ایم کیو ایم کو کیا حاصل ہوا؟
(Dr Rais Ahmed Samdani, Karachi)
ایم کیو ایم کو کیا حاصل ہوا؟ ٭ ڈاکٹر رئیس احمد صمدانی کپتان کے خلاف تحریک عدم اعتماد پیش ہوجانے کے بعد متحدہ اپوزیشن کی تحریک وقت کے ساتھ ساتھ اونچی اڑان بھر رہی تھی۔ عمران خان کو ایک لیڈر کی باتوں کا جواب نہیں دینا پڑتا تھا بلکہ کئی بھاری بھر کم لیڈروں کے جواب دینا ہوتے تھے۔ متحدہ اپوزیشن نے پریشر بڑھانا شروع کیا اور محسوس ہورہا تھا کہ تحریک عدم اعتماد کا انجام کپتان کی کشتی کو لے بیٹھے گا۔ سیاست بڑی بے رحم ہوتی ہے۔ کل کے دشمن آج کے دوست ہوجائیں اور آج کے دوست کل دشمن بن جائیں کچھ نہیں معلوم ہوتا۔ اس کے مثالیں متحدہ اپوزیشن میں شامل سیاسی جماعتیں، تحریک انصاف کے وہ منحرف کارکن، ایم کیوایم کا شیرازہ کیسے بکھرگیا، کل جو باہم شیر و شکر تھے آ ج ایک دوسرے کے خلاف زہر اگل رہے ہیں۔ پاکستان پیپلز پارٹی کے کتنے ہی اہم لوگ پارٹی چھوڑ چکے، مسلم لیگ کے کتنے دھڑے بن چکے مختصر یہ کہ سیاست کا کھیل ایسا کورکھ دھندہ ہے کہ جو عروج بھی عطا کرتا ہے اور کب میں زوال،نہیں معلوم۔ تحریک انصاف کی حکومت اتحادیوں کے کاندھوں پر قائم ہوئی تھی۔ ان اتحادیوں میں ایم کیو ایم، مسلم لیگ (ق)، جی ڈی اے، بلوچستان عوامی پارٹی اور دیگر۔ عمران خان کی حکومت جسے اب کم و بیش پونے تین سال ہونے والے ہیں مشکلات، پریشانیوں، مخالفتوں کا شکار رہی ہے۔ رہی سہی کثر کورونا نے پوری کردی۔ معاشی مشکلات اور مہنگائی جیسے مسائل کو حکومت کنٹرول کرنے میں ناکام رہی۔ اس طویل عرصہ میں جب کے انتخابات کا وقت بہت کم رہ گیا تھا، کوئی ڈیڑھ سال،متحدہ اپوزیشن نے عمران خان کے خلاف تحریک عدم اعتماد پیش کردی جس سے سیاست میں ایسی گرمی آئی کہ ہوا کا رخ عمران خان کے خلاف چلتا دکھائی دیا۔ عمران خان کی پارٹی کے کئی منتخب اراکین اپوزیشن سے جاملے، ان پر بک جانے کا الزام بھی عائد ہوا، اس میں کہا تک سچائی ہے کچھ کہا نہیں جاسکتا، کوئی ٹھوس اور واضح ثبوت سامنے نہیں آیا لیکن ماضی کی سیاست میں ایسا ہوچکا ہے اس لیے کہا جاسکتا ہے کہ لوگ بک بھی گئے ہوں، کپتان کی پارٹی میں کچھ گروپس بھی بن گئے جیسے ترین گروپ، علیم گروپ، چھینا گروپ ان کے لوگ بھی اپوزیشن کے ساتھ تحریک میں ساتھ دیتے نظر آئے جس سے متحدہ اپوزیشن کا حجم بڑھتا جارہا تھا۔ بات یہاں تک نہیں رہی بلکہ اپوزیشن نے حکومت کے اتحادیوں کو جو گزشتہ ڈھائی تین سال سے حکومت کے اتحادی تھے، ان کے وزیر تھے۔ انہوں نے بھی یہ محسوس کیا کہ کپتان کی کشتی اب ڈوبی کے جب ڈوبی، حکومت کو پیٹھ دکھانے لگے۔ بلوچستان عوامی پارٹی (باپ) کے کچھ اراکین اپوزیشن کا حصہ بن گئے۔ ایم کیو ایم منتخب اراکین کی تعداد کے اعتبار سے بڑی اتحادی تھی جس کی کراچی اور حیدر آباد سے 6قومی اسمبلی کے اراکین (خالد مقبول صدیقی، سید امین الحق، اقبال محمد علی خان، صلاح الدین، صابر حسین) ایک خواتین کی مخصوس نششت محترمہ کشورزہرہ کی تھی۔ فروغ نسیم حکومت میں اہم اور قابل وزیر سمجھے جاتے تھے۔ ایم کیو ایم کی یہ تاریخ رہی ہے کہ یہ حکومت میں ہوں تب بھی، حکومت میں نہ ہوں تب بھی کھٹ پٹ کرتے رہتے ہیں۔ اس کی کئی جائز وجوہات ہیں۔ کراچی کے ساتھ ہر حکومت ناانصافی کرتی رہی ہے۔ تحریک انصاف کو کراچی سے 16نششتیں ملیں تو امید بندھی تھی کہ اب کراچی کی قسمت کھل جائے گی۔ تحریک انصاف کراچی کے مسائل کے حل کے لیے مثبت اقدامات کرے گی لیکن بد قسمتی سے ایسا نہ ہوا۔ معاملہ سندھ اور مرکز کے درمیان گھومتا رہا۔مسائل اپنی جگہ جوں کے توں رہے لیکن ایم کیو ایم حکومت سے باہر نہیں آئی، حکومت کے مزے بھی لیتی رہی اور مسائل کا رونا بھی ساتھ ساتھ چلتا رہا۔ تحریک عدم اعتماد عروج پر پہنچی تو اپوزیشن کے اراکین اور منحرف اراکین نیز اتحادیوں جو عمران خان سے ٹوٹ کراپوزیشن کے ساتھ مل چکے تھے تحریک عدم اعتماد کے لیے جو تعداد درکار تھی وہ پوری ہوچکی تھی لیکن اپوزیشن کپتان کو چاروخانے چت کرنا چاہتی تھی۔ ایم کیوایم نے بھی اپنی پارٹی میں مشاورت شروع کردی، کہ وہ اتحادی رہیں یا کپتان کو چھوڑ دیں۔ آخری وقت میں آصف علی زرداری جو توڑ جوڑ کی سیاست میں یَدِطُولیٰ رکھتے ہیں ایم کیو ایم کو اپنی جانب رام کرنے میں کامیاب ہوگئے اور ایک معاہدہ پاکستان پیپلز پارٹی سے طے پایا۔ حجاب و قبول کے گواہان میں میاں شہباز شریف (نون لیگ) اور مولانا فضل الرحمن صاحب ہوئے جنہوں نے ایک بھر پور پریس کانفرنس میں دستخط کئے۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ ایم کیو ایم کو کیا یہ باور کرایا گیا یا اس نے از خود محسوس کیا کہ تحریک عدم اعتماد کامیاب ہوجانے کے بعد متحدہ اپوزیشن کی حکومت قائم ہوگی اور وہ ڈیڑھ سال حکومت کرے گی اور عمران خان ملک سے فرار ہوجائے گا؟ تحریک انصاف کا شیرازہ بکھر جائے گا؟ اس کے لوگ بلوں میں چھپ کر اپنی زندگی کی دعائیں مانگیں گے۔ کیا انہیں یہ نہیں معلوم کہ پاکستان میں اگر کسی سیاست داں کی حکومت کو خواہ اس کے خلاف کتنی ہی تحریک چل چکی ہو گرادیا جائے، نکال دیا جائے تو وہ عوام میں اتنا ہی مقبول ہوجاتا ہے۔ذوالفقار علی بھٹو، بے نظیر بھٹو اور نواز شریف صاحب کی مثالیں کیا تاریخ سے نکال نہیں دی گئیں۔”مجھے کیوں نکالا“ لوگ بھولے نہیں۔تحریک عدم اعتماد کے نتیجے میں کپتان اگر فارغ بھی کردیا جاتا یا اب بھی فارغ ہو جائے تو وہ مقبول لیڈر ہونے کے ساتھ ساتھ سیاسی مظلوم بن کر عوام میں جائے گا۔ ایم کیوایم کو پیپلز پارٹی سے معاہدہ کرنے سے کیا حاصل ہوا؟ کراچی کے مسائل حل ہوگئے؟ ماضی میں ایم کیو ایم اور پیپلز پارٹی سے کیے گئے معاہدوں کاانجام لوگ بھولے نہیں۔ سیاسی سمجھ بوجھ رکھنے والوں کو صاف دکھائی دے رہا تھا کہ اپوزیشن اور کپتان کی اس لڑائی کا انجام قبل از وقت انتخابات یا پھر تیسری قوت اس کھیل کو انجام تک پہنچا دے گی۔ نہیں معلوم یہ خبر درست ہے یا نہیں میں نے سوشل میڈیا پر پڑھی کہ”زرداری صاحب نے فرمایا کہ ایم کیو ایم سے ہونے والا معاہدہ تحریک عدم اعتماد کی کامیابی سے مشروط تھا“۔ جناب خالد مقبول صدیقی صاحب کے یہ کہہ دینے سے کچھ نہیں ہوتا کہ ”آپ نے ہماری 16سیٹیں چھینی ہم نے آپ سے حکومت چھین لی“۔ گویا اپوزیشن کی جدوجہد ایک طرف اور آپ کی اپوزیشن میں آمد اپوزیشن کی طویل جدوجہد پر بھاری ہوگئی۔ چلیں اگر مان بھی لیا جائے کہ ایسا ہی ہوا تو آپ نے جو معاہدہ کیا اس سے کراچی اور حیدر آباد کے عوام کو کیا فیض حاصل ہوا؟اپنی حکمت عملی پر غور کریں، نظر ثانی کریں، حقیقت پر مبنی منصوبہ بندی کریں۔ باہمی اتحاد و اتفاق وقت کی ضرورت ہے۔ شیرازہ جو بکھر چکا ہے اسے پھر سے یکجا ہونا چاہیے۔ جو16سیٹیں جاچکی ہیں کوشش کریں یہ واپس آجائیں، کہیں ایسا نہ ہو کہ ان سے بھی ہاتھ دھونا پڑجائیں۔ (5اپریل2022ء)
|