پاکستان ۱۴ اگست ۱۹۴۷ کو معرضِ وجود میں آیا تو اس کی
مالی اور معاشی حالت انتہائی پتلی تھی۔حکومت کے پاس دفتری فرنیچر تک کا
فقدان تھا لہذا بعض جگہوں پر درختوں کے نیچے بیٹھ کر دفتری معاملات سر
انجام دئے جاتے تھے۔دفاتر میں پنسلیں،قلم اور سٹیشنری تک نہیں تھی ،دفاعی
سامان بالکل نہ ہونے کے برابر تھا جبکہ دشمن کی نظر پاکستان کو ہڑپ کرنے پر
تھی۔ دفاعی اوردفتری سامان کہاں سے خریدا جاتا کیونکہ ملکی تجوری بالکل
خالی تھی ؟سرکاری ملازمین کی تنخواہیں دینے کیلئے پیسے تک نہیں تھے ۔بھارت
جیسا مکار دشمن سر پر کھڑا تھاجو نو زائیدہ ملک کے چند مہینوں میں اپنے ہی
بوجھ سے ٹوٹ جانے کے خواب دیکھ رہا تھا۔یہ ایک ایسی صورتِ حال تھی جس سے
نبرد آزما ہونا انتہائی دشوار تھا۔مہاجرین کی بحالی کا مشکل مرحلہ پھن
پھیلائے کھڑا تھا لیکن خزانہ بالکل خالی تھا ۔مہاجرین کی لاشوں کے انبار دل
کو دہلا دینے کیلئے کافی تھے جو قائدِ اعظم کی صحت کا خون کر رہے تھے۔ایک
قائد تھا اور اس کے چاروں طرف مشکلات اور مسائل کے گھیرے تھے لیکن اس کے
باوجود قائد کا عزم پہاڑوں سے بلند تھا۔شب و روزکی مصروفیات نے ان کی کمزور
صحت پر منفی اثرات مرتب کئے جس سے وہ جانبر نہ ہو سکے۔مالی مشکلات کے ان
جان لیوا لمحات میں بھارتی وزیرِ اعظم پنڈت جوا ہر لال نہرو نے پاکستان کو
اس کے اثا ثہ جات دینے سے انکار کر دیا تھا جس کے خلاف مہاتما گاندھی نے
احتجاج کیا تھا اور مرن برت رکھا تھا جس کی پاداش میں انھیں اپنی جان سے
ہاتھ دھونے پڑے تھے ۔ مہاتما گاندھی کا قتل محض اس وجہ سے ہوا تھا کہ
مہاتما گاندھی نے مرن برت سے وزیرِ اعظم پنڈت جوا ہر لال نہرو کی ریاستی
حاکمیت کو چیلنج کیا تھا اور انھیں اس بات پر مجبورکرنے کی کوشش کی تھی کہ
آزادی کے معاہدہ کی رو سے پاکستان کا جو مالی حصہ بنتاہے اسے لوٹانا ضروری
ہے لیکن اقتدار کے نشہ میں انسان کسی کو خاطر میں نہیں لاتا اورپنڈت جواہر
لال نہرو نے بھی یہی کیا تھا۔ قتل کی سازش تیار ہوئی جس نے سیاسی گرو اور
بھارتی باپو کی جان لے کر چھوڑی۔ عظیم رومی سپہ سالار سیزر اور بروٹس کے
درمیان بھی ایسا ہی منظر دیکھا گیا تھا۔تاریخ ہمیں بتاتی ہے کہ عظیم جنرل
سیزر کا قتل اس کے اپنے ہی دوست کے ہاتھوں ہوا تھا۔سیزر کا تاریخی جملہ (یو
ٹو بی) (تم بھی) ،تاریخ کے پنوں میں ہمیشہ کیلئے محسن کشی کی علامت بن کر
چمک رہا ہے ۔جب تک اس کرہِ ارض پر آخری انسان زندہ ہے یہ جملہ محسن کشی کی
مثال بن کر لوگوں کے ضمیر کو جھنجوڑتا رہے گا لیکن کمال ہے کہ لوگ پھر بھی
محسن کشی سے باز نہیں آتے۔،۔
