سراج الہند حضرت شاہ عبدالعزیز محدث دہلوی
(حافظ محمد ارشد روحانی)
ولادت اور نام و نسب
حضرت شاہ عبد العزیز 1189ھ/1745ء میں پیدا ہوئے ۔ حضرت شاہ ولی اللہ کے
بعض رفقاء نے ان کا تاریخی نام غلام حلیم رکھا جیسا کہ ملفوظات میںہے :
" ایک شخص نے میرا تاریخی نام قرآن سے نکالا ہے۔ فبشرناہ الغلام حلیم "
(شاہ عبد العزیزمحدث دہلوی، ملفوظاتِ عزیزی، ص97)
شاہ صاحب کا سلسلہ نسب چونتیس واسطوں سے امیر المؤمنین سیدنا عمر بن
خطاب تک پہنچتا ہے ۔
وفات شریف
شاہ عبد العزیز محدث دہلوی کا آخری درسِ آیت " اعداواھواقرب للتقویٰ" کی
تفسیر تھا ۔ یہاں سے شاہ صاحب نے تفسیر شروع کی اور ان کا آخری درس "ان
اکرمکم عند اللہ اتقکم" کی تفسیر تھا۔اسّی برس کی عمر میں7یا 9/شوال المکرم
1239ھ /1823/ کو یک شنبہ کے روز وفات پائی (اناللہ واناالیہ راجعون)۔
مختلف شعرا نے تاریخ وفات کہی، جن میں حکیم مومن خان دہلوی کے قطعہ تاریخ
اس فن کی ایک نادر مثال ہے۔
؎دست بیداد اجل سے بے سر و پا ہو گئے
فقر و دین فضل و ہنر، لطف و کرم، علم و فضل
(دہلوی،محمد بیگ ،مرزا،دیباچہ فتاویٰ عزیزیہ، مطبع مجتبائی دہلی1391ھ، ص10)
ابتدائی حالات اور تعلیم و تربیت
زمانہ شیر خواری سے ہی شاہ عبد العزیز کی کشادہ پیشانی سے ان کی مستقبل کی
جلالت و عظمت اور شان و شوکت نمایاں ہو تی تھی۔ پانچ سال کی عمر میں آپ
نے قرآن پاک پڑھنا شروع کیا ۔ علم کی طرف قلبی رغبت کے باعث قلیل مدت ہی
میںآپ نے قرآن پاک حفظ کرلیا اور اسلام کے ابتدائی مسائل او احکام کی
تعلیم سے فراغت حاصل کرلی تھی ۔ حفظ قرآن پاک کے بعد زیادہ تر تعلیم اپنے
والد ماجد سے حاصل کی ۔ بعد ازاں شاہ ولی اللہ دہلوی نے اپنے ارشد خلفاء
مولانا محمد عاشق اور مولانا خواجہ امین اللہ کو اپنے اس ہونہار اور ذہین
بیٹے کی تعلیم و تربیت پر مامور فرمایا۔ فقہ کی تعلیم اپنے خسر مولانا نور
اللہ سے حاصل کی ۔ اپنی ذہانت و ذکاوت اور غیر معمولی حافظے کے باعث دو سال
کے عرصے میں انہوں نے عربی کے مختلف علوم و فنون می حیرت انگیز ترقی کرلی
تھی۔ تیرہ سال کی عمر میں کتب درس ، صرف ونحو، فقہ، اصول فقہ ، منطق، کلام
، عقائد، ہندسہ، ہیئت اور ریاضی وغیرہ میں مہارت حاصل کرلی تھی۔ ان علوم سے
فراغت حاصل کرنے کے بعد آپ اپنے والد برزگوار کی درس گاہ میں جانے اور
اونچے درجے کے طلباء کے وسیع حلقے میں شرکت کر کے حدیث کی سماعت کرنے لگے ۔
دو سال میں شاہ عبدالعزیز نے حدیث کی تمام کتابوں پر عبور حاصل کر لیا اور
آپ کا شمار بہت بڑے بڑے علماء و فضلاء میں ہونے لگا۔ ملفوظات میں فرماتے
ہیں:
" حضرت والد ماجد صاحب نے ہر فن میں ایک آدمی تیار کیا تھا اور اس فن کے
طالب علم کو اس (آدمی) کے سپرد فرماتے تھے اور خود معارف گوئی اور معارف
نویسی میں مشغول رہتے تھے اور حدیث شریف پڑھایا کرتے تھے۔
(شاہ عبد العزیزمحدث دہلوی ، ملفوظات ِ عزیزی، ص 40)
