عمران خان کا کراچی میں پاور شو

عمران خان کا کراچی میں پاور شو
٭
ڈاکٹر رئیس احمد صمدانی
عمران خان سے لاکھ اختلاف صحیح، سابقہ اپوزیشن کی عدم اعتماد کی تحریک غلط تھی یا درست، اس کے پیچھے کیا عوامل رہے، کون کون سے قوتوں نے عمران کو گھر بھیجنے میں کیا کیاکردار ادا کیا۔ وہ سب اپنی جگہ، بہت سی باتیں ابھی صیغہ راز میں ہیں،بہت سے انکشافات وقت کے ساتھ ساتھ افشاں ہوں گے۔ لیکن یہ بات طے ہے کہ وہ چھپی نہیں رہ سکتیں، وہ سامنے آئیں گی۔ عمران خان کو رفتہ رفتہ یہ ادراک ہوچلا تھا کہ اس کی حکومت کا بچنا مشکل ہے وہ اپنے سپورٹرز کے حوصلے بلند رکھنے کے لیے یہ کہتا رہا کہ جیت اس کی ہوگی، وہ آخری گیند تک مقابلہ کرے گا اور اس نے ایسا ہی کیا۔ اس کی سوچ یہ بھی ہوسکتی ہے کہ کوئی طاقت اسے اس بھنور سے نکال لے گی۔ اس نے اتوار کی شب نماز عشاء کے بعد اپنے سپورٹرز کو گھروں سے باہر نکلنے کی کال دی۔ یہ کال اس وقت دی تھی جب اس کی حکومت کا دھڑن تختہ نہیں ہوا تھا۔ کاروئی آگے بڑھ رہی تھی۔ ہفتہ 9مئی کا دن عمران خان اور اس کی حکومت پر بہت بھاری ثابت ہوا۔ تمام تر کوششوں کے باوجود عمران خان کے خلاف تحریک عدم اعتماد قومی اسمبلی میں پیش ہوئی، عدالتیں رات گئے کھلیں اور عمران خان وزیر اعظم کے منصب پر فائز نہ رہ سکے۔
عمران خان کے سپورٹرز نے ہفتہ کی شب اور اتوار کا دن اس انتظار میں گزارا کہ کب شب ہو اور وہ اپنے قائد کے حکم پر لبیک کہیں اور سٹرکوں پر نکل کھڑے ہوں۔ ایسا ہی ہوا جو ہی افطار کے بعد رات کی تاریکی شروع ہوئی کپتان کے سپورٹرز اپنے اپنے شہروں، گاؤں اور دیہاتوں میں باہر نکل کھڑے ہوئے۔ پھر دنیا نے دیکھا، میڈیا نے وہ منظر اپنے ناظرین کو دکھایا، لوگوں کے ہاتھوں میں موبائل کی روشنی خوبصورت منظر پیش کررہی تھی، لوگوں کا ٹھاٹھے مارتا سمندر اپنے قائد کے حق میں نعرہ لگارہا تھا۔ ملک کے بڑے بڑے شہروں پشاور، لاہور، کراچی، کوئٹہ اور دیگر بڑے شہر وں کی سڑکوں پر لوگوں کے سر ہی سر۔ یہ کیسا احتجاج تھا، کیسا جوش تھا، کیسا ولولہ تھا جس میں لیڈر خود کسی بھی جگہ موجود نہیں تھا۔ اپنے قائد سے اظہار عقیدت و محبت، اس کی آواز پر لبیک کہنے کا ایسا نظارہ ہم نے آج تک نہیں دیکھا۔ جلسے جلوس بڑے بڑے ماضی میں ہوتے رہے ہیں۔ بھٹو صاحب نے بڑے بڑے جلسے کیے، پی این اے نے بھٹوں صاحب کے خلاف بڑے بڑے جلسے کیے، جلوس نکالے گئے، اصغر خان کا جلوس کراچی میں اپنی مثال آپ تھا۔ اسی طرح دھرنے بھی بڑے بڑے اور طویل ہوئے۔ وہ سب طے شدہ ان کے انعقاد کی تاریخ، وقت، جگہ،بینرز، لوگوں کو شمولیت کی باقاعدہ دعوت کا اہتمام ہوتا رہا، یہاں تک کو اپنے لوگوں کو بسوں، گاڑیوں میں بھر بھر کر لانے کی روایت بھی ہماری سیاست میں موجود ہے لیکن اتوار 10اپریل کو پاکستان کے شہروں میں نکلنے والی ریلیاں جنہوں نے جلسوں کی صورت اختیار کی اور ان میں کپتان کے چاہنے والوں کا جوش و جذبہ قابل دید تھا اور یہ نوید بھی سنا رہا تھا کہ اگر کپتان نے اپنے سپوٹرز کے اس جذبہ کو قائم رکھا تو اگلی باری کپتان کی ہی ہوگی اور ہونی بھی چاہیے جس کے سپورٹر اتنی بڑی تعدادمیں ہوں اسے اقتدار میں آنے سے کوئی نہیں روک سکتا۔یہ تو قابل ذکر نظارہ پاکستان میں تھا، اسی دن، اسی وقت دنیا کے کئی ممالک میں بھی کپتان کے سپوٹرز اپنے شہروں میں کپتان سے اظہار محبت اسی انداز سے کر رہے تھے۔ وہاں بھی وہی جوش وہی جذبہ دیکھنے کو ملا۔
