اس شعر سے اپنی تحریرکا آغاز کروں گا شعر کچھ اس
طرح ہے
کچھ تو اوصاف آدمی میں ہو
ورنہ کس کام کی حیات اس کی
اپوزیشن کی جانب سے وزیر اعظم عمران خان کے خلاف عدم اعتماد کی تحریک کا
مرحلہ خوش اسلوبی سے طے ہوجائے۔ فی الحال تو ہم نے آنکھوں میں پٹی باندھ لی
ہے اور کا نوں میں روئی لگالی ہیں ۔ تاکہ نہ دیکھ سکیں اور نہ ہی سن سکیں۔
حکومت اور اپوزیشن کی حرکات وسکنات دیکھ دیکھ کر آنکھوں میں شرم سی آنے لگی
ہے اور سن سن کر کانوں کے پردوں سے سی سی کی آوازیں بھی آنے لگی ہیں۔ایک حد
ہوتی ہے۔ وہ بھی کسی بات کی یہاں تو نہ کوئی بات ہے اور نہ کوئی حد۔
کرکٹ کھیل کے سابق کپتان اس وقت کے وزیر اعظم عمران خان نے تو اخلاقیات کا
جنازہ ہی نکال
دیا اس کے ساتھ ساتھ اپوزیشن بھی ماضی اور حال میں بہت کچھ کہہ چکی ہیں۔ جس
کی بناپر ان نا مناسب رویوں کے باعث عوام کے اندر ہیجانیت سی کیفیت پیدا
ہوگئی ہے ۔ سیاست ایک مقصدیت کا نام ہے۔ سیاست کو سیاسی طریقے سے کی جانی
چاہیے۔ سیاست کو کھیل بنانا دانشمندی نہیں بلکہ جاہلیت کی اعلیٰ مثال بنتی
جارہی ہے۔ اپوزیشن نے بھی صرف سیاست کو مذاق بنایا ہوا ہے ۔ جس کا واضح
ثبوت حکومت اور اپوزیشن کی گندی، جھوٹی ،مکاری ،فریبی ،دھوکہ دہی پر مبنی
سیاست جسے نام نہاد سیاست کا لبادہ اوڑے جیسے لفظ سے پکارا جاتا ہے اورجائے
گا اگر چہ یہ سلسلہ یوں ہی جاری رہا تو۔ شاعر ؛علامہ محمد اقبالؒ
فرماتا ہے
اُمیدکیا ہے سیاست کے پیشوا سے
یہ خاک باز ہیں رکھتے ہیں خاک سے پیوند
ہوئی ہے ترک کلیساسے حاکمی آزاد
فرنگیوں کی سیاست ہے دیو بے زنجیر
ہم سب کو ملک میں زریں اصولوں پرسیاست کرنے کا پورا پورا حق ہے۔ اس کا
طریقہ کار واضح ہمارے آئین اور قانون میں درج ہے۔ اس کی روشنی میں سیاست
کریں ۔جب ہم بنیادی طور پر سیاست آئین اور قانون کی روح سے کریں گے۔ تو
یقینا اس میں ہمیں کامیابی ہوگی۔ ہمیں کامیابی وکامرانی ملک و ملت کی فلاح
وبہبود کے لیے چاہیے ورنہ جو آج ملکی صورتحال ہے اس میں مزید ہماری
کوتاہیوں سے اضافہ ہوگا ۔
اپوزیشن اپنا موقف درست رکھے اور اپنے ممبران اور پاکستان ڈیموکرٹیک موومنٹ
میں شامل اراکین اسمبلی پر اعتماد کرتے ہوئے وزیر اعظم کے خلاف عدم اعتماد
ایمانداری سے لائیں۔
تاکہ جمہوریت کا حُسن بحال ہو اس سلسلے میں حکومت کی بنیادی ذمہ داری ہے کہ
پُرامن ماحول فراہم
کرے اور اپوزیشن پربھی ذمہ د اری عائد ہوتی ہے کہ احسن طریقہ سے اپنا کردار
اد کرے جہاں تک بات وزیر اعظم عمران خان کو اپنے حکومتی اراکین پر اعتماد
ہے تو ڈر کس بات کا۔
