اسلامو فوبیا اور او آئی سی

 مارچ میں جہاں مارچ ہورہے ہیں اور سیاسی درجہ حرارت بھی اپنے عروج پر ہے ایک طرف عمران خان اور اسکا سپاہی سردار عثمان بزدار مخالفین کے سامنے ڈٹ کر کھڑے ہیں تو دوسری طرف وہ سب لوگ اکھٹے ہیں جو اس سے قبل آپس میں دست وگریبان تھے شہباز شریف زرداری کا پیٹ پھاڑنے اور سڑکوں پر کا وعدہ کرکے عوام سے ووٹ مانگتے تھے اور دوسری طرف سے بھی لفظوں کی گولہ باری ہوتی رہتی تھی مگر اب وہ سب آپس میں دست و گریبان نہیں بلکہ اقتدار کی منزل تک پہنچنے کیلیے ایک دوسرے کا کندھا بطور سیڑھی استعمال کررہے ہیں تحریک عدم اعتماد بھی ہونے جارہی ہے جلسے بھی ہونگے اور دھرنے بھی اس بہار کے موسم میں اتنے گرما گرم سیاسی ماحول میں بھی ہمیں او آئی سی کی خوشی کے ساتھ ساتھ ہمیں اپنے 75 ویں یوم پاکستان کی بھی خوشی ہے وزیراعظم عمران خان کی حکومت کی کامیابی ہے کہ اسے صرف تین ماہ میں دوسری مرتبہ او آئی سی وزراء خارجہ کانفرنس کے انعقادکا اعزاز حاصل ہوا کانفرنس میں تقریباً 32 وزراء خارجہ اور 700 سے زائد مندوبین شریک تھے۔ اس او آئی سی کا واضح اور دو ٹوک پیغام بھی خوشی کا ہے کہ دنیاکے ڈیڑھ ارب مسلمانوں کو کسی بلاک میں تقسیم اور تنازعات میں الجھنے کی بجائے امن کے لئے اپنی طاقت ظاہرکرنی چاہیے اور اس کیلیئے بنیادی ایشوزپر او آئی سی کو ایک متحدہ فرنٹ بنانا ہوگاکیونکہ ہم تنازعہ کے نہیں امن کے شراکت دار ہیں دنیا میں اسلام صرف ایک ہی ہے اسلامی اقدار کو جس قدر خطرات اسوقت ہیں ماضی میں نہیں تھے ان کے تحفظ کیلئے اقدامات اٹھانے چاہیے عالمی قوانین اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کی قراردادوں کے باوجود فلسطین اورکشمیر کے مسلمانوں کو ان کے بنیادی حق سے محروم رکھاجارہاہے اسلاموفوبیاکے تدارک کے لئے 15 مارچ کاعالمی دن منانے کی تاریخی قرارداد کی منظوری مسلم امہ کی بڑی کامیابی ہے 15 مارچ کو یہ دن منانے کا انتخاب اس لئے کیا کہ 15 مارچ کو ہی نیوزی لینڈ میں ایک مسلح شخص نے مسجد میں داخل ہو کر 50 مسلمانوں کو شہید کیا۔ اس کی وجہ یہ تھی کہ وہ تمام مسلمانوں کو دہشت گردسمجھتاتھا۔ نائن الیون کے بعد بد قسمتی سے ایسا بیانیہ بنایاگیاجس میں اسلا م کو دہشت گردی اور انتہا پسندی سے جوڑاگیا۔ مسلم ممالک نے اس بیانیہ کے تدارک کے لئے کچھ نہیں کیا حالانکہ اسلام کیسے دہشت گردی کے برابر ہو سکتا ہے، کوئی ملک مسلمانوں کے درمیان جدت، روشن خیالی اور انتہا پسندی کی بنیاد پرکیسے تفریق کرسکتاہے مسلم ممالک کو اس پرکھڑے ہوناچاہیے تھاتاہم ہماری اکثر ریاستوں کے اس وقت مسلم حکمرانوں نے اس پر ٹھوس موقف اختیار کرنے کی بجائے اپنے آپ کو روشن خیال اوراعتدال پسند قرار دیا جس سے بدقسمتی سے یہ تاثر بن گیاکہ اسلام میں لبرل، ماڈریٹ اور ریڈیکل مختلف قسمیں ہیں