مالی مشکلات کے مدو جزو میں ہچکولے کھاتی پاکستانی کشتی کو کسی محفوظ مقام
تک لے جانے کیلئے قائدِ اعظم کی دلی خواہش تھی کہ امریکہ کے ساتھ پاکستان
کے تعلقات استوار ہو ں ۔وزیرِ خارجہ سرظفراﷲ نے قائد کی اس خواہش میں رنگ
بھرنے کیلئے ان تھک کاوشیں کیں اور ان کی کاوشوں کے نتیجہ میں پاک امریکہ
تعلقات کی برف پگلی ۔سرظفراﷲ نے امریکہ سے تعلقات کی مضبوط بنیادیں رکھنے
میں انتہائی اہم کردار ادا کیا جس پر پوری قوم ہمیشہ ان کی احسان مندرہے گی
۔قائدِ اعظم وزیرِ خارجہ کی کاوشوں سے بہت خوش تھے کیونکہ یہی وہ واحد راہ
تھی جو پاکستان کو مالی معاملات کی دلدل سے نکال سکتی تھی۔ بھارت کے خلاف
کھڑا ہونے کیلئے پاکستان کو کسی ایسے دوست کی ضرورت تھی جو نامساعد حالات
میں پاکستان کی داد رسی کرتا ۔امریکہ نے بالکل ایسا ہی کیا۔امریکہ کا خیال
تھا کہ سوشلزم کی یلغار دنیا کو اپنی گرفت میں لے رہی تھی ۔ روسی قائد لینن
کی تاریخی جدو جہد سے دنیا متاثر تھی اور پوری دنیا اس انقلاب کو اپنے
ممالک میں نافذ کرنے کیلئے بے تاب تھے جو امریکہ اور یورپ کو کسی طور گوارا
نہ تھا کیونکہ یہ ان کی سپر میسی کیلئے شدید دھچکا تھا ۔ پاکستان اسلامی
نقطہ نظر سے سوشلزم کو اسلامی آئیڈیالوجی سے متصادم سمجھتا تھا اس لئے
سوشلزم کی یلغار کو روکنے میں پاکستان امریکہ کا ایک مضبوط اتحادی ثابت ہو
سکتا تھا۔سوشلزم یورپ کیلئے ایک ڈراؤنا خواب تھا جو یورپی اقوام کیلئے
سوہانِ روح بنا ہوا تھا۔علماء نے امریکہ اور یورپ کی خوشنودی کیلئے دل کھول
کر سوشلزم کی مخالفت کی اور اسے اسلام کی بیخ کنی سے تعبیر کر کے عوام کو
اس سے دور رکھنے کی کوشش کی ۔ علماء کی کاوشوں اور حکومتی اقدامات سے
سوشلزم کا راستہ روک دیا گیا اور یوں امریکہ اور پاکستان انتہائی قریبی
دوست بن کر سامنے آئے۔امر یکہ نے دل کھول کر پاکستان کی امداد کی اور اسے
مالی مشکلات سے نجات دلانے میں بنیادی کردار ادا کیا۔فوجی سازو سامان،
اسلحہ،دفاعی آلات اور جدید ٹیکنالوجی سے پاکستان کو لیس کیا تا کہ اسے
بھارتی جارحیت کے سامنے ایک مضبوط ملک کی حیثیت سے کھڑا کیا جائے ۔،۔
بھارت اس زمانے میں روسی بلاک میں شامل تھا اور پنڈت جوا ہر لال نہرو
سوشلزم کے علمبردارتھے لہذا ان دونوں کے درمیان گاڑھی چھنتی تھی۔جنوبی
ایشیا میں روسی توسیع پسندی کر روکنے کیلئے ایران کے بعد امریکہ پاکستان پر
انحصار کر رہا تھااور پاکستانی قیادت نے امریکہ کا دل کھول کر ساتھ
دیاتھا۔امریکہ نے جس طرح پاکستان کی فوجی اور معاشی مدد کی اس سے پاکستان