پندرہ سال کی عمر میں آپ تمام مروجہ علوم و فنون سے فارغ ہو چکے تھے ۔
صاحب تذکرہ علمائے ہند رقم طراز ہیں :
" پندرہ سال کی عمر میں اپنے والد ماجد سے تمام علوم عقلیہ اور نقلیہ اور
کمالات ظاہر ی و باطنی سے فراغت حاصل کرلی "۔
(رحمان علی ، تذکرہ علمائے ہند ، ص122)
ابھی آپ سترہ برس کے تھے کہ شاہ ولی اللہ دہلوی اس دار فانی سے کوچ کر
گئے ۔ والد بزرگوار کی وفات کے بعد شاہ عبد العزیز دہلوی اپنے تینوں
بھائیوں سے عمر اور علم میں ممتاز و مشرف ہونے کے باعث مسند درس اور ارشاد
پر متمکن ہوئے ۔
علمی مقام
شاہ عبد العزیزدہلوی تمام متدولہ و غیر متدولہ اور فنون عقلیہ و نقلیہ
میں کامل دستگاہ رکھتے جیسا کہ صاحبِ علم و عمل رقم طراز ہیں :
" آپ علمِ تفسیر ، حدیث ، فقہ ، سیرت اور تاریخ میں شہرہ آفاق تھے اور
ہیئت ، ہندسہ ، مناظر ، اصطرلاب ، جرثقیل، طبیعات ، الہیات ، منطق ، مناظرہ
، اتفاق ، اختلاف، ملل، نحل ، قیافہ ، تطبیق، مختلف اور تفریق مشتبہ میں
یکتائے زمانہ تھے"۔
(وقائع عبد القادر خانی ، علم و عمل ، ج2، ص 249)
شاہ صاحب کی فروانی علم و فنون کے باعث تمام اہلِ علم ، سلاطین و امراء
اور شیعہ و سنی حضرات ان کی مدح سرائی میں رطب اللسان رہتے تھے ۔ بلاشبہ
آپ علم و فضل کے نامور شہسوار تھے اور جامعیت میں آپ اپنی مثال آپ تھے
۔ ملفوظات کے فاضل مرتب نے شاہ عبد العزیز کا یہ قول نقل کیا ہے :
"جن علوم کا میں نے مطالعہ کیا ہے ار جہاں تک مجھے یاد ہے ، ایک سو پچاس
علوم ہیں ۔ نصف سابقین اولین کے ہیں اور نصف علم اس امت میں ہیں "۔
(شاہ عبد العزیز محدث دہلوی ، ملفوظاتِ عزیزی، ص36)
علمی کاوشیں
شاہ عبد العزیز دہلوی ہندوستان کے نامور مدرس ، مصنف ، خطیب ، واعظ ، شیخ
طریقت ، فقیہ ، محدث ، مفسر اور عارف کامل تھے ۔ آپ نے مسندِ درس و سلوک
پر متمکن ہوتے ہی شاہ ولی اللہ دہلوی کی تعلیمات کے مطابق اصلاحِ امت
کیلئے کام کرنا شروع کردیا تھا۔ آپ نے نہایت دلنشین ، مؤثر اور سادہ و
قابل فہم انداز میں درسِ قرآن کا سلسلہ شروع کیا ، جس میں طلباء اور عوام
برابر دلچسپی لینے لگے ۔ آپ درس و تدریس ، تصنیف و تالیف ،افتاء ، فصل
خصومات ، وعظ و نصیحت اور علوم و معارفِ دینیہ سے ملتِ اسلامیہ کی گراں قدر
خدمات سر انجام دیں ۔ آپ سیاسی انتشار اور ناساز گار حالات کے باوجود
خدمتِ علم میں کوشاں رہے ، جیسا کہ صاحبِ اتحاف النبلاء تحریر فرماتے ہیں :
" ان کے خاندان کو علوم حدیث اور فقہ حنفی کے خاندان کی حیثیت حاصل ہے ۔ جس
طرح اس خاندان کے افراد نے حدیث شریف کے علم کی خدمت کی ، اس ملک میں دوسرا
کوئی خاندان اس پائے کا نظر نہیں آتا۔ عمل بالحدیث کا بیج درحقیقت شاہ
عبدالعزیزدہلوی کے والد شاہ ولی اللہ دہلوی نے بویا اور شاہ عبد
العزیزدہلوی نے اس کو برگ و بار عطا کیے ۔ ورنہ واقعہ ی یہ ہے کہ بلا ہند
میں ان سے پہلے بجز فقہ حنفی کے کوئی شخص علم و عمل کے سلسلے میں تمسک
