موجودہ حالات کے تناظر میں آج کل ایک جملہ بہت سے زبانوں
پر کثرت سے استعمال ہورہا ہے وہ ہے "اندر کی خبر". تو جناب یہ تجزیہ اندر
کی خبروں پر بالکل مشتمل نہیں بلکہ باہر کے حالات سے کشید شدہ ہے، جہاں تک
بات ہے اندر کی خبروں کا تو اس کا اکثر کسی کو بھی خبر نہیں ہوتی، بلکہ
اندر کی خبریں دینے والے اکثر باہر بیٹھے ہوۓ ہوتے ہیں جنکو نہیں پتا ہوتا
اندر کیا ہو رہا ہے۔
حکومت کی پونے چار سالہ کارکردگی کو دیکھا جاۓ تو اگلے الیکشن میں عوام کے
پاس جانا خاصا مشکل کام تھا۔ اچھے ممالک میں تو حکومت کے اختتام پر جانے
والے سربراہ کی طرف سے مختصراً کارکردگی کی ایک رپورٹ میڈیا، پںلک کے سامنے
رکھی جاتی ہے کہ کیا کیا اہداف حاصل ہوۓ اور کونسے رہ گۓ، لیکن یہ کلچر
ابھی ہمارے ہاں نہیں متعارف۔ امید تھی کہ یہ حکومت ایسا کرتی لیکن ان کی بد
قسمتی یا ان کی خوش قسمتی کہ مدت پوری نہ ہو سکی۔ خوش قسمتی اسلے کہ کم از
کم ساڑھے تین سالہ رزلٹ مانگنے کا رجحان پبلک کی طرف سے کم ہوگیا ہے اور
بات دوسری چیزوں پر چلی گئی۔ یہاں یہ کہ سکتے ہیں کہ حکومت یہ ریلیف تو
ضرور مل گیا اور بڑے دھوم دھام سے اگلے الیکشن میں کیمپئین کی راہ ہموار
ہوئی۔
اپوزیشن جو ایک عرصہ سے جہد مسلسل میں تھی اپنے اوپر سے دباؤ ہٹوانے، کیسس
ختم کرنے اور شائید تھوڑا بہت حکومت کا زائیقہ بھی چکنے، جو موجودہ حکومت
کی طرف سے ممکن نہ تھا۔ لیکن جو حالات بن گۓ اس نے اپوزیشن کو بھی نواز دیا،
اور خود کے اوپر سے کیسز کا خاتمہ جو حکومت کی طرف سے اگر چاہتے ہوۓ بھی
تھا تو ممکن نہ تھا یہ کام اپوزیشن خود کر لے گی حکومت میں آکر۔
حکومت کو رعائیت مل گئی کارکردگی دکھانے سے، اپوزیشن کو رعائیت مل گئ کیسز
سے، حکومت کے حمائیتی سڑکوں پر حکومت کے حق میں، جبکہ اپوزیشن کے حما ئیتی
خوشی منا رہے ہیں اسکو آئین کی فتح قرار دے کر۔ اللہ اللہ خیر سے اللہ،
ایسا لگ رہا ہے جس کو جو چاۂے تھا اسکو مل گیا، اور نظام دوبارہ ریسٹارٹ ہو
چکا جیسا کہ ہر طوفان کے بعد۔ لیکن یہ بات طے ہے کہ نظام بدلا ہر گز نہیں۔
|