ان مفاد پرستوں کے لیے عوام آپس میں نہ لڑیں
(Saleem Ullah Shaikh, Karachi)
عوام سے درخواست ہے کہ آپ کو ان سیاست دانوں کے لیے باہم دست و گریبان ہونے کی ضرورت نہیں ہے۔ کیوں کہ سابق حکومت ہو یا متحدہ اپوزیشن ، دونوں ہی اخلاق اعتبار سے انتہائی پست ذہنیت کے حامل ہیں۔ دونوں کے لیے صرف اپنے مفادات زیادہ اہم ہیں۔دونوں کے گروہوں کے لیے جو اپنے مفاد میں ہو وہ قابل قبول اور وہی کام مخالف کرے تو قابل نفرین ٹھہرتا ہے۔ آئیے ہم بتاتے ہیں ک دونوں میں کوئی فرق کیوں نہیں ہے۔ |
|
ملک میں اس وقت غیر اعلانیہ طور پر ایک ہنگامی صورت حال ہے۔ قومی اسمبلی تحلیل کی جاچکی ہے۔ پنجاب کے وزیر اعلیٰ عثمان بزدار استعفیٰ دے چکے ہیں جب کہ پنجاب کے گورنر چوہدری محمد سرور کو برطرف کیا جاچکا ہے۔ قومی اسبلی کو تحلیل کرنے کا عمل درست تھا یا نہیں؟ ڈپٹی اسپیکر کو اسمبلی تحلیل کرنے کی رولگ دینے کا اختیار تھا یا نہیں ؟ اور اس طرح کے دوسرے کئی آئینی سوالات ہیں جن کے لیے سپریم کورٹ سماعت کررہی ہے۔ گزشتہ ایک ماہ سے سیاسی درجہ حرارت جس طرح بتدریج بڑھتا گیا۔ اس کے اثرات سیاس دانوں کے ساتھ ساتھ ان کے حامیوں یعنی عوام پر بھی مرتب ہوئے ہیں۔ سوشل میڈیا پر پی ٹی آئی اور ان کی مخالف جماعتوں کے حامیوں کے درمیان معرکہ آرائی جاری ہے۔ نوبت الزام تراشی سے ہوتے ہوئے بے ہودہ گوئی اور اس کے بعد گالم گلوچ اور مغلظات تک پہنچ گئی ہے۔ اس حوالے سے عوام سے درخواست ہے کہ آپ کو ان سیاست دانوں کے لیے باہم دست و گریبان ہونے کی ضرورت نہیں ہے۔ کیوں کہ سابق حکومت ہو یا متحدہ اپوزیشن ، دونوں ہی اخلاق اعتبار سے انتہائی پست ذہنیت کے حامل ہیں۔ دونوں کے لیے صرف اپنے مفادات زیادہ اہم ہیں۔دونوں کے گروہوں کے لیے جو اپنے مفاد میں ہو وہ قابل قبول اور وہی کام مخالف کرے تو قابل نفرین ٹھہرتا ہے۔ آئیے ہم بتاتے ہیں ک دونوں میں کوئی فرق کیوں نہیں ہے۔ یہ اپوزیشن ہے۔پی ٹی آئی کی حکومت بننے کے بعد جہانگیر ترین اپوزیشن کے نشانے پر تھے۔ ان کو عمران خان کی اے ٹی ایم مشین کہا جاتا رہا۔ اس کے ساتھ ساتھ چینی مافیا، چینی چور کا لقب بھی دیا گیا۔لیکن جیسے ہی جہانگیر ترین کے عمران خان سے اختلافات ہوئے، اپوزیشن نے ان سے رابطے بڑھا لیے۔ ان سے ملاقاتیں شروع کردی گئیں۔ اب یہاں سوال پیدا ہوتا ہے کہ اپوزیشن کے مطابق تو جہانگیر ترین چینی چور ہے، چینی مافیا ہے تو مافیا سے تعلق کیوں رکھا جائے؟ کیا اب وہ چینی چور نہیں رہا؟ لیکن بات وہی ہے کہ ذاتی مفادت کے لیے عوام دشمن فرد سے ہاتھ ملایا گیا۔ گویا کہ عوام کا مفاد نہیں بلکہ سیاسی نمبر گیم زیادہ اہم ہے۔ 2017 سے 2018 تک پیلز پارٹی، مسلم لیگ ن اور دیگر جماعتو ں سے تعلق رکھنے والے کئی افراد اچانک پی ٹی آئی میں شامل ہوگئے۔ اس وقت ان کو غدار، ضمیر فروش ، مفاد پرست اور لوٹے کا خطاب دیا گیا۔ لیکن دو ماہ قبل جیسے ہی یہ لوگ پی ٹی آئی سے منحرف ہوئے، ان کو ہاتھوں ہاتھ لیا گیا۔ جن پارٹیوں سے یہ لوگ نکلے تھے، جن پارٹیوں کو نقصان پہنچایا تھا، ان ہی پارٹیوں نے سارے منحرفین کو شیلٹر فراہم کیا، ان کی حمایت کی۔ اب یہاں سوال پیدا ہوتا ہے کہ بھئی یہ وہی لوگ تو تھے جو آپ کو چھوڑ کر چلے گئے تھے، تو اب ان لوٹوں سے تعلق کیوں رکھا جائے؟ اصولی طور پر تو آپ کو چاہیے تھا کہ آپ عمران خان کی حکومت چلنے دیتے اور ان لوٹوں کو پیغام دیتے کہ ہمیں تمہاری ضرورت نہیں ہے۔ لیکن یہاں بھی ذاتی مفاد پر ملکی اور عوامی مفاد قربان کیا گیا۔ جن لوگوں کو لوٹا کہتے رہے ان کو ہی واپس لیا گویا کہ تھوکا ہوا چاٹا۔ یہ ہے ان لوگوں کی اصول پسندی ۔ متحدہ اپوزیشن کی ہیئت پر غور کریں تو اس کے اجرائے ترکیبی ان عناصر پر مشتمل ہے جو کبھی ایک دوسرے کا پیٹ پھاڑ کر ملکی دولت واپس لانے کا اعلان کرتے تھے، جو ایک دوسرے پر درجنوں مقدمات بنا چکے تھے۔ لیکن مفادات کی خاطر پھر سب ایک ہوگئے۔ اب بات کرتے ہیں حکومت کی۔ خان صاحب حکومت میں آنے سے پہلے کہتے رہے کہ اگر پیٹرول کی قیمتیں بڑھیں تو سمجھ جانا کہ وزیر اعظم چور ہے۔لیکن ان کی حکومت آنے کے بعد وہی پیٹروک جو نواز شریف نے 75 روپے لیٹر پر چھوڑا تھا، وہ 150 روپے تک پہنچ گیا۔ لیکن اب بڑی ڈھٹائی سے اس کو پچھلی حکومت کا کارنامہ کہا جاتا رہا۔ اپوزیشن میں ہوتے ہوئے خان صاحب حکومت کو اور سیاست دانوں کو ٹیکس چور کہتے رہے لیکن حکومت میں آنے کے بعد فرمایا کہ عوام ٹیکس چور ہیں، وہ ٹیکس نہیں دیتے۔خان صاحب فرماتے تھے کہ ’’ پاکستانیو! تمہیں نہیں پتا کہ ڈالر پر ایک روپیہ بڑھتا ہے تو قوم ایک ارب کی مقروض ہوجاتی ہے۔لیکن خان صاحب کی حکومت میں محض ساڑھے تین سال میں ڈالر پر 80 روپے بڑھ گئے۔ اب خان اس کو مجبوری بتاتے ہیں۔ یہ ہیں ان کی اخلاقیات خان صاحب پرویز الہیٰ کو پنجاب کا سب سے بڑا ڈاکو کہتے تھے اور عثمان بز دار کو اپنا سب سے بہترین وزیر اعلیٰ کہتے رہے۔ لیکن جب ذاتی مفاد کی بات آئی تو سب سے بہترین وزیر اعلیٰ کو قربان کرکے سب سے بڑے ڈاکو کو وزیر اعلیٰ کے لیے نہ صرف نامزد کیا بلکہ اپنی پارٹی کو اس کی حمایت کا حکم بھی دیا۔ سوا ل تو اٹھتا ہے کہ اگر عثمان بز دار بہترین وزیر اعلیٰ تھا اور اس کی کارکردگی سب سے اچھی تھی تو ملکی مفاد تو یہ تھا کہ اس کو برقرار رکھا جاتا لیکن ایسا نہیں کیا گیا۔ سوال تو یہ بھی اٹھتا ہے کہ اگر عثمان بزدار نا اہل تھا تو اتنے عرصے تک صرف ذاتی مفادات کے لیے اس کو عوام پر مسلط رکھا گیا۔ یہ ہے خان صاحب کی حب الوطنی ۔ رمیش کمار جب پی ٹی آئی میں آئے تو ا ن کو ہاتھوں ہاتھ لیا گیا۔ لیکن جب وہ منحرف ہوئے تو شہباز گلِ انکشاف کرتے ہیں کہ رمیش کمار کی تو جعلی دوائیاں بنانے کی فیکٹری ہے۔ یا خدا! جعلی دوائی کے بارے میں عدم اعتماد کے بعد پتاچلا؟ اس سے پہلے آپ کو نہیں پتا تھا؟ ساڑھے تین سال تک آپ ایک فرد کے سنگین جرم سے چشم پوشی کرتے رہے۔ یہ ملکی مفاد ہے؟؟ اور اگر وہ جعلی دوائی کے جرم میں ملوث نہیں ہے تو پھر آپ نے اس کی کردار کشی کی۔ اس پر کیچڑ اچھالا اور اس کو بلیک میل کرنے کی کوشش کی۔ گویا کہ آپ نے ثابت کیا کہ آپ اخلاق کے انتہائی پست درجے پر کھڑے ہیں بلکہ کھڑے بھی نہیں ہیں بلکہ انتہائی سطحی اور گرے ہوئے لوگ ہیں جو اپنے مفاد کے لیے کچھ بھی کرسکتے ہیں۔ ستم یہ ہے کہ یہ گروہ حب الوطنی کے سرٹیفیکٹ کے ساتھ سیاسی شہید بننا چاہتا ہے۔ قارئین کرام! اگر ہم ان دونوں گروہوں کے قول و فعل میں تضاد اور ان کی مفاد پرستی کو دیکھنا شروع کریں تو صفحات کے صفحات بھر جائیں لیکن ان لوگوں کے کرتوت ختم نہ ہوں گے۔ اب سوچیے کہ ان لوگوں کے لیے ہم لوگ آپس میں کیوں لڑیں؟ ہمیں کیا ضرورت ہے کہ ان کی خاطر آپ کے تعلقات خرا ب کریں۔ یہ بات لکھ لیجیے کہ مستقبل میں اگر ضرورت پڑی تو خان صاحب ، میاں نواز شریف ، فضل الرحمن اور زرداری سے بھی ہاتھ ملائیں گے اور یہ لوگ بھی اپنے مفا د کے لیے خان صاحب سے اتحاد کرلیں گے۔ اس پورے عمل میں واحد جماعتِ اسلامی ایسی جماعت تھی جو غیر جانب دار رہی۔ جو اس مفاد پرستی کے کھیل کا حصہ نہیں بنی ۔ جماعت اسلامی نے واضح طور پر کہا کہ تحریک عدم اعتماد میں لوگوں اپنے ریٹ بڑھا رہے ہیں۔ اور خان صاحب کو ہٹا بھی دیا جائے تو وہی آزمائے ہوئے، چلے ہوئے کارتوس بر سر اقتدار آئیں گے اس لیے جماعت اسلامی چہرے نہیں نظام کی تبدیلی چاہتی ہے۔ عوام کو چاہیے کہ مفاد پرستو کے بجائے ایسے لوگوں کو منتخب کریں جو حقیقت میں عوام کے ساتھ ہیں اور ملک و قوم کے مفاد میں کام کرتے ہیں۔
|