بالحدیث میں متعارف نہ تھا"۔
(نواب صدیق حسن خان ، اتحاف النبلاء، ص 29)
گویا ہندوستان میں حدیث و فقہ کے علوم کے سلسلے کا آغاز شاہ ولی اللہ
دہلوی ، شاہ عبد العزیز دہلوی اور ان کے بھائیوں کی مساعی جمیلہ سے
ہوا۔ شاہ صاحب نے اہنی ان تھک علمی کاوشوں اور مسلسل تگ و تاز سے
مسلمانانِ ہند میں اصلاحی روح پھونکی اور عظیم انقلاب برپا کیا۔ آپ علوم
تحقیقات اور مخالفین کے ساتھ مذاکرات و مباحثات سے متعلق اپنے ہم عصروں میں
ممتاز مقام رکھتے تھے ۔شاہ صاحب نے علوم اسلامی کی اشاعت اور سنتِ رسولﷺ
کی حمایت و حفاظت اور علمی قابلیت کے باعث اپنے جلیل القدر خاندان کو تمام
دنیا میں متارف کرایا۔
تصانیف و تالیفات
شاہ عبد العزیز دہلوی نے متعدد کتابیں تصنیف وتالیف فرمائیں۔ امراض کی شدت
اور آنکھوں کی بصارت زائل ہونے کے سبب بعض کتابوں کو آپ نے املا ءکرایا
ہے۔
(مولانا عبد الحئی ، نزہتہ الخواطر ، ج7، ص273)
اہم تصانیف درج ذیل ہیں:
تحفۂ اثنا عشریہ
یہ فارسی زبان میں رد شیعیت میں بے مثال کتاب ہے، جس کو غیر معمولی شہرت
اور مقبولیت حاصل ہوئی اور اس کا عربی اور اردو میں ترجمہ بھی شائع ہو چکا
ہے۔شاہ صاحب نے تحفہ اثناء عشریہ کی تصنیف کے وقت قوتِ حافظہ کی بدولت
تمام دقیق علمی مسائل و نکات کے حل اور حوالے کیلئے شیعہ حضرات کی کتابوں
کی عبارتیں اور روایتیں زبانی لکھی تھیں مگر بہت سے شیعہ اہل علم صرف ان
کتابوں کے ناموں سے ہی واقف تھے ۔
عجالہ نافعہ
فن حدیث کے متعلقات پر ایک اہم رسالہ ہے۔ یہ بھی فارسی میں ہے اور متداول
ہے اور اس کا اردو ترجمہ مع تعلیقات و حواشی چھپ چکا ہے۔
بستان المحدثین
محدثین کے حالات کا ایک مجموعہ ہے۔ فارسی میں ہے متداول ہے۔ اس کا اردو
ترجمہ بھی ہو چکا ہے۔
فتاویٰ عزیزی
شاہ صاحب کے فتاویٰ کا مجموعہ اہل علم میں کافی مقبول اور متداول ہے اور اس
کا بھی اردو ترجمہ ہو چکا ہے۔
تفسیر فتح العزیز معروف بہ تفسیر عزیزی
یہ ان کی مشہور تفسیری تصنیف ہے، جس کی صرف چار جلدیں دو اول کی اور دو
آخر کی ملتی ہیں۔ یہ بھی فارسی میں ہے۔ ان کے علاوہ بلاغت، کلام، منطق اور
فلسفے کے موضوعات پر بھی شاہ صاحب نے متعدد رسالے اور حاشیے فارسی اور عربی
زبان میں لکھے ہیں۔ یہ تفسیر نامکمل صورت میں پائی جاتی ہے۔ سورۃ فاتحہ اور
سورۃالبقرہ کی ابتدائی ایک سورت چوراسی آیتوں کی تفسیر پہلی دو جلدوں میں
اور آخر کے دو پاروں کی تفسیرالگ الگ جلدوں میں ہیں۔ یہ جلدیں متعدد بار
شائع ہو چکی ہیں۔ تفسیر کے مقدمہ سے یہ پتہ چلتا ہے کہ شاہ صاحب کے ایک
شاگرد شیخ مصدق الدین عبد اللہ تھے، جن کی تحریک پر یہ تفسیر لکھی گئی اور
ان ہی کو شاہ صاحب نے اس کا املا کرایا تھا اور یہ سلسلہ 1208ھ/1793/ میں
مکمل ہوا۔
(مولانا عبد الحئی ، نزہتہ الخواطر ، ج 7، ص 274-273/ تفسیر فتح العزیزیہ ،
مطبع حیدری ، ج1، ص3، بمبئی 1294ھ)
سر الشہادتین
یہ واقعہ کربلا پر فارسی تالیف ہے۔ |