تحریک عدم اعتماد چند منٹ میں فارغ۔ عدالت کا فیصلہ حتمی ہوگا

عمران خان کے خلاف متحدہ اپوزیشن نے جو تحریک عدم اعتماد منتخب ایوان میں جمع کرائی تھی اس کا ایک انجام تو سامنے آگیا تاہم معاملا اعلیٰ عدالت میں ہے ، عدلیہ کیا فیصلہ کرتی ہے وقت بتائے گا۔ تحریک عدم اعتماد کو کامیاب بنانے میں اپوزیشن ایک جان تو تھی انہوں نے پہلے تحریک انصاف کے نمائندوں کو اپنے ساتھ ملایا جن کے بارے میں کہا گیا کہ انہیں خرید ا گیا۔ اسلام آباد میں سندھ ہاؤس میں انہیں رکھا گیا ، پھر میڈیا کے سامنے انہیں پیش کیا گیا۔ اپوزیشن کو اب بھی شک تھا کہ اس کے اراکین 172نہیں یا جو لوٹے ادھر اپوزیشن کے ساتھ آگئے ہیں یا خرید لیے گئے ہیں وہ آخری وقت تک ساتھ دیں گے یا نہیں ۔ اب اپوزیشن نے تحریک انصاف میں قائم مختلف گروپس کو ساتھ ملا نے کی سر توڑ کوشش کی اور وہ اس میں کامیاب بھی ہوگئے ۔ ترین گروپ، علیم گروپ، چھینا گروپ اور نہ معلوم کون کون سے گروپس کے اراکین اپوزیشن نے ساتھ ملالیے۔ یہی نہیں بلکہ بلوچستان کی سیاسی پارٹی ’باپ‘ کے بھی کچھ اراکین اپوزیشن کے ساتھ مل لگے۔ جیسے جیسے یہ عمل آگے بڑھ رہا تھا کپتان کی کرسی سرکتی جارہی تھی اور اپوزیشن بلند بانگ دعوے کرتی نہیں تھک رہی تھی۔ ایک مضبوط سیاسی گروپ یا سیاسی جماعت جو حکومت کی اتحادی تھی کے بارے میں سمجھا جانے لگا کہ یہgame changer ہوگی ، چنانچہ حکومت اور اپوزیشن دونوں نے ایم کیو ایم سے پینگیں بڑھانا شروع کیں ۔ اب تو ایم کیو ایم چوڑی ہوگئی، مشاورت پر مشاورت ، جب بھی صحافی سوال کریں کہ کوئی فیصلہ ہوا ، ہماری مشاورت جاری ہے۔ ساڑے تین سال حکومت کے اتحادی رہے ، اقتدار کے مزے لیے ، وہ تو انہوں نے اپنے قیام سے آج تک لیے لیکن اخلاقی طور پر ، یہ دیکھتے ہوئے کہ حکومت کی کشتی میں سوراخ ہوگیاہے ہوسکتا ہے کہ کشتی ڈوپ جائے۔ فیصلہ اپوزیشن کے ساتھ چلے جانے کا کیا۔ پیپلز پارٹی سے تحریری معاہدہ کر لیا۔ یہ کوئی نئی بات نہیں ، اس پہلے کیے جانے والے معاہدوں کا کیا انجام ہوا۔ اپوزیشن کے ساتھ چلنے والے دو سو کی حد کو چھونے لگے۔ اپوزیشن عمران خان کو مستعفی ہونے کا دباؤ ڈالنے لگی ، شروع میں فہرست جاری ہوئی کہ ان کے اراکین کی تعداد 174ہے ، اس کے بعد کہا گیا کہ یہ تعداد بڑھ کر 177ہوگئی ہے ہفتہ کی شب جب کہ صبح ووٹنگ ہونا تھی اپوزیشن نے دعویٰ کیا کہ ان کے پاس کل 196اراکین ہوچکے ، وہ صبح عمران خان کو وزیر اعظم کے منصب سے بہت آسانی سے ہٹادیں گے۔ جیت کاغمار سر چڑھ کر بول رہا تھا، اپوزیشن کا ہر بڑا یا چھوٹا لیڈر عمران خان کے اقتدار کے رخصت ہوجانے کی بانسری بجاتا دکھائی دے رہا تھا۔ زمینی حقائق بھی کچھ اسی طرح کے تھے۔ صاف دکھائی دے رہا تھاکہ اب عمران خان کا وزیر اعظم رہنا مشکل ہی نہیں بلکہ نا ممکن ہے۔ اپوزیشن کا نعرہ تھا کہ ’’یہ ہم ہیں، یہ ہماری اکثریت ہے اور نیازی دیکھ رہا ہے‘۔اس کے برعکس کپتان کا کہنا تھا کہ’’وہ آخری بال تک لڑے گا‘۔

