اجازت اور ممانعت


عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ « مَنْ سَأَلَ النَّاسَ أَمْوَالَهُمْ تَكَثُّرًا ، فَإِنَّمَا يَسْأَلُ جَمْرًا فَلْيَسْتَقِلَّ أَوْ لِيَسْتَكْثِرْ » (رواه مسلم)
معارف الحدیث - کتاب الزکوٰۃ - حدیث نمبر 846
حضرت ابو ہریرہ ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: جو کوئی (حاجت سے مجبور ہو کر نہیں بلکہ) زیادہ مال حاصل کرنے کے لیے لوگوں سے مانگتا ہے تو وہ درحقیقت اجپنے لیے جہنم کا انگارہ مانگتا ہے (یعنی جو کچھ اس طرح سوال کر کے وہ حاصل کرے گا وہ آخرت میں اس کے لیے دوزخ کا انگارہ بن جائے گا) ...... اب خواہ اس میں کمی کرے، یا زیادتی کرے۔ (صحیح مسلم)
حضرت ابو ہریرہ ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: جو کوئی (حاجت سے مجبور ہو کر نہیں بلکہ) زیادہ مال حاصل کرنے کے لیے لوگوں سے مانگتا ہے تو وہ درحقیقت اجپنے لیے جہنم کا انگارہ مانگتا ہے (یعنی جو کچھ اس طرح سوال کر کے وہ حاصل کرے گا وہ آخرت میں اس کے لیے دوزخ کا انگارہ بن جائے گا) ...... اب خواہ اس میں کمی کرے، یا زیادتی کرے۔ (صحیح مسلم)

معارف الحدیث - کتاب الزکوٰۃ - حدیث نمبر 847
عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ مَسْعُودٍ ، قَالَ : قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ : « مَنْ سَأَلَ ، وَلَهُ مَا يُغْنِيهِ ، جَاءَتْ مَسْأَلَتُهُ يَوْمَ الْقِيَامَةِ فِي وَجْهِهِ خُمُوشٌ أَوْ خُدُوشٌ ، أَوْ كُدُوحٌ » ، قِيلَ : يَا رَسُولَ اللَّهِ ، مَا يُغْنِيهِ؟ قَالَ « خَمْسُونَ دِرْهَمًا ، أَوْ قِيمَتُهَا مِنَ الذَّهَبِ » (رواه ابوداؤد والترمذى والنسائى وابن ماجه والدارمى)

حضرت عبداللہ بن مسعود ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: جو شخص ایسی حالت میں لوگوں سے سوال کرے کہ اس کے پاس " مَا يُغْنِيهِ " ہو (یعنی اتنا موجود ہو جو اس کے لیے کافی ہو، اور جس کے بعد وہ دوسروں کا محتاج اور دست نگر نہ رہے) تو وہ قیامت کے دن محشر میں اس حال میں آئے گا کہ اس کا سوال اس کے چہرے میں ایک گھاؤ کی صورت میں ہو گا (خموش) خدوش، کدوخ۔ یہ تینوں لفظ قریب المعنی ہیں، ان کے معنی زخم کے ہیں۔ غالباً راوی کو شک ہو گیا ہے کہ اصل حدیث میں ان تینوں میں سے کون سا لفظ تھا .... آگے حدیث میں ہے کہ رسول اللہ ﷺ (کا یہ ارشاد سن کر آپ ﷺ سے پوچھا گیا کہ یا رسول اللہ ﷺ! وہ کتنی مقدار ہے جس کو آپ نے " مَا يُغْنِيهِ " فرمایا (اور جس کے بعد وہ دوسروں کا محتاج اور دست نگر نہیں رہتا) آپ ﷺ نے فرمایا کہ: پچاس درہم، یا ان کی قیمت کا سونا۔ (سنن ابی داؤد، جامع ترمذی، سنن نسائی، سنن ابن ماجہ، سنن دارمی)

