عدم اعتماد اور پر اعتماد

یوں تو پوری دنیا سیاسی طور پر مظطرب نظر آتی ہے ۔ ایک طرف روس یوکرین کشیدگی تو دوسری طرف امریکی و چینی مخاصمت عروج پر ہے ۔ اس تمام صورتحال میں پاکستان بھی کسی سے پیچھے نہیں ۔ وزیراعظم عمران خان کے خلاف متحدہ اپوزیشن کی تحریک عدم اعتماد نے بھونچال پیدا کر رکھا ہے ۔ اگر تاریخی جائزہ لیا جائے تو نومبر سن 1989 ء میں بینظیر جبکہ اگست 2006 ء میں اسوقت کے وزیراعظم شوکت عزیز کے خلاف پیش ہونے والی عدم اعتماد کی تحریکیں ناکام ہوچکی ہیں ۔ مگراس بار صورتحال ڈرامائی انداز اختیار کرتی جارہی ہے ۔ پہلے اتحادیوں کی جانب سے خاموشی اور اب اچانک چند پی ٹی آئی ارکان اسمبلی کی جانب سے بیداری ضمیر کے ڈرامے نے حکومت کو حقیقی معنوں میں مشکل میں ڈال رکھا ہے ۔ اس تمام صورتحال میں جسطرح اپوزیشن کی جانب سے جمہوری اقدار کو پامال کیا جارہا ہے وہ افسوسناک ہے ۔ سب نے دیکھا کہ کسطرح سندھ ہاوس میں ارکان اسمبلی کو خریدا گیا اور اب حکومت کے مقابلے میں جلسے کا اعلان کرکے حالات کو مزید گھمبیر بنایا جارہا ہے ۔ کوئی نہیں کہہ سکتا کہ اگر 27 مارچ کو حکومت اور اپوزیشن کے شرکاء کے درمیان تصادم کی صورت میں حالات کیا رخ اختیار کرینگے ۔ چند تجزیہ کاروں کا خیال ہے کہ تصادم کی صورت میں مارشل لاء کی راہ ہموار ہوگی مگر یہ بعید از قیاس ہے ۔ اسٹیبلشمنٹ کو پاکستان کے معاشی حالات کا بخوبی اندازہ ہے وہ ہرگز نہیں چاہیے گی کہ ملک کو مزید نقصان سے دوچار کردیا جائے ۔امریکہ اور یورپی ممالک پہلے ہی پاکستان کی آزاد خارجہ پالیسی سے خائف ہیں مارشل لاء کی صورت میں انہیں پاکستان کو معاشی پابندیوں میں جکڑھنے کا موقع میسر آئے گا ۔ ن لیگ ہمیشہ سے ہی منتخب وزراء اعظمی کی مدت پوری نہ ہونے کی دہائی دیتی رہتی ہے مگر اب خود اسی ڈگر پر چل پڑی ہے۔ ماضی میں ایک دوسرے کی حکومتوں کو رخصت کرنے والی ن اور پی پی اب عمران حکومت کو گھر بھیجنے پر مصر ہیں ۔ صرف مہنگائی کو جواز بنا کر عدم اعتماد پیش کرنا نیک نیتی پر مبنی نہیں ہوسکتا ۔عمران حکومت نے کم از کم عالمی برادری میں پاکستان کو ایک بآعزت اور بنیادی مقام تو دلایا وگرنہ اس سے پہلے اسلامی دنیا کے واحد ایٹمی ملک کو بری طرح نظر انداز کیا جاتا تھا ۔ کورونا کے بعد تو مہنگائی عالمی مسئلہ بن چکا ہے ۔ نہ تو وزیراعظم پر کرپشن کا داغ اور نہ ہی انکی نیت پر شک ہے تو پھر یہ ڈرامہ کیوں؟ ۔ جو کوگ پچھلے 70 سالوں میں نظام نہ بدل سکے اب وہ کیسے نظام بدلینگے؟ ۔ اپوزیشن نمبرز پورے ہونے کے دعوے تو کر رہی ہے جبکہ دوسری جانب وزراء اور خود وزیراعظم بھی پرامید ہیں ۔ عین ممکن ہے کہ جسطرح سے ضمیر جاگنے شروع ہوئے ہیں اپوزیشن اراکین کے ضمیر بھی حکومتی حق میں جاگیں اور یہ چئرمین سینٹ کے انتخاب کے معاملے میں ہوچکا ہے ۔ اسٹیبلشمنٹ کی خاموشی بھی معنی خیز ہے۔ ممکن ہے کہ اپوزیشن کے خلاف آخری آوور اسٹیبلشمنٹ ہی کرائے ۔ دوست ممالک کی جانب سے بھی حکومت کو بچانے کی کوششیں ہوسکتی ہیں اور عالمی تعلقات میں ایسا ہوتا بھی ہے ۔ امکان ہے کہ او آئی سی کانفرنس کے دوران سعودی اور ترک وزراء خارجہ جنکے شریف خاندان سے پہلے ہی اچھے مراسم ہیں، شہباز شریف کو تحریک سے پیچھے ہٹنے پر قائل کرسکیں ۔ اگر ایسا نہیں ہوا تو حکومت کے پاس بندے پورے کرنے اور تحریک عدم اعتماد کا مقابلہ کرنے کے علاوہ کوئی چارہ نہیں رہتا ہے ۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ تحریک کامیاب ہوتی ہے یا نہیں مگر یاد رکھیں کہ ہر دو صورتوں میں پی ٹی آئی کا ہی فائدہ ہے ۔ کیونکہ پی ٹی آئی حکومت کے مقابلے میں اچھی اور تگڑی اپوزیشن ثابت ہوچکی ہے ۔ کاش کہ وہ دن بھی آئے کہ جب پاکستان میں جمہوریت اپنی اصلی روح اور حقیقی معنوں میں نافذ ہو وگرنہ حصول اقتدار کی اس رسہ کشی کا خمیازہ عوام کو بھگتنا پڑئے گا ۔ ۔۔۔
 

Babar Ayaz
About the Author: Babar Ayaz Read More Articles by Babar Ayaz: 19 Articles with 16823 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.