ہاں یہ بات کہ ممبران کی خریدو فروخت یہ تو انتہائی شرمناک فعل ہے اس طرح
جمہوریت کے دعویداروں
کا دعویٰ کھوکھلا ثابت ہوگا تاہم یہ الزامات کی حد تک کی بات ہے ثبوت فراہم
کیا جائے۔دوسری جانب آپس میں ٹکراؤ نیک سگون نہیں ہر کوئی اپنی اپنی زبان
پر نظر ثانی کریں۔
عدم اعتماد کے حوالے سے جس قسم کے حربوں کو استعمال میں لایا جارہا ہے خواہ
حکومت ہو یا اپوزیشن
کسی کو زیب نہیں دیتا کہ وہ انہیں ڈرائیں، دھمکائیں یہ سلسلہ بند ہونا
چاہیے۔ عدم اعتما د چاہیے حکومت پر کیا جائے یا اپوزیشن پریہ ممبران اسمبلی
کے ضمیر پر منحصر ہے۔ اور ان ممبران کو آزادانہ طور پر اپنی اپنی رائے کا
اظہار کرنے دیاجائے۔ اگر اپوزیشن عدم اعتماد پر ناکام ہو جاتی ہے۔ تو قیامت
نہیں آجاتی اور ہار کو تسلیم کرے اور حکومت یعنی وزیر اعظم عمران خان کے
خلاف اپوزیشن کی جانب سے عدم اعتماد کی تحریک کامیاب ہوجاتی ہے۔ تو وزیر
اعظم کواخلاقی طور پر اپنے عہدے سے ہٹ جانا ہی مقصود ہے یہی اصل میں
جمہوریت کی پہچان ہے۔
حکومت کی جانب سے ڈی چوک پرعدم اعتماد سے ایک دن پہلے یعنی 27 مارچ کو جلسہ
کا اعلان کیا اور پی ڈی ایم نے بھی جذباتی فیصلہ کرلیاجو کہ بے وقوفی کی
واضح مثال ہوگی۔ جبکہ پی ڈی ایم 23مارچ کو اپنے جلسے کا اعلان پہلے ہی
کرچکی تھی۔ اگر پی ٹی آئی جلسہ کرتی ہے تو کرنے دیں ۔ مگر میرا خیال یہ ہے
کہ دونوں جماعتیں اپنا پروگرام منسوخ کردیں۔ خدارا تصادم کی راہ اختیار نہ
کی جائیں۔ یہ بتائیں وزیر اعظم کے خلاف اپوزیشن کی جانب سے عدم اعتماد کا
ووٹ عوام ڈالیں گے یا ممبران دونوں فریقین حکومتی جماعت اور اپوزیشن میں
شامل پی ڈی ایم عقل کے ناخن لیں۔ عدم اعتماد ایک آئینی و قانونی مسئلہ ہے
۔ایک دوسرے کی ضدوں سے ماحول خراب ہوگا ۔ ان جذباتی فیصلوں سے ملک کوعدم
استحکام سے دوچار نہ کیا جائے۔ اور نہ ہی عدم اعتماد کے مسئلے کو اتنی ہوا
دیں بلکہ اپنے اپنے ممبران پر اعتماد کرتے ہوئے اس مرحلے کو خوش اسلوبی سے
نمٹائیں۔
یہاں یہ بات بھی غور فکر ہے کہ وزیر اعظم عمران خان کے خلاف اپوزیشن کی
جانب سے جس میں پی ڈی ایم میں شامل اراکین نے عدم اعتمادتحریک لانے کا
سلسلہ شروع کیا۔ اس دوران سے حکومت میں شامل اتحادی جماعت خاص طور پر ایم
کیو ایم اور(ق ) لیگ دونوں جماعتیں کہہ رہی تھیں کہ ملکی مفاد اور جمہوریت
کی بہتری میں جو فیصلہ ہوگا وہ کریں گے۔ ان دونوں جماعتوں کے لوگ اِدھر گئے
اُدھر گئے ہونا تویہ چاہیے تھا کہ حکومت کے اتحادی ہیں۔ جب حکومت پر اعتماد
تھا یا نہیں رہا تھاتواسی دوران ہاں یا نہ میں جواب دے دینا چاہیے تھا ۔ اب