تشریح
مطلب یہ ہے کہ جس کے پاس پچاس درہم یا اس کے قریب مالیت موجود ہو، جسے وہ اپنی ضروریات میں استعمال کر سکتا ہو اور کسی کاروبار میں لگا سکتا ہو اس کے لیے سوال کرنا گناہ ہے، اور ایسا شخص قیامت میں اس حالت میں آئے گا کہ اس کے چہرے پر اس ناجائز سوال کی وجہ سے بدنما داغ ہو گا۔ اس حدیث میں اس غنا کا معیار جس کے ہوتے ہوئے سوال جائز نہیں، پچاس درہم کی مالیت کو قرار دیا گیا ہے۔ ایک دوسری حدیث میں ایک اوقیہ یعنی چالیس درہم کی مالیت کا بھی ذکر ہے ..... اور ظاہر ہے کہ ان دونوں میں کوئی بڑا فرق نہیں ہے لیکن سنن ابی داؤد کی ایک اور حدیث میں جو سہل بن الحنظلیہ سے مروی ہے مذکور ہے کہ رسول اللہ ﷺ سے سوال کیا گیا: ما الغنى الذى تسعى معه المسئلة (غنا کی وہ کیا مقدار ہے جس کے ہوتے ہوئے سوال نہیں کرنا چاہئے؟) تو آپ ﷺ نے فرمایا: قدر ما يغديه ويعشيه (اتنا کہ اس سے دن کا کھانا کھا سکے اور رات کا کھانا کھا سکے)۔ اس سے معلوم ہوا کہ اگر کسی کے پاس ایک دن کے کھانے بھر بھی ہے تو اس کو سوال کرنا درست نہیں۔ وہ غنا جس پر زکوٰۃ فرض ہوتی ہے اس کا معیار تو متعین ہے اور اس کے متعلق حدیثیں پہلے گزر چکی ہیں، لیکن وہ غنا جس کے حاصل ہوتے ہوئے سوال نہیں کرنا چاہئے، رسول اللہ ﷺ نے مختلف اوقات میں اس کے معیار مختلف بیان فرمائے ہیں۔ شارحین حدیث نے اس اختلاف کی توجیہ کئی طرح سے کی ہے۔ اس عاجز کے نزدیک سب سے اقرب بات یہ ہے کہ یہ اختلاف اشخاص اور احوال کے لحاظ سے ہے۔ یعنی بعض حالات اور اشخاص ایسے ہو سکتے ہیں کہ تھوڑا بہت اثاثہ ہونے کی صورت میں بھی ان کے لیے سوال کی گنجائش ہو سکتی ہے، لیکن اگر یہ اثاثہ (۴۰، ۵۰) درہم کی مالیت کو معیار بتایا گیا ہے ان میں رخصت اور فتوے کا بیان ہے، اور جن میں ایک دن کے کھانے بھر ہونے کی صورت میں بھی سوال سے منع کیا گیا ہے وہ عزیمت اور تقوے کا مقام ہے۔ واللہ اعلم۔
معارف الحدیث - کتاب الزکوٰۃ - حدیث نمبر 845
عَنْ حُبْشِيِّ بْنِ جُنَادَةَ قَالَ : قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ : إِنَّ الْمَسْأَلَةَ لاَ تَحِلُّ لِغَنِيٍّ ، وَلاَ لِذِي مِرَّةٍ سَوِيٍّ ، إِلاَّ لِذِي فَقْرٍ مُدْقِعٍ ، أَوْ غُرْمٍ مُفْظِعٍ ، وَمَنْ سَأَلَ النَّاسَ لِيُثْرِيَ بِهِ مَالَهُ ، كَانَ خُمُوشًا فِي وَجْهِهِ يَوْمَ القِيَامَةِ ، وَرَضْفًا يَأْكُلُهُ مِنْ جَهَنَّمَ ، وَمَنْ شَاءَ فَلْيُقِلَّ ، وَمَنْ شَاءَ فَلْيُكْثِرْ (رواه الترمذى)