دوسری جانب کپتان جس اعتماد سے اپوزیشن کو شکست دینے کی باتیں کررہا تھا وہ سمجھ سے باہر تھا۔ کپتان 27تاریخ کے جلسہ میں خط لہرا چکا تھا، اس کی تفصیل بیان کردی تھی۔ اپوزیشن اس خط کو جھوٹ کا بلندہ گردان رہی تھی، کپتان مسلسل یہ کہہ رہا تھا کہ اس کے باس ایک ایسا ترپ کا پتہ ہے جسے وہ آخری لمحہ میں شو کرے گا، کسی کو معلوم نہیں تھا کہ کپتان کا کیا پلان ہے خیال یہی تھا کہ اپنی شکت تسلیم کر لے گا اور لیڈر آف دی اپوزیشن بن کر اپوزیشن جو حکمراں جماعت بن چکی ہوگی کو ناک و چنے چبوادے گا۔ اس لیے کہ تحریک عدم اعتماد آجانے کے بعد عمران خان کی مقبولیت میں بے پناہ اضافہ ہوچکا تھا۔ لوگ مہنگائی کو بھول چکے تھے، بیڈ گورنینس کو بھول چکے تھے، بیرونی سازس اور ملک کی تمام ہی سیاسی پارٹیاں اس کے خلاف ہوچکی تھیں۔ 27مارچ کے جلسے سے کپتان کی مقبولیت طشت از بام ہوچکی تھی۔ دوسری جانب خیبر پختونخواہ میں بلدیاتی انتخابات میں تحریک انصاف کی کامیابی نے اس کی مقبولیت میں اور اضافہ کیا۔ کپتان بیرونی سازش میں اپوزیشن کے ملوث ہونے کی باتیں کر کے عوام کو اپنی جانب کھینچ رہا تھا۔ پنجاب میں کپتان نے چودھری پرویز الہٰی کو بزدار کی جگہ وزیر اعلیٰ نامز د کردیا، عثمان بزدار سے استعفیٰ لے لیا گیا۔ پنجاب کی سیاست پرویز الہٰی کے حوالے کردی گئی۔پنجاب اسمبلی میں چودھری پرویز الہٰی کے مقابلے میں اپوزیشن نے شہباز شریف کے بیٹے حمزہ شریف کو اپنا امیدوار نامزد کردیا ۔ اس نامزدگی کو اچھا نہیں سمجھا گیا اس لیے کہ اپوزیشن شہباز شریف کو عمران خان کی جگہ پاکستان کا وزیر اعظم نامزد کر چکی تھی۔ اسے اس تناظر میں لیا گیا کہ شریف فیملی کو اپنوں کے سوا کوئی اور دکھائی نہیں دیتا۔ ویسے یہ بات اتنی اہم نہیں پاکستان میں موروثی سیاست کا دور دورہ ہمیشہ سے رہا ہے اور اب بھی ہے۔ یہ ایک طرح کی سیاسی بادشاہت ہے جو چلی آرہی ہے۔

آخر کار 3اپریل اتوارکا سورج طلوع ہوا ،منتخب اراکین قومی اسمبلی کی جانب رواں دواں ہوئے۔ عمران خان نے اپنی حکمت عملی میں تبدیلی کی اوراپنے منتخب اراکین کو قومی اسمبلی پہنچنے کی ہدایت کی۔ ایوان منتخب اراکین سے بھرا ہوا تھا۔ دونوں جانب سے ایک دوسروں کے خلاف نعرہ بازی بھی ہوئی۔ اپوزیشن کے منتخب اراکین بہت خوش دکھائی دے رہے تھے ، ان کا خیال تھا کہ بس چند لمحوں میں عمران خان کا تختہ الٹ جائے گا اور میاں شہباز شریف، عمران خان کی جگہ ملک کے وزیر اعظم ہوں گے۔ اپوزیشن کے ہر رکن کے چہرہ کی خوشی دیدنی تھی۔ وہ پھولے نہ سما رہے تھے۔ البتہ کپتان کے آخری ترپ کا پتہ اور آخری بال پر چھکا لگانے کا انتظار ضرور تھا کہ وہ کیا ہوسکتا ہے۔ اسپیکراسد قیصر کی کرسی پر ڈپٹی اسپیکر قاسم خان سوری بڑے اعتماد اور بہادری کے ساتھ بیٹھے تھے۔ کاروائی کا آغاز ہوا، تلاوت کے بعد ، حکومتی سائیڈ سے فواد چودھری جو وزیر اطلاعات کے ساتھ ساتھ وزیر قانون بھی تھے انہوں نے چیٔر مین سے کہا کہ وہ کچھ کہنا چاہتے ہیں اسپیکر نے انہیں اجازت دی، وزیر موصوف نے مختصر لکھی ہوئی تقریر پڑھی جس میں تحریک عدم اعتمام کو بیرونی سازش اور اس سازش میں اپوزیشن کے ملوث ہونے کی تفصیل تھی۔فواد چودھری نے کہا کہ’’ ہمارے سفیر کو 7مارچ کو ایک میٹنگ میں طلب کیا جاتا ہے اس میں دوسرے ممالک کے حکام بھی بیٹھتے ہیں۔ ہمارے سفیر کو بتا یا جاتا ہے کہ عمران خان کے خلاف تحریک عدم اعتماد پیش کی جارہی ہے اس وقت تک پاکستان میں بھی کسی کو پتہ نہیں تھا کہ تحریک عدم اعتماد آرہی ہے۔ہمارے سفیر کو بتایا جاتا ہے کہ پاکستان سے ہمارے تعلقات کا دارومدار اس عدم اعتماد کی کامیابی پر ہے۔ اگر تحریک عدم اعتماد کامیاب نہیں ہوئی تو آپ کا اگلا راستہ بہت سخت ہوگا،انہوں نے کہا کہ یہ غیر ملکی حکومت کی جانب سے حکومت کی تبدیلی کی بہت ہی متاثر کوشش ہے ، بد قسمتی سے اس کے ساتھ ہی اتحادیوں اور ہمارے 22لوگوں کا ضمیر جاگ جاتا ہے اور معاملات یہاں تک آپہنچتے ہیں، وزیر قانون کا کہنا تھا کہ یہ 22کروڑ لوگوں کی قوم اتنی نحیف و نزار ہے کہ باہر کی طاقتیں یہاں پر حکومتیں بدل دیں، ہمیں بتا یا جائے کہ کیابیرونی طاقتوں کی مدد سے حکومت تبدیل کی جاسکتی ہے، کیا یہ آئین کے آرٹیکل 5کی خلاف ورزی نہیں؟کیا پاکستان کے عوام کتھ پتلیاں ہیں؟ کیا ہم پاکستانیوں کی کوئی حیثیت نہیں ہے؟ کیا ہم غلام ہیں؟ کیا اپوزیشن لیڈر کے بقول ہم بھکاری ہیں؟انہوں نے کہا کہ ہم غیر تمند قوم ہیں تویہ تماشہ نہیں چل سکتا اور اس پر رولنگ آنی چاہیے‘‘۔

