عمران خان کا سیاسی مستقبل

گزشتہ شب ملکی سیاسی منظرنامے میں گرما گرمی دیکھنی کو نظر آئی ، عدالت کے حکم کے مطابق عدم اعتماد کے سلسلے میں ۹ اپریل کو ووٹنگ کا حکم دیکھا گیا تھا ۔ اس حوالے سے ایوان میں اجلاس منعقد ہوا مگر ووٹنگ کے سلسلے میں تاخیر کی گئی ، رات کے 10 بجے کے بعد سیاسی منظر نامہ ایک دم سے تبدیل ہو گیا ۔ یہ اطلاعات آنا شروع ہو گئیں کہ مارشل لا لگنے جا رہا ہے ۔ مزید یہ کہ چیف جسٹس اف پاکستان نے شب ساڑھے دس کے قریب سپریم کورٹ کھولنے کا اعلان کر دیا۔ اس سب کشمکش میں وزریراعظم عمران خان صاحب کی سپیکر اسد قیصر صاحب سے دو سے تین مرتبہ وزیراعظم ملاقات ہوئی اور آخری نتیجہ یہ نکلا کہ ۱۲ بجنے سے چند منٹ قبل اس قیصر نے ڈپی سپیکر قاسم سوری کے ہمراہ استعفی دے دیا اور پھر جناب سردار ایاز صادق نے سپیکر کی کرسی سنبھالی ۔ شہباب شریف صاحب ملک کے ۲۳ وزیراعظم منتخب ہوئے اور پہلی بار ملکی تاریخ میں تحریک عدم اعتماد کامیاب ہوئی۔

اب جو بات زیر غور ہے وہ ہے عمران خان کا سیاسی کیریئر!

عمران خان صاحب جو شروع دن سے یہ نعرہ لگاتے نظر آ رہے تھے کہ میں کپتان ہوں ، میدان سے نہیں بھاگوں گا ، آخری نیند تک کھیلوں گا ، ان کی سیاست ڈگماتی نظر آ رہا ہے۔ عمران خان کا یہ اعلانیہ جس قدر مقبول و مشہور ہوا کہ ہم خود دار قوم ہیں ، ہم کسی کے آگے جھکنے والے نہیں ہیں، یہ اپنی مثال آپ ہے مگر اس سیاسی میدان میں عمران خان اپنی سیاست کچھ حوالوں سے کمزور کر گئے ہیں جو زیر غور ہیں۔

سب سے پہلے دیکھا جائے تو عمران خان نے ملکی سیاست میں اسلام کارڈ کو استعمال کیا ، جو زیادہ دیر تک چل نہ پایا۔ اس کے بعد عمران خان نے بیرونی سازشوں کے ملوث ہونے کا الزام اپوزیشن اور ان کے رہنماؤں پر لگایا۔ اس بات نے انہیں عوام میں دوبارہ معصوم و مقبول بنانے میں اہم کردار ادا کیا ۔

مگر دیکھا جائے تو عمران خان میدان سے بھی فرار ہوئے ہیں ، اگر وہ کل روز پارلیمنٹ آ جاتے اور اپنی ہار تسلیم کر لیتے تو شاید ان کا سیاسی قد کاٹھ مزید بڑھ جاتا۔ وزیراعظم صاحب اپنی انا و ضد پر قائم رہے ، پہلے وزراعلی اور گورنر پنجاب کو قربانی کا بکرا بنایا اور پھر سپیکر اور ڈپٹی سپیکر قربان ہوئے۔ اس سے ان کی سیاست لازمی طور پر اثرانداز ہو گی اور مستقبل میں شاید وہ کمزور سے کمزور تر ہوتی چلی جائے۔

یہ کہنا بے جا نہیں ہو گا کہ عمران خان نے ترکش سے جو تیر چلایا ہے وہ انہی کا بازو کاٹے گا۔ مستقبل میں عمران خان کو شاید جیل بھی کاٹنی پڑ جائے یا ان پر سنگین غداری کے الزامات کا سامنا کرنا پڑے۔ اب دیکھنا یہ کہ عمران خان کس طرح ان سب عوامل کا سامنا کر کے پھر سے میدان کا رخ کرتے ہیں مگر اب تک ان کا سیاسی کیریئر کمزور تر ہوتا نظر آ رہا ہے۔
 

Rafi Baloch
About the Author: Rafi Baloch Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.