تک اتحادی جماعتوں نے حکومت اور اپوزیشن کو آسرے میں لٹکایا ہوا ہے کبھی
کچھ کہتے ہیں اور کبھی کچھ یہ سیاست نہیں :آج وقت ہے کل کچھ نہیں ملے گا
حکومت کے خلاف اپوزیشن کا عدم اعتماد لانا آئینی حق ہے اس کو بلاوجہ پیچیدہ
بنانے کی کوشش احمقانہ سوچ کی عکاسی ہے ۔
موجودہ حکومت جس بنیاد پر قائم ہے اس سلسلے میں اہم کردار حکومت کی اتحادی
جماعت ایم کیو ایم اور (ق) لیگ کا تھا۔ اتحادی جماعت کو حکومت سے اختلاف
تھا تو انہیں حکومت سے علیحدگی اختیار کرلینی چاہیے تھی تاکہ یہ تحریک عدم
اعتماد کے حوالے سے جوکشمکش پیدا ہوئی وہ نہ ہوتی۔
تاہم اب ایم کیو ایم نے سوچ بچار کے وزیر اعظم سے مستعفی ہونے کا مطالبہ
کردیا ہے۔ دوسری جانب
حکومت کے منحرف ار کان حکومت سے اختلاف رکھتے ہیں تو کوئی تو صداقت ہوگی یہ
اراکین اسمبلی عوام کے نمائندے ہیں ان کے اندر خوف وہراس کی فضا پیدا کرنا
ان کی عزت نفس کو مجروح کرنا ڈرانا ،دھمکانا ،دھونس و زیادتی کا عمل اپنا
نا یہ جمہوری انداز نہیں۔ بغیر ثبوت کے عوام کے منتخب نمائندوں کو ضمیرفروش
کہنا انتہائی شرمناک عمل ہے جب حکومت اور اس کے وزراء ا رکان اسمبلی کو
نازیبا القاب سے نوازے گی تو ان منحرف اراکین کے تحفظات درست ہیں۔ اور
منحرف اراکین اسمبلی کا کہنا ہے کہ ہم اپنی مرضی سے عدم اعتماد میں آزادی
اظہار رائے اپنے ضمیر کے مطابق کریں گے اپنے ضمیر کے مطابق ووٹ دیں گے
۔لہذا ہم سندھ ہاؤس میں اپنی مرضی سے آئے ہیں ہم نے کسی بھی صورت اپنے ضمیر
کا سودا نہیں کیا ان ارکان اسمبلی نے اپنے اوپر وزیر اعظم اور اس کے وزراء
کی جانب سے لگائے گئے الزامات کو مسترد کرتے ہوئے کہا کہ ہمیں حکومت سے
شدید اختلاف ہے۔ توظاہر ہے اپوزیشن کاپارلیمانی لوگوں کا دفاع کرنا آئینی و
بنیادی فرض بنتا ہے اور اس سلسلے میں اپوزیشن کا منحرف ارکان کا مکمل دفاع
کرنے پر اتفاق اور تمام ارکان کو بحفاظت پارلیمنٹ پہنچایا جائیگا۔ اب
انتظار ہے کہ وزیر اعظم عمران خان کے خلاف اپوزیشن کی عدم اعتماد تحریک کا
میاب ہوتی یا ناکام٭
قارئین آئندہ تحریر (نہ کپتان رہا نہ کھلاڑی )کے عنوان سے جاری کروں گا جو
انتہائی دلچسپی پر مبنی
ہوگی ضرور پڑھیے گا۔
(شکریہ)ایک شعر ؛مولاناحسرت موہانی ۔ شعر وہی ہیں حسرت
سنتے ہی دل میں جو اُترجائیں
آخر میں روزنامہ جناح اخبار کے چیف ایڈیٹر صحافی محسن جمیل بیگ کی رہائی پر
تہنیت پیغام
شاعرمحسن نقوی کے اس شعر سے
جس کو طوفان سے اُلجھنے کی ہو عادت محسن
ایسی کشتی کو سمندر بھی دُعا دیتا ہے
سنـّ ّ أ ؤؤ ّ ّأأأأ
|