پاکستان میں رجیم (Regime) تبدیل، عمران خان بنی گالہ منتقل

پاکستان میں رجیم (Regime) تبدیل، عمران خان بنی گالہ منتقل
٭
ڈاکٹر رئیس احمد صمدانی
لفظ رجیم انگریزی زبان کا لفظ ہے۔ اس کی تعریف یہ بیان کی گئی ہے کہ حکومت خصوصاً ذمہ داران۔عام طور پر رجیم کی تبدیلی سے مراد وہ افراد، جماعت، گروہ جو کسی بھی ملک میں برسر اقتدار ہو اُسے تبدیل کردیا جائے 9اپریل کو ظہور پذیر ہونے والا واقعہ جس کے نتیجے میں عمران خان کی حکومت ختم ہوئی اور اس کا مخالف گروہ یا جماعتوں کی حکمرانی قائم ہوئی۔ رجیم کی تبدیلی ہے۔ اس میں صرف سیاسی عہدوں پر فائز لوگ تبدیل ہوجائیں گے۔ ریاست کی انتظامی مشینری اپنی جگہ قائم رہے گی۔ بعد میں برسر اقتدار رجیم کی ثواب دیدہے کہ وہ مختلف انتظامی عہدوں پر فائز لوگوں کو ادھر سے ادھر کردے۔ پاکستان میں رجیم تبدیل ہوگئی، کپتان آخری بال پر آوٹ ہوکر پویلین لوٹ گیا۔وہ اپنی بات پر قائم رہا اور آخری بال پر وکٹ کیپر شہباز شریف کے ہاتھوں کیچ آوٹ ہوگیا۔ پاکستان کی سیاست میں برپا ہیجان وقتی طور پر تھم گیا۔سیاسی گیم کے آخری لمحات سنسنی خیز رہے۔ کبھی بازی ایک جانب جاتی دکھائی دیتی تو کبھی دوسرے فریق کا پلڑا بھاری نظر آتا۔ کپتان کے خلاف تحریک عدم اعتماد اسمبلی میں پیش ہوجانے کے بعد متحدہ اپوزیشن جو مختلف چھوٹی بڑی سیاسی جماعتوں کے علاوہ حکومت کی اتحادیوں، پی ٹی آئی کے منحرف لوٹوں کو ملا جلا کر بہت آسانی سے 172 کی تعداد کو پورا کرتی دکھائی دے رہی تھی۔ سیاست تو نام ہے توڑ جوڑ، طاقت کے مظاہرے کا سو وہ پوری قوم نے دیکھا، کہ سیاسی جماعتوں اتحادیوں اور منحرف لوٹوں کو اپنے ساتھ ملانے کے لیے کیا کیا حربے استعمال نہیں ہوئے، منحرف ارکان کو کس کس طریقے سے لوٹا بنایا گیا۔ ایک چیز جو اس مرتبہ سامنے آئی جو افساس ناک ہے وہ یہ کہ مخالف جماعت کے لوگوں کو توڑنے کے عمل کو کھلے عام ٹی وی پر درست اور جائز کہا گیا۔ اس سے قبل سیاسی جماعتیں اس طرح کے کام چوری چھپے کیا کرتی تھیں۔ کم از کم کھلے عام اس عمل کو جائز کسی جماعت کے سربراہ نے نہیں کہا۔ اس بار تو ڈھٹائی کی تمام حدیں ابور کرلی گئیں۔
سپریم کورٹ کا فیصلہ دو ٹوک آجانے کے بعد اس بات کی قطعناً گنجائش نہیں رہی تھی کہ حکومت دائیں بائیں ہونے کی کوشش کرے۔ عدالت نے اپنے فیصلے میں حکومت کے ہاتھ پاؤں قانون کے مطابق اس بری طرح باند ھ دئے تھے کہ کوئی معجزہ ہی اسے نکال سکتا تھا۔ عدم اعتماد پر گنتی کرانے کا حکم تو تھا ہی ساتھ ہی تاریخ، دن اور وقت بھی بتادیا گیاکہ اس وقت یہ کام ہونا ہے، ہر ایک کو ووٹ ڈالنے دیا جائے۔ سپریم کورٹ کا فیصلے کسی کو پسند ہو یا نہ پسند ہو، اسے من و عن قبول کرنا ہر صورت میں لازمی ہوتا ہے۔ فیصلے پر اختلاف کیا جاسکتا ہے لیکن متعلقہ فریق کو جس کے خلاف فیصلہ دیا گیا اس پر لازم ہے کہ وہ آمناو صدقناکہے اور اس پر عملی طور پر عمل کرے۔یوسف رضا گیلانی جب وزیر اعظم تھے عدالت کے حکم کی روگردانی کے نتیجے میں کرسی سے ہاتھ دھو بیٹھے تھے اور بھی ایسی مثالیں ہیں۔ اب اپوزیشن بہت خوش جب کہ کپتان کسی طور تیار نہیں، آخری بال تک کھیلنے کی ضد اور مخالفین کو ناک آوٹ کرنے کی گردان۔سیاسی سوجھ بوجھ رکھنے والے بھی حیران و پریشان کہ آخر کپتان کے پاس کونسی ایسی گیدڑ سنگھی ہے کہ وہ سپریم کورٹ کے فیصلے پر عمل نہ کرتے ہوئے تحریک عدم اعتماد کو ناکام بنا دے، اپنے باغی ہوجانے والے لوٹوں کو واپس کیسے لاسکتا تھا۔ان اتحادیوں کو جنہوں نے تحریری معاہدے اپوزیشن سے کیے کیسے واپس اپنے ساتھ ملا سکتا ہے۔ گورنر شب، میئر شپ، مرضی کی وزارت، مراعات، ٹکٹ کی آفر بھلا ان سب کی واپسی نا ممکن تھی۔
