پراکسی وار بھی اتنی ہی قدیم ہے جتنی روایتی جنگیں۔ در
حقیقت پراکسی وار کا استعمال ہی اس لئے کیا جاتا ہے کہ کم سے کم جانی و
مالی نقصان کے ساتھ ساتھ کمزور ہو نے کے باوجود دشمن کو زیر کیا جا سکے۔
چنگیز خان جسے قبیلہ بدر کر دیا گیا تھا نے چین سے مصر تک روایتی طریقہ جنگ
کے ساتھ ساتھ نان اسٹیٹ ایکٹرز کے استعمال کے ذریعے سے ہی حکومت حاصل کی
تھی۔سب سے پہلے وہ اپنے دشمن پر نظر رکھتے، ہر طرح کا ابلاغ حاصل کرتے، ان
کی کمزوریاں جانتے اور پھر انہیں ہر پہلو میں کمزور کر نے کے بعد ان پر
حملہ کرتے۔ بغداد، ثمر قند ، بلغاریہ، سلجوق، خوارزم شاہی سلطنت، خلافت
عباسیہ ، برصغیر خراسان کے بغیر، عراق و شام سب کے بارے میں تاریخ کے اوراق
بولتے ہیں کہ سب سے پہلے یہ حکومتیں باہمی نفاق میں گھر گئیں، ایک دوسرے کو
کاٹنے دوڑیں ، ان کی فوجیں کمزور تر کر دی گئیں اور پھر چنگیز خان، اس کے
بعد اس کا بیٹا اوکتائی خان ، پھر اس کا پوتا ہلاکو خان اور اس کی نسلیں
مضبوط ترین ریاستوں پر چڑھ دوڑیں۔
1945 کے بعد دوسری جنگ عظیم میں ہمیں ایک نیا طرز جنگ نظر آیا، جب سیاسی،
میتھاڈولوجیکل ، ہتھیار اور بین الاقوامی سیاست ایک نئے ورلڈ آرڈر کے ساتھ
تبدیل ہوئے۔ہم جانتے ہیں کہ دوسری جنگ عظیم سے پہلے ایک ملٹی پولر پولیٹیکل
ورلڈ آرڈر چل رہا تھا جس میں یورپین اتحاد کے مختلف ممالک حکومت کر رہے
تھے۔مگر دوسری جنگ عظیم کے دوران تمام یورپین طاقتیں جو حکومت کر رہی تھیں
وہ سیاسی، معاشی ، اقتصادی اور باالخصوص قومی تشخص میں غیر مستحکم ہو
گئیں۔ان کی تباہی کے بعد دنیا میں ایک پاور کا خلا پیدا ہوا جسے بھرنے
کیلئے سوویت یونین اور یو ایس اے نے ایک بائی پولر پولیٹیکل ورلڈ آرڈر
ترتیب دیا۔ اس کے علاوہ ناگا ساکی میں ایٹمی حملے نے بھی طرز جنگ کو بدلنے
میں گہرے نقوش چھوڑے۔جدید دور میں ریاستوں کے مابین براہ راست جنگوں کے
امکانات نہایت محدود ہو گئے ہیں ۔ریاستوں کے درمیان نظریاتی اختلافات ،
ایٹمی ہتھیاروں کی موجودگی میں روایتی جنگ کے محدود امکانات اور جنگوں میں
کم سے کم وسائل کے استعمال کیلئے پراکسی وار ترتیب دی جاتی ہے۔ریاستیں کھلے
عام جنگ میں اپنے سرکاری فوجی استعمال کرنے کی بجائے ایسے تنازعات میں
سرمایہ کاری کرتی ہیں جہاں انہیں نان اسٹیٹ ایکٹر کی مدد سے اپنے مفادات
حاصل کرنے کا موقع ملتا رہے۔ اس کی ایک مثال 1971 کی ہے جب سقوط ڈھاکہ ہوا۔
بھارت نے مشرقی پاکستان میں مکتی باہنی کو نان اسٹیٹ ایکٹر کے طور پر
استعمال کیا اور پاکستانی تاثر کو کمزور کیا ، اسی طرح بھارت نے نوے کی
دہائی میں لبریشن آف ایلام تامل ٹائیگر کے ذریعے سری لنکا میں اندرونی
تنازع کو ہوا دئیے رکھی ۔ دوسری مثال مشرق وسطیٰ میں حزب اﷲ کو ایران نان
اسٹیٹ ایکٹر کے طور پر استعمال کر رہا ہے۔شام کے حالات جو ابھی تک کسی نہج
پر نہیں پہنچ رہے اس کے پیچھے بھی یہی پراکسی وار ہے ، کیونکہ وہاں اب بہت
سے متحارب مفادات آپسی جنگ میں تبدیل ہو چکے ہیں جن کا مستقل حل اب ممکن ہی
نہیں رہا۔ اس کے علاوہ نہ صرف خطے کی طاقتیں بلکہ عالمی طاقتیں بھی اپنے
پراکسی گروہوں کے استعمال کے ذریعے آگ و خون کو مزید بڑھاوا دے رہی ہیں۔
پاکستان اپنے پہلے دن سے ہی نان اسٹیٹ ایکٹرز کی سازشوں اور ہتھکنڈوں کا
شکار ہے۔ لیاقت علی خان سے لے کر مختلف کرپشن، قتل ، غداری وغیرہ پر بنائے
گئے کمیشن ابھی تک بغیر فیصلوں کے پڑے ہوئے ہیں۔سقوط ڈھاکہ پاکستان کیلئے