حبشی بن جنادہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: سوال کرنا جائز نہیں ہے غنی آدمی کو اور نہ توانا اور تندرست آدمی کو۔ البتہ ایسے آدمی کو جائز ہے جس کو ناداری اور افلاس نے زمین پر گرا دیا ہو یا جس پر قرض یا کسی تاوان وغیرہ کا کوئی بھاری بوجھ پڑ گیا ہو، اور جو آدمی (محتاجی کی وجہ سے نہیں بلکہ) اپنے مال کے اضافے کے لیے لوگوں کے سامنے ہاتھ پھیلائے اور سوال کرے تو قیامت کے دن اس کا یہ سوال اس کے چہرے پر ایک زخم اور گھاؤ کی شکل میں نمایاں ہو گا۔ اور جہنم کا گرم جلتا ہوا پتھر ہو گا جس کو وہاں وہ کھائے گا، اس کے بعد جس کا جی چاہے سوال کم کرے اور جس کا جی چاہے زیادہ کرے (اور آخرت میں اس کا یہ نتیجہ بھگتے)۔ (جامع ترمذی)

تشریح
حضرات محدثین " کتاب الزکوٰۃ " ہی میں وہ حدیثیں بھی درج کرتے ہیں جن میں بتایا گیا ہے کہ جن حالات میں سوال کرنے کی ممانعت ہے اور کن حالات میں اجازت ہے۔ ان کے اس طریقے کی پیروی میں اس سلسلہ " معارف الحدیث " میں بھی وہ حدیثیں یہیں درج کی جاتی ہیں: تشریح ..... اس حدیث میں بھی عبداللہ بن عمرو بن العاص ؓ کی حدیث (نمبر ۱۴) کی طرح غنی سے مراد وہ آدمی ہے جو فی الحال محتاج اور ضرورت مند نہ ہو (اگرچہ وہ صاحب نصاب اور سرمایہ دار بھی نہ ہو) ایسے آدمی کو اور اس تندرست و توانا آدمی کو جو محنت کر کے اپنی روزی کما سکتا ہو، اس حدیث میں سوال کرنے کی ممانعت کی گئی ہے۔ عام ضابطہ اور مسئلہ یہی ہے کہ ایسے آدمی کو کسی کے سامنے دست سوال دراز نہیں کرنا چاہئے۔ ہاں اگر افلاس و ناداری نے کسی کو بالکل ہی گرا دیا ہو اور سوال کے سوا اس کے سامنے کوئی راہ نہ ہو، یا کسی کو کوئی جرمانہ یا تاوان یا قرض ادا کرنا ہو اور وہ دوسروں سے امداد لیے بغیر اس کو ادا نہ کر سکتا ہو تو ان صورتوں میں اس کو سوال کرنے کی اجازت ہے .... آخر میں فرمایا گیا ہے کہ جو شخص ضرورت مندی اور محتاجی کی مجبوری سے نہیں بلکہ اپنی مالی حالت بہتر بنانے کے لیے دوسروں کے سامنے ہاتھ پھیلائے گا اس کو قیامت میں اس کی سزا یہ دی جائے گی کہ اس کے چہرے پر ایک بدنما گھاؤ ہو گا .... اور جو کچھ اس نے سوال کر کے لوگوں سے لیا تھا وہ وہاں جہنم کا گرم پتھر بنا دیا جائے اور وہ اسے کھانے پر مجبور ہو گا۔
 

Babar Alyas
About the Author: Babar Alyas Read More Articles by Babar Alyas : 876 Articles with 558366 views استاد ہونے کے ناطے میرا مشن ہے کہ دائرہ اسلام کی حدود میں رہتے ہوۓ لکھو اور مقصد اپنی اصلاح ہو,
ایم اے مطالعہ پاکستان کرنے بعد کے درس نظامی کا کورس
.. View More