قومی اسمبلی بحال،ڈپٹی اسپیکر کا فیصلہ کالعدم

قومی اسمبلی بحال،ڈپٹی اسپیکر کا فیصلہ کالعدم
٭
ڈاکٹر رئیس احمد صمدانی
سپریم کورٹ نے تحریک عدم اعتماد کے حوالے سے ڈپٹی اسیپیکر قاسم خان سوری کی رولنگ کے خلاف از خود نوٹس لیتے ہوئے چھٹے دن فیصلہ سنادیا جس کے نتیجے میں ڈپٹی اسپیکر کی رولنگ کو غیر آئینی قرار دیتے ہوئے قومی اسمبلی بحال کردی، ساتھ ہی رولنگ کے بعد جو جو اقدامات وزیر اعظم عمران خان نے لیے جن میں صدر پاکستان کو اسمبلی توڑنے کی سفارش، صدر مملکت کا اسمبلی کا لعدم کردیا جانا تمام کے تمام اقدامات ختم۔ حکومت،وزیر اعظم، کابینہ بحال، 9اپریل بروز ہفتہ صبح اجلاس بلانے، قرار داد پیش کرنے، تمام اراکین کو اپنے ووٹ کا حق استعمال کرنے کی اجازت کو یقینی بنانے کا حکم۔ڈپٹی اسپیکر کی رولنگ کے بعد سپریم کورٹ نے اس عمل کا از خود نوٹس لیاتھا، اتوار کے دن کاروائی کا آغاز ہوا، اپوزیشن کے وکیلوں کو سناگیا، ساتھ ہی حکومت کے وکیلوں کو بھی سنا۔ اس پوری کاروائی کے دوران وکیلوں اور بینچ میں موجود معزز جج صاحبان کے ریماکس سامنے آرہے تھے ان سے معاملہ عمران خان کے خلاف جاتا محسوس ہورہا تھا۔ اس لیے کہ معزز عدالت نے اپنا تمام تر فوکس صرف اس بات پر رکھا کہ ڈپٹی اسپیکر کی رولنگ آئین کے مطابق ہے یا نہیں۔ حکومت کی جانب سے جو دلائل پیش ہوئے جن میں غیر ملکی سازش، خط، اراکین کی بھیڑ بکریوں کی طرح کھلے عام خرید و فروخت جیسے معاملا ت پر توجہ ہی نہیں دی۔ ممکن ہے کہ جب تفصیلی فیصلہ سامنے آئے تو اس میں اس اہم معاملہ پر اظہار خیال ہو۔ فیصلے کا اعلان جمعہ کی شام بعد افطار کیا گیا۔ متحدہ اپوزیشن بشمول حکومت کے باغی اتحادیوں، اور باغی اراکین کی صفوں میں خوشی دیدنی تھی، اپوزیشن کا خوشی منانا تو بنتا تھا لیکن ایم کیو ایم نے بھی سڑکوں پر بھنگڑے ڈالے۔ لوٹوں نے بھی بھنگڑے ڈالے، رات گئے خوشیوں کے شادیانے بجتے رہے۔ دوسری جانب کپتان کے کیمپ میں مایوسی، افسردگی کا ہونا لازی امر تھا۔ ایسا تو ہوتا ہے ایسے کاموں میں۔ضروری نہیں کہ ہر میچ میں جیت ہی ہو، جیت اور شکست لازم و ملزوم ہے۔ جیسے سچ اور جھوٹ، غلط اور صحیح، خوشبو اور بدبو، میٹھا اور کڑوا، سفید اور کالا۔
میڈیا پر رات کا سما بھی خوب تھا۔ ہر چینل پر خصوصی نشریات، چینل کے نامی گرامی اینکر اور تجزیہ نگار، اینکر اور تجزیہ نگارخصوصی ٹرانسمیشن میں کھل کر سامنے آگئے، ہر اینکر کے دل میں جو کچھ تھا وہ اس نے موقعہ غنیمت جانتے ہوئے اس کا اظہار کررہا تھا۔ میڈیا میں واضح طور پر تفریق پائی جاتی ہے۔ جنہوں نے رات کی ترانسمیشن دیکھی وہ ان اینکر ز کی شکل دیکھ کر یہ بتا سکتے ہیں کہ اس کا تعلق کس دھڑے سے ہے یعنی تحریک انصاف اور کپتان کا حامی ہے یا نہیں، اسی طرح نون لیگ کے حمایتی اینکر کھل کر اپنے اندر کی خواہش کا اظہار کرتے رہے۔ بعض بعض اینکرز تو جذباتی بھی ہوگئیں اور جذبات میں آکر چلا چلا کر، چہرہ پر غصہ، ماتھے پر بل، منہ سے جھاگ تھوکتے ہوئے اظہار خیال کررہے تھے۔اینکر اپنی رائے تو دے سکتا ہے لیکن وہ اپنی پسند دوسروں پر تھوپ نہیں سکتا۔ بعض تو اس فیصلہ پر اس قدر خوش تھے کہ ان سے بات ہی نہیں کی جارہی تھی۔ قتیل شفائی کا شعر خوش ہونے والوں کے لیے ۔
احباب کو دے رہا ہوں دھوکا
چہرے پہ خوشی سجا رہا ہوں
بعض معا یوس اور پس مردہ بھی،ساحر لدھیانوی کا شعران کی نظر ۔
کبھی خود پہ کبھی حالات پہ رونا آیا
