اتر پردیش کے گورکھناتھ مٹھ کو فی زمانہ سومنات مندر کی
حیثیت حاصل ہے کیونکہ وزیر اعلیٰ اترپردیش یوگی ادیتیہ ناتھ اس کے مہنت (بڑے
پجاری) ہیں ۔ اس مندر میں اتوار (3؍ اپریل ) کی شام تقریباً7بجے ا ایک شخص
مین گیٹ پر تعینات سیکورٹی اہلکار پردھار دار ہتھیار سے حملہ کرکے مندر
احاطے میں داخل ہونے کی کوشش کرتا ہے لیکن اس کی خبر دس بجے کے بعد دینک
جاگرن جیسے وفادار اخبار میں ا ٓتی ہے۔اس حیرت انگیز تاخیر کی وجہ اس کو
دئیے جانے والے زاویہ فیصلہ دیری رہا ہوگا ۔ اتفاق سے اس واقعہ کو وہاں لگے
کیمرے کی آنکھ نے فلمبند کرلیا۔ اس کی ویڈیو میں اس شخص کو مذہبی نعرہ (اللہ
اکبر) لگاتے سنا جاسکتا ہے۔ ویڈیو کے اندر وہاں جمع بھیڑ حملہ آورپر
پتھراؤ کرتی دکھائی دیتی ہے ۔ آگے چل کر اسے قابو میں کرلیا جاتا ہے اور
وہ زخمی ہوکر زمین پر گرجاتا ہے اس کے بعد پولیس اسے گرفتارکرلیتی ہے۔
اس واردات پرپہلا سوال یہ پیدا ہوتا ہے وہ جنونی کون تھا ؟ وہ گورکھپور کے
سول لائن کا رہنے والا مرتضیٰ عباسی ہے ۔ وہ کوئی پیشہ ور مجرم نہیں بلکہ
ملک کے معروف تعلیمی ادارے انڈین انسٹی ٹیوٹ آف ٹیکنالوجی (ممبئی) سے سال
2015 کا گریجویٹ ہے۔پولیس نے اس کے قبضے سے ایک لیپ ٹاپ،فون اور ٹکٹ برآمد
کرنے کا دعویٰ کیا ہے۔ گورکھناتھ مندر میں چونکہ وزیر اعلی یوگی آدتیہ
ناتھ کی رہائش بھی ہے اس لیے سیکورٹی اہلکار وں پر جنونی حملے