9اپریل، ہفتہ کا دن ساڑے دس بجے کی گھڑی آن پہنچی، ڈپٹی اسپیکر کی رولنگ کو اعلیٰ عدالت نے اڑا کر دکھ دیا تھا، قومی اسمبلی بحال کردی گئی، ساتھ ہی ڈپٹی اسپیکر کی رولنگ کے بعد جو جو اقدامات وزیر اعظم عمران خان نے کیے تھے جن میں صدر پاکستان کو اسمبلی توڑنے کی سفارش، صدر مملکت کا اسمبلی کا لعدم قرار دیا جانا، تمام کے تمام اقدامات ختم کردئے گئے۔ حکومت،وزیر اعظم، کابینہ بحال، 9اپریل بروز ہفتہ صبح اجلاس بلانے، قرار داد پیش کرنے، تمام اراکین کو ووٹ کا حق استعمال کرنے کی اجازت کو یقینی بنانے کا حکم تھا۔کونسا خط کیسا خط، کیسی رجیم چینج کی ہدایت، کیسی در اندازی، کیسا امریکہ،کہاں کا امریکہ کچھ نہیں بس قرارداد پر گنتی کے سوا کچھ نہیں۔ ایک جانب اسمبلی میں کاروائی کا آغاز ہوا، دوسری جانب وزیر اعظم ہاؤس میں حکمت عملی پر سر جوڑ کر ترکیبیں تلاش کی گئیں، کوئی کہتا کہ استعفیٰ دے دو، کوئی کہتا تمام اراکین مصطفی ہوجائیں، کبھی کچھ کبھی کچھ، آخری وقت تک مقابلہ کرنے کی باتیں، افواہیں، خبریں، میڈیا پر تجزیے،اعصاب شکن تبدیل ہوتی صورت حال، وقت تیزی سے سپریم کورٹ کی دی ہوئی ڈیڈ لائن کی جانب بڑھ رہا تھا۔سرکاری حکمت عملی کے تحت اراکین نے لمبی لمبی تقاریر کیں، تاکہ اپوزیشن اراکین کو تھکا تھکا کر نڈھال کر دے،شاید اس دوران کچھ غیبی امداد آن پہنچے۔ رات گئے آنے والی خبروں میں عدالتوں کے کھلنے، قیدیوں کی گاڑیوں کے سپریم کورٹ کے دفتر پہنچنے، ائر پورٹس پر ہائی الرٹ، پارلیمنٹ ہاؤس، سپریم کورٹ، اسلام آباد ہائی کورٹ کے اطراف سیکورٹی سخت کیے جانے، ریڈزون میں کمانڈوز تعینات ہونے کی خبروں نے حکومت اور اپوزیشن میں ہل چل مچادی۔ خط اسپیکر اوردیگر اہم شخصیات کو فراہم کردیا گیا۔ لگتا ہے کہ وزیراعظم ہاؤس میں حکمت عملی پر نظر ثانی کی گئی۔کسی دانا نے ملاقات کی اور سمجھایا کہ بس بہت ہوچکا۔ تمہارے دن گنے جاچکے، عافیت اسی میں ہے کہ واپس بنی گالہ لوٹ جاؤ، تمہارے لیے یہی آخری بال ہے جس پر تمہاری وکٹ گر چکی ہے۔
قومی اسمبلی کے اسپیکر نے پونے بارہ بجے شب ڈرامائی انداز میں اجلاس کی صدارت کرتے ہوئے کہا کہ مجھے وہ خط دیا گیا ہے۔ اس کی روشنی میں اب میرے لیے اس اجلاس کو چلا نا ممکن نہیں اس لیے میں اپنے عہدہ سے استعفیٰ دیتا ہے ہوں اور ایاز صادق کو اسمبلی کی کاروائی آگے چلانے کی درخواست کی اور اٹھ کر چلے گئے۔ ڈپٹی اسپیکر نے بھی استعفیٰ دے دیا۔ اس کے بعداسمبلی کا اجلاس اپوزیشن کی خواہش کے مطابق چلا اور ایوان نے پاکستان کے وزیر اعظم عمران خان کے خلاف تحریک عدم اعتماد پیش کی 174اراکین نے اس قرارداد کی حمایت کی ضرورت 172کی تھی۔ یہ بات بھی قابل غور ہے کہ اپوزیشن نے تحریک انصاف کے جن اراکین کو لوٹا بنایا تھا انہیں اسمبلی میں بیٹھائے تو رکھا لیکن ان سے ووٹ نہیں ڈلوایا۔ اس میں کیا حکمت تھی یا سیاست۔عمران خان نے آج سے تین سال اور آٹھ ماہ قبل جب قومی اسمبلی سے وزیر اعظم کے لیے اعتماد کا ووٹ لیا تھا تو اس وقت 176اراکین نے حمایت میں ووٹ دئے تھے۔ اس عمل پر افسوس ہی کیا جاسکتا ہے کہ آج تک ہمارے کسی بھی وزیر اعظم نے اپنی آئینی مدد پوری نہیں کی۔ کسی نہ کسی سبب ہر وزیر اعظم کو قبل از وقت رخصت ہونا پڑا۔ سینئر صحافی مجیب الرحمن شامی صاحب نے اس عمل کو عمران خان کے خلاف ”ہماگیر بغاوت“ قرار دیا جب کہ ڈاکٹر حسن عسکری نے اسے ”ہماگیر ناکامی“ کہا۔ عمران خان پاکستان کے سیاستدانوں میں مقبول ترین لیڈر کہا جاتا ہے۔ اس نے جس بیانیے پر کامیابی حاصل کی تھی اس بیانیہ اور ان وعدوں پر وہ مکمل طور پر عمل کرنے میں ناکام رہا، اسے اچھی ٹیم بھی میسر نہیں ہوئی۔ وہ بعض معاملات میں یو ٹرن بھی لیتا رہا۔ معاشی منصوبہ بندی میں وہ ناکام دکھائی دیا، پنجاب میں بزدار فیکٹر نے اسے بہت نقصان پہنچایا، نہیں معلوم اس شخص میں اسے کونسی ایسی خوبی دکھائی دے رہی تھی جو اس کے سوا کسی کو بھی نظر نہیں آئی۔ اسے کوئی اچھا معاشی وزیر یا مشیر نہیں مل سکا۔وہ از خود ایماندار، محنتی، سچا، نڈر، مخلص، محب وطن انسان ہے۔ کورونا کا مقابلہ اس نے جس انداز سے کیا اسے دنیا نے سراہا۔ اس نے بعض عالمی سطح کے بہترین کام بھی کیے۔ وہ عالم اسلام کا مقبول لیڈر سمجھا جانے لگا تھا۔ ماضی میں امریکہ کو آنکھ دکھانے والوں کا انجام کوئی اچھا نہیں ہوا۔ امریکہ پاکستان کا کیسا دوست ہے اس کے عمل سے ظاہر ہے۔ لیاقت علی خان سے لے کر ذولفقار علی بھٹو تک اس نے کیا کچھ نہیں کیا۔ ہندوستان سے جنگ میں ساتواں امریکی بحری بیڑا پاکستان کی مدد کے لیے پہنچ کر ہی نہیں دیا، پاکستانی ان کا انتظار ہی کرتے رہ گئے۔ عمران خان کا روس چلے جانا امریکہ بہادر کو نہ بہایا، اتنا برا لگا کہ اس نے رجیم تبدیل کرنے کا فیصلہ کرلیا اور اس پر عمل درآمد بھی ہوگیا۔اس نے یہ عمل کئی ممالک کے ساتھ کیا۔عمران خان کی مقبولیت کم نہیں ہوئی بلکہ اس میں کئی گنا اضافہ ہوا ہے۔ وہ زیادہ مقبول ہوگیا ہے۔عمران خان کے خلاف تحریک عدم اعتماد منظور ہوئی اور وہ وزیر اعظم نہیں رہے۔ میں نے رات گئے جب یہ بات اپنی شریک حیات کو بتائی تو ہکا بکا رہ گئیں، ان کا کہنا تھا کہ ”یہ خبر سن کر دل بیٹھ سا گیا، ایسا لگا جیسے اپنی کوئی خاص چیز چھن گئی ہو“۔ اپنی اپنی رائے ہے۔ عمران خان خاموش بیٹھنے والا نہیں، وہ مقابلہ کرے گا، پھر سے عوام میں جائے گا، لیکن اسے اپنی شکت سے سبق سیکھنا چاہیے، جو غلطیاں کی ان سے سبق حاصل کرے۔ پاکستان میں ٹیلنٹ کی کمی نہیں، نیک، ایماندار، مخلص لوگوں کو اوپر لائے، ضمیر فروشوں سے تعلق نہ رکھے۔ (11اپریل 2022ء)
Prof. Dr Rais Ahmed Samdani
About the Author: Prof. Dr Rais Ahmed Samdani Read More Articles by Prof. Dr Rais Ahmed Samdani: 852 Articles with 1277845 views Ph D from Hamdard University on Hakim Muhammad Said . First PhD on Hakim Muhammad Said. topic of thesis was “Role of Hakim Mohammad Said Shaheed in t.. View More