بات نکلی تو ہر اک بات پہ رونا آیا
پاکستان کی سیاسی تاریخ میں اس قسم کے حالات اور واقعات آتے رہے ہیں۔ کیا میاں نواز شریف کو عزت سے نکالا گیا تھا؟ بے نظیر کی حکومت ختم نہیں ہوئی تھی، جونیجو کی حکومت ختم نہیں ہوئی تھی۔کچھ بھی کہیں کپتان کو بظاہر جمہوری طریقے کار کو اپناتے ہوئے، لیکن اس کے پیچھے غیر ملکی سازش نمایاں ہے۔ نہیں معلوم کپتان کیا ترپ کا پتہ چل دے، کچھ کہا نہیں جاسکتا۔ اپوزیشن کی حکومت کیسی ہوگی اس کا اندازہ بخوبی لگایا جاسکتا ہے۔ 11جماعتیں تو پہلے ہی تھیں اتحاد کا حصہ تھیں، اب حکومت کے منحرف اتحادی جو اپوزیشن سے آن ملے ہیں وزارت لیے بغیر کیسے رہ سکتے ہیں، منحرف اراکین جنہیں زندگی بھر لوٹا ہونے کے طعنے سننے پڑیں گے وزارت نہ سہی پارلیمانی سیکریٹی ہی سہی، کچھ ایسی پارٹیاں بھی اس بھان متی کے کنبے میں شامل ہیں جن کے پاس ایک بھی منتخب رکن نہیں، انہیں بھی کچھ نہ کچھ چاہیے ہوگا، وہ مشیرسے کم پر تیار نہ ہوں گے۔ مولانا صاحب کے بارے میں کہا جارہا ہے کہ وہ پاکستان کے صدر کی کرسی کے خواہش رکھتے ہیں۔ شروع شروع میں تو سب کی خواہشیں پوری ہوں گی، پھر رفتہ رفتہ ان میں دراڑیں پڑنا شروع ہوں گی،جن جن پر کیسیز ہیں وہ واپس کروانے کی سعی ہوگی، جو بیرون ملک جابیٹھے ہیں وہ پہلی فلائٹ سے آنکھوں میں آنسوں لیے وطن کی محبت میں آتے نظر آئیں گے۔
بڑے میاں صاحب کے بعد اب چھوٹے میاں صاحب ملک کے حکمراں بن جائیں گے۔ پنجاب کی حکمرانی بھی شریف فیملی سے باہر نہیں جائے گی۔ باپ وزیر اعظم اور بیٹا وزیر اعلیٰ، آخر محنت کی ہے، جیلیں کاٹی ہیں، مقدمات کا سامنا کیا ہے،کپتان کے غیض و غضب کا مقابلہ کیا ہے۔ اتنا حق تو بنتا ہے۔ ملک کی معاشی حالت کو دیکھتے ہوئے خیال کیا جارہا ہے کہ مشکلات اس قدر کٹھن ہوں گی اللہ کی پناہ۔ لیکن شریفوں کے دنیا کے کئی بڑے ممالک سے بہت اچھے مراسم ہیں۔ وہ یقینا ان سے مدد کے خواہش مند ہوں گے اور وہ بھی کیوں مدد نہیں کریں گے، آخر ان کی مراد برآئی ہے۔ جو وہ چاہتے تھے وہ ہوگیا ہے۔ آج رات تک کپتان کے فیصلے کا انتظار ہے کہ وہ آخری بال پر اپنی وکٹ گروانا چاہے گا یا ابھی بھی اس کے پاس کوئی ایسی یارکر ہے جس سے وہ اپوزیشن کو پویلین واپس بھیج دے گا، یا خاموشی سے شکست تسلیم کرتے ہوئے اپوزیشن لیڈر اور اپنی جماعت جو کہ جو سنگل لارجیسٹ پارٹی ہے اپوزیشن بنچوں پر بیٹھا کر مخالفین کو مشکلات سے دوچار کرتا رہے گا۔ میری ذاتی رائے میں کپتان کو خاموشی سے اپوزیشن لیڈر بن جانا چاہیے۔ ملک اس بات کا متحمل نہیں ہوسکتا کہ یہاں سیاسی عدم استحکام ہو جاری رہے، آئینی بحران ہو، اراکین کو توڑنے کا بازار گرم رہے۔ پاکستانی قوم ایک باعزت قوم ہے۔ اس کا وقار ہر صورت قائم رہنا چاہیے۔ اقتدار آنی جانی چیز ہے کئی آئے اور چلے گے۔ ملک ہے تو ہم ہیں ملک کو اللہ نہ کرے کچھ ہوگیا تو ہماری کیا حیثیت ہوگی۔ جو قدم بھی دونوں جانب سے اٹھایا جائے وہ وطن کی عزت کو بڑھانے کے لیے، عوام الناس کی بہتری کے لیے ہونا چاہیے۔ (8اپریل2022)



Prof. Dr Rais Ahmed Samdani
About the Author: Prof. Dr Rais Ahmed Samdani Read More Articles by Prof. Dr Rais Ahmed Samdani: 852 Articles with 1278172 views Ph D from Hamdard University on Hakim Muhammad Said . First PhD on Hakim Muhammad Said. topic of thesis was “Role of Hakim Mohammad Said Shaheed in t.. View More