اتوار کے شو کے بعد پشاور میں کپتان نے اپنی قوت کا مظاہرہ کیا وہ بھی قابل دید تھا۔ خیبر پختونخواہ کے لوگوں کو ٹھاٹے مارتا سمندر، رات کی تاریکی میں موبائل کی لائیٹس عجب حسن بکھیر رہی تھیں۔ پشاور کا جلسہ اس اعتبار سے منفرد تھا کہ حکومت سے فارغ ہوجانے کے بعد اپنے چاہنے والوں سے اس کا پہلا انٹر ایکشن تھا۔ اس میں اس نے وجوہات، اسباب اور حالات و واقعات کی تفصیل لوگوں کے سامنے رکھی۔ پاور شو کا دوسرا باقاعدہ جلسہ کراچی میں 16اپریل کی شب کو منعقد ہوا۔ اہل کراچی بھی خوب ہیں انہوں ایوب خان کے مقابلے میں مادر ملت کو اپنا رہنما بنایا۔ بھٹو کے مقابلے میں نو ستاروں کو اہمیت دی، اس وقت جب کے پورے پاکستان میں بھٹو کا طوطی بول رہا تھا کراچی سے بھٹو کو چند سیٹیں ہی ملیں تھی۔ پھر ایم کیو ایم کو ایسی پذیرائی بخشی کہ یہ جماعت آج بھی ٹوٹ بھوٹ کا شکار ہوجانے کے باوجود سیاست کے میدان میں کلیدی کردار ادا کرتی ہے۔ عمران خان کی حکومت کے خاتمے میں متحدہ اپوزیشن کے ساتھ ایم کیو ایم کا مل جانا گویا حکومت کے دھڑم تختے کا باعث ہوا۔ جس پر خالد مقبول صدیقی کا تبصرہ تھا کہ ”تم نے ہمارے 16سیٹیں چھینی ہم نے تمہاری حکومت چھین لی“۔ اب 16تاریخ ہی کو کراچی کے عوام نے اپناسیاسی فیصلہ دو ٹوک الفاظ میں سنا دیا ہے۔ جلسہ کے شرکاء، نظم و ضبط قابل تعریف تھا۔ کسی بھی قسم کی بدنظمی، انتشار، توڑ پھوڑ نہیں ہوئی۔ اپنے لیڈر سے یکجہتی کے اس احتجاج میں عورتیں، بچے اور بوڑھے بھی شامل تھے لیکن کوئی غیر اخلاقی واقعہ سامنے نہیں آیا۔ جلسوں میں نظم و ضبط، شائستگی تو اہل کراچی کا طرہئ امیتاز ہے۔ یہ عمران خان کے جلسہ میں بھی سامنے نہیں آیا اس قبل ایم کیو ایم کے جلسوں میں اس کا عملی مظاہرہ سامنے آتا رہا ہے۔
جہاں تک اس بات کا تعلق ہے کہ کپتان نے کراچی کے جلسہ میں کیا کہا؟ تو اس نے وہی باتیں دھرائیں جو وہ پشاور کے جلسہ میں کہہ چکا تھا۔ البتہ افواج پاکستان کی جانب سے میجر جنرل بابر افتخار کی پریس بریفنگ سے بہت سے ابہام دور ہوگئے۔بنیادی بات جو اپوزیشن کے کئی لیڈر کہہ چکے تھے کہ خط نام کی کوئی چیز نہیں، یہ خود ساختہ قسم کی کوئی چیز ہے۔ اس کی وضاحت آئی ایس پی آر کے ڈایریکٹر نے بہت واضح الفاظ میں بیان کردی۔ آئی ایس پی آر کے ڈایریکٹر کی وضاحت کئی اعتبار سے عمران خان کے حق میں جاتی ہیں البتہ انہوں نے واضح الفاظ میں کہا کہ ”قومی سلامتی اعلامیہ میں سازش کا لفظ نہیں“۔ سازش اور مداخلت میں جھگڑا ہے۔ وقت بتائے گا۔ سر دست تو نومولود حکومت وزارتوں کی تشکیل میں ہاتھ پیر مار رہی ہے۔ دوسری جانب پنجاب اسمبلی میں جو کچھ ہوا، انتہائی افسوس ناک ہے۔ وفاق میں ابا جان نے تو کسی خون خرابے کے بغیر اقتدار حاصل کر لیا لیکن بیٹے صاحب نے اپنی جوانی مستانی کے جوہر خوب خوب دکھائے۔ آگے آگے دیکھئے ہوتا ہے کیا، ابھی تو ابتدائے عشق ہے، حکومت سے عشق کب تک قائم رہتا ہے، عمران خان کا سیاسی درجہ حرات کب نو مولود حکومت کو نئے انتخابات پر آمادہ کرتا ہے۔ عمران خان کی حکومت میں اپوزیشن کا یہ نعرہ ہوا کرتا تھا کہ قبل از وقت انتخابات لیکن اب جب خود کو اقتدار مل گیا تو انتخابات کے قبل از وقت کے نام سے ایوانوں میں، راہداریوں میں لرزا آنے لگتا ہے۔ کانپیں ٹانگنے لگتی ہیں۔ حکومت ملے ابھی وقت ہی کتنا ہوا ہے، کچھ تو اقتدار کے مزے لینے چاہیے، آخر بڑی تگ و دو کے بعد، کوششوں اور مل ملاکر یہ مقام حاصل ہوا ہے۔ عمران کو آخر اتنی جلدی کیا ہے؟ تین سال سے زیادہ اقتدار بہت ہوتا ہے۔ اس نے ساڑے تین سال میں کیا کچھ غلط کیا، اچھا کیا کیا، اس کا موازنہ کرے، جو نہیں کر سکا، اس کی منصوبہ بندی کرے، قابل، تجربہ کار ٹیم بنانا اولین ترجیح ہونی چاہیے، سر دست ٹیم میں کوئی فرق نہیں پڑا، ٹیم ابھی بھی وہی ہے۔ اگر فوری انتخابات ہوگئے، اقتدار مل بھی گیا تو کیا وہی نا اہل، مانگے تانگے کی ٹیم سے گزارا ہوگا، اگر ایسا ہوا تو دوبارہ بھی حکومت کا وہی حال ہوگا جو اب ہوا ہے۔ شکر مناؤ تمہیں نکال دیا گیا اور وہ تمام باتیں جو اصل میں تمہاری پرفارمنس کے حوالہ سے ہونا تھیں، بیڈ گورنیس کے حوالے سے ہونا تھیں، مہنگائی کے حوالے سے ہونا تھیں، بے روزگاری کے حوالے سے ہونا تھیں، ان سب سے عمران کی جان چھوٹ گئی۔ اپوزیشن کو اقتدار مل گیا وہ اس میں مست ہوگئیں۔ اگر عمران خان انتخابات کا اعلان کردیتا تو مخالفین نے وہ باتیں کرنا تھیں جو اوپر بیان کی ہیں۔ عمران قسمت کا دھنی ہے، اپوزیشن سر دست انتخابات کے موڈ میں نہیں۔ کچھ وقت گزرجانے کے بعد پریشر اتنا بڑھ جائے کہ حکومت مجبور ہوجائے تو ممکن ہے کہ حکومت گھٹنے ٹیک دے، یا پھر بھان متی کے اس کنبے میں پھوٹ پڑجائے، جس کے آثار زیادہ ہیں۔ انتخابات جب بھی ہوں گے ہر جماعت الگ الگ الیکشن لڑے گی، خاص طور پر نون لیگ، پیپلز پارٹی، مولانا صاحب۔ اس میں عمران خان کا پلڑا بھاری ہوگا۔ اس لیے کہ اپوزیشن کم وقت میں بیڈ گورنیس اور بہت سے منفی باتیں اپنی جھولی میں ڈال چکی ہوگی، جنہیں عمران خان خوب ا چھالے گا، حکومت سے نکال دینے والا بیانیہ تو اپنی جگہ ہوگا ہی۔ موجودہ انتشار، اقتدار کا حل تو انتخابات ہی ہیں وہ جس قدر جلد ہوجائیں پاکستان کے لیے بہتر ہے۔ یہ ہی مسائل کا حل ہے۔ پرامن، صاف و شفاف انتخابات۔(18اپریل 2022)
Prof. Dr Rais Ahmed Samdani
About the Author: Prof. Dr Rais Ahmed Samdani Read More Articles by Prof. Dr Rais Ahmed Samdani: 852 Articles with 1279107 views Ph D from Hamdard University on Hakim Muhammad Said . First PhD on Hakim Muhammad Said. topic of thesis was “Role of Hakim Mohammad Said Shaheed in t.. View More