کا دفاع ناقابل تسخیر ہو گیا جس کی شہادت ستمبر ۱۹۶۵ میں پاک بھارت جنگ
میں بھارتی شکست سے دیکھی جا سکتی ہے۔کہاں بھارت جیسا بڑا ملک اور کہاں
پاکستان جیسا ایک چھوٹا سا ملک جو آزادی کے بعد شدید مالی مشکلات میں گھرا
ہوا تھا لیکن پھر بھی بھارتی جارحیت کو کچلنے میں کامیاب ہوا ۔دنیا نے
افواجِ پاکستان کی جراتوں اور بسالتوں کی دل کھول کر داد دی۔اقوامِ عالم کو
پہلی بار اس بات کا مشاہدہ کرنے کا موقعہ ملا کہ جذبہِ ایمانی بڑی سے بڑی
طاقت کو جھکانے کی قوت رکھتاہے۔ ستمبر ۱۹۶۵ کی پا ک بھارت جنگ کے بعد
بھارت نے اپنی شکست کا بدلہ چکانے کیلئے روس کے ساتھ گٹھ جوڑ کر کے پاکستان
کے حصے بخرے کرنے کی سازش شروع کر دی تھی ۔ ۱۶دسمبر ۱۹۷۱ میں روسی اور
بھارتی سازشوں کے نتیجہ میں پاکستان دو لخت ہوا ۔مشرقی پاکستان بنگلہ دیش
بن کر دنیا کے نقشے پر ابھرا جس کا داغ ہر محبِ وطن پاکستانی کے دل میں آج
بھی دیکھا جا سکتا ہے۔روس بھارت گٹھ جوڑ نے اس بات کو واشگاف کر دیا کہ روس
پاکستان کے ساتھ مخلص نہیں ہے اور اس پر بھروسہ نہیں کیا جا سکتا۔اس نے
پاکستان پر جو کاری وار کیا تھا اس سے صرفِ نظر نہیں کیا جا سکتا۔روسی
دشمنی نے پاکستان کو جو زخم لگایا تھا پاکستانی قوم اسے کسی بھی صورت میں
فراموش نہیں کر سکتی۔کئی عشروں تک روس اور پاکستان کے درمیان تعلقات میں
سرد مہری غالب رہی کیونکہ پاکستانی قیادت ملک کو دو لخت کرنے والے ملک سے
ہاتھ نہیں ملاسکتی تھی لیکن آج ہم دیکھ رہے ہیں کہ وزیرِ اعظم عمران خان
روس کے ساتھ پینگیں بڑھا نے کے خواب دیکھ ہے ہیں۔وہ ملک جس نے ہماری
نظریاتی سرحدوں کو پامال کیا تھا اور جس کے خلاف ہم نے ۱۹۷۹ میں اپنی
سالمیت کی سب سے بڑی جنگ لڑی تھی اور جس میں ہزاروں افراد نے جامِ شہادت
نوش کیا تھا اس ملک پر کسی بھی بھی صورت میں بھروسہ نہیں کیا جا سکتا۔روس
گرم پانیوں تک رسائی چاہتا تھا۔ افغانستان پر ۱۹۷۹ میں اس کی یلغار اسی
سوچ کی عکاس تھی ۔ دس سالہ افغانی جنگ کی وجہ سے روسی سالمیت پارہ پارہ ہو
کر رہ گئی تھی۔سویت یونین کی شکشت و ریخت پاکستانی افواج کا عظیم کارنامہ
تھا جس پر پوری قوم کا سر فخر سے بلند ہوجاتا ہے ۔اگر پاکستان ،سعودی
عرب،امریکہ اور یورپ باہمی اتحاد سے روسی یلغار کے سامنے سیسہ پلائی ہوئی
دیوار نہ بنتے تو اس خطہ کی تاریخ بالکل مختلف ہوتی۔پاکستانیوں کی قربانیوں
اور کاوشوں کے نتیجہ میں روسی شکست کے بعد پاکستان ایک بہت بڑے المیہ سے
محفوظ ہو گیاتھا لیکن اس کے باوجود وزیرِ اعظم پاکستان روسی بلاک میں کھڑا
ہوناچاہتے ہیں جو عوامی سوچ ،فکراور مزاج سے مطابقت نہیں رکھتا۔،۔
|