ایک بڑا نقصان تھا، اس وقت دشمنوں کیلئے کام کرنے والے لوگوں کی اولادیں اب
اسی طرح کی سازشوں کا حصہ ہیں جو ان کے اجداد کیا کرتے تھے۔ جہاں موجودہ
دور حکومت عوام الناس کیلئے انتہائی سختی ، مشکلات اور پریشانیاں لے کر آئی
ہے وہیں کم از کم اس بات کا شعور بھی پھیلنے کا مؤجب بنی ہے کہ پاکستان میں
موجود نان اسٹیٹ ایکٹرز کون ہیں۔ان لوگوں پر سب سے پہلے کرپشن چارجز لگائے
گئے اور عدالتوں نے ان کو سزا سنائی۔ بجائے اس کے کہ وہ عدالتی فیصلوں کا
سامنا کرتے اور ملک کا استحکام متوازن رکھتے انہوں نے اپنے مفادات کیلئے
ملکی استحکام داؤ پر لگا دیا۔ ملک میں انتشار، بد نظمی ، بے انتظامی کو
فروغ دینے کیلئے ہر ممکن ہتھکنڈے استعمال کئے۔عام طور پر پراکسی وار کی
تعریف یوں کی جاتی ہے کہ ایک ملک کی فوج اور دوسرے ملک نان اسٹیٹ ایکٹرز
کسی تیسرے ملک کی سر زمین میں جنگ کرتے ہیں ۔ لیکن پاکستان میں جنگ کے طریق
میں تھوڑا سا بدلاؤ آیا ہے ۔ اور وہ یہ ہے کہ یہاں دو حلیف بمقابلہ ایک
حریف نہیں بلکہ درجنوں حلیف ایک حریف پر ٹوٹ پڑے ہیں۔ کیونکہ وہ جانتے ہیں
کہ پاکستان کوئی آسان ٹارگٹ نہیں جسے زیر کیا جا سکے ۔
آغاز سے ہی ہم سنتے آ رہے ہیں کہ پاکستان میں ہر برا کام ، سازش، دہشتگردی
اور پاکستان کو توڑنے کے پیچھے بھارت اور امریکہ کا ہاتھ ہے۔ اور اب یہ
ثابت ہو گیا ہے، سرحدی علاقوں میں خانہ جنگی ، گوریلا وار سے لے کر ملک میں
فرقہ واریت، علاقائی تعصب، نسلی و لسانی امتیازات کو ہوا دینے والے کوئی
اور نہیں تھے ، ہمارے اپنے ووٹوں سے چنے ہوئے ملک دشمن عناصر کے آلۂ کار
تھے۔ جن کی بدعنوانی اور چوری آج جب بے نقاب ہوئی ہے تو وہ ملکی اداروں،
انتظامیہ اور ملت کا شیراہ بکھیرنے کی کوشش میں ہر حد پار کر رہے ہیں۔ آج
نہ تو انہیں جمہوریت ڈی ریل ہوتی نظر آتی ہے، نہ ووٹ کی عزت پامال ہوتی نظر
آتی ہے اور نہ ہی ملک میں عدم استحکام نظر آتا ہے۔ مہنگائی اور بدعنوانی کے
خلاف نکلنے والا مارچ اب پاکستان میں ہونے والی او آئی سی میٹنگ کو روکنے ،
فوج کی حرمت کو پامال کرنے ، لسانیت اور قومیت کو ہوا دینے اور ملک کو آگ
میں جھونک دینے کیلئے استعمال ہو رہا ہے۔لوگ اس بات کو جانیں کہ اتنے بھاری
بھرکم ٹیکسز کے باوجودپاکستان کو معاشی سطح پر کمزور حوالہ ہندی اور بد
عنوانی نے نہیں کیا تو کس نے کیا ؟ دہشتگردی کیلئے استعمال ہونے والے یہی
مہرے جو فوج کے کردار پر کیچڑ اچھالتے ہیں نہیں تو اور کون ہیں؟اقتصادی سطح
پر کمزوری ان پالیسیوں کی وجہ سے جس میں ملکی صنعتوں کو بیچنا اور غیر ملکی
چیزوں کو ترجیح دینا نہیں تو کیا ہے؟سفارتی کمزوری اور قومی تنہائی کا منبع
کمزور خارجہ پالیسیاں نہیں تو کیا ہے؟اب جبکہ دشمن واضح ہو چکا ہے تو جہاں
فوج نے خارجی و سرحدی سطح پر جنگ میں فتح حاصل کی ہے وہیں اب ہماری ذمہ
داری ہے کہ ہم نظریاتی جنگ جیتیں۔ دشمنوں کی پہچان کریں ، انہیں، انہی کے
مقاصد میں غرق کر دیں۔ آج اگر پاکستانی عوام ایک قوم بن کر ان نام نہاد راہ
نماؤں کو شکست سے دوچار کرتی ہے تو یقینا ہم تیسری جنگ عظیم کا ابتدائی دور
بھی جیت جائیں گے اور پانچویں نسل کی جنگ میں ہمارا حریف چاروں شانے چت ہو
جائے گا۔ آخر میں راقم الحروف کے دو شعر قارئین کی نذر:
ہوش کے ناخن لو نادانو! پاکستان تمہارا ہے
اب غداروں کو پہچانو! پاکستان تمہارا ہے
لاالہٰ جس کی بنیاد ہے ، تم سب اس کے باسی ہو
جان لو مقصد اے نادانو! پاکستان تمہارا ہے
|