وزیر قانون فواد چودھری کے اس مختصر لکھے ہوئے خطاب جس کا دورانیہ دس منٹ سے زیادہ نہیں تھااسپیکر قومی اسمبلی قاسم خان سوری نے مائک سنبھالتے ہوئے لکھی ہوئی رولنگ پڑھنا شروع کی جو کچھ اس طرح تھی ، ’’آئیں کے آرٹیکل5کے تحت کسی بھی غیر ملکی طاقت کے کہنے پر حکومت تبدیل نہیں کی جاسکتی لہٰذا اپوزیشن کی 8مارچ کو وزیر اعظم کے خلاف پیش کی گئی تحریک عدم اعتماد کو آئین سے انحراف قرار دیتے ہوئے اسے مسترد کردیا جاتا ہے اور قومی اسمبلی کا اجلاس غیر معینہ مدت کے لیے ملتوی کیا جاتا ہے‘‘۔ اس مختصر سی رولنگ کے بعد اسپیکر اپنی کرسی سے اٹھ کر اپنے چیمبر میں چلے گئے یا شاید باہرنکل کر اپنے گاڑی میں بیٹھ یہ جا اور وہ جا۔ اپوزیشن کے زیادہ تر اراکین اپنی کامیابی کی خوش گپیوں میں مصروف تھے ۔ بہت سے اراکین نے اسپیکر کی رولنگ کو سنا بھی نہیں ۔ دوسری جانب حکومتی اراکین عمران خان کے حق میں نعرہ لگاتے ہوئے ایوان سے باہر چلے گئے ۔ جب اپوزیشن کو کچھ سمجھ آئی کہ یہ کپتان نے کیسی حکمت عملی کے تحت اپوزیشن کو وقتی طور پر کلین بولڈ کردیا۔ یہ ساری کاروائی 12منٹ پر مشتمل تھی۔ عمران خان نے قوم سے خطاب کیا اور صدر مملکت کو اسمبلیاں تحلیل کرنے کی شفارش کی جسے صدر مملکت نے منظور بھی کر لیا۔ اسمبلیاں تحلیل ہوچکی ہیں۔ اب عارضی حکومت کی تشکیل کے بعد 90دن کے اندر اندر نئے انتخابات ہوں گے۔ اپوزیشن نے اس تجویز سے اتفاق نہیں کیا وہ فوری طور پر سپریم کورٹ چلے گئے۔ اب معاملا اعلیٰ عدالت میں ہے دیکھتے ہیں کہ اونٹ کس کروٹ بیٹھتا ہے۔عدالت کا جو بھی فیصلہ ہوگا دونوں فریقین کو قبول کرنا ہوگا۔ اب بہتر یہی ہے کہ ملک عام انتخابات کی جانب جائے۔ عوام جس کو چاہیں اپنا حکمراں منتخب کریں۔ جو کچھ ہوچکا اس کو بھول جائیں۔ بیرونی سازش کا سب مل کر مقابلہ کریں۔ (4اپریل 2022ء)

 

Prof. Dr Rais Ahmed Samdani
About the Author: Prof. Dr Rais Ahmed Samdani Read More Articles by Prof. Dr Rais Ahmed Samdani: 865 Articles with 1436449 views Ph D from Hamdard University on Hakim Muhammad Said . First PhD on Hakim Muhammad Said. topic of thesis was “Role of Hakim Mohammad Said Shaheed in t.. View More