لیکن اسلام صرف ایک ہی ہے اور وہ محمد عربی خاتم النبین ﷺ کا اسلام ہے 1989 میں شیطانی آیات کے نام سے ایک مسلمان نے گستاخانہ کتاب لکھی اس کے بعد دانشورانہ رویہ اپنانے کی بجائے معذرت خواہانہ رویہ اختیارکیاگیا مسلم دنیاکی جانب سے اس حوالے سے مشترکہ طورپر جواب نہیں دیاگیا اور پھرتسلسل سے گستاخانہ مواداور کارٹون شائع کئے گئے اور اب پہلی مرتبہ یہ تسلیم کیاگیا کہ اسلامو فوبیا ایک نفرت انگیز چیز ہے پاکستان دنیا میں اسلام کے نام پرقائم ہونے والا واحد ملک ہے جس کی قرار داد مقاصد میں ریاست مدینہ کی بنیاد پر اسلامی جمہوریہ قائم کئے جانے کا تصور دیاگیا دنیا کی سب سے پہلی جدید فلاحی ریاست حضرت محمدﷺ نے بنائی انہوں نے ایک بہترین تہذیب اور اسلامی تاریخ کی بنیاد رکھی نبی پاکﷺ صرف مسلمانوں کے لئے نہیں بلکہ پوری امت کے لئے رحمت اللعالمینؐ تھے اور جن ممالک نے ریاست مدینہ کے اصول اپنائے انہوں نے خوشحالی پائی مگر اسلام کو دہشت گردی سے جوڑنے کے عمل سے سب سے زیادہ مغرب میں مسلمان متاثرہوئے وہاں ہر دہشت گردی کے بعدفوری الزام اسلام پرلگایا جانے لگا مسلم ممالک کواپنی خارجہ پالیسی میں کور ایشوزپر متفق ہو کر آگے بڑھنے کی ضرورت ہے، روس یوکرین جنگ میں اوآئی سی ثالث کاکردارادا کرسکتی ہے اس تنازعہ سے دنیا میں پٹرول اور گندم سمیت اجناس کی قیمتیں بڑھ رہی ہیں جو آنے والے دنوں میں مزید مشکلات پیدا کر سکتی ہیں اور غربت بڑھ سکتی ہے غربت کی بنیادی وجہ وائٹ کالر مجرموں کو نہ پکڑنا ہے اقوام متحدہ کی رپورٹ کے مطابق سالانہ 1.6 ارب ڈالرز ان ممالک سے نکالے جاتے ہیں ترقی پزیر ممالک میں غربت وسائل کی کمی نہیں کرپشن کے باعث ہے ہم جتنا قانون کی حکمرانی سے دور ہے اس سے زیادہ ہم تعلیم سے دور ہیں مغرب میں اپنے جانوروں کا اتنا خیال رکھا جاتا ہے جتنا ہم اپنے انسانوں کا بھی نہیں کرتے، سوئٹزرلینڈ میں قانون کی حکمرانی 99 فیصد ہے وہاں وسائل نہ ہونے کے باوجود دنیا کا خوشحال ملک ہے علم مومن میراث ہے اسلام میں اس کی اہمیت کااندازہ اس حدیث سے ہوتاہے جس میں نبی کریم ﷺ نے حکم دیاکہ علم حاصل کرو خواہ چین جانا پڑے آج ہم اس میدان میں بہت پیچھے ہے خواتین کو ان کا حق دیا جانا نبی اکرم ﷺ کی جانب سے ایک انقلابی قدم تھا۔ 1400 سال قبل خواتین کو یہ حق دے دیا گیایہ اسلام ہی تھا جہاں غلام بادشاہ بنتے تھے بھارت میں ایک پورا خاندانِ غلامہ گزرا ہے جس نے حکمرانی کی اس لیے ہمیں دنیا کا مقابلہ کرنے کے لیے قانون پر پہرا دینا ہوگا اور ساتھ ہی ساتھ تعلیم کے دروازے سب پر کھولنا ہونگے ورنہ جہالت میں تو ہم ڈوبے ہوئے ہی ہیں ۔


 

rohailakbar
About the Author: rohailakbar Read More Articles by rohailakbar: 830 Articles with 612109 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.