نہیں آئے گا ؛؛؛
 

Munir Anjum
About the Author: Munir Anjum Read More Articles by Munir Anjum: 23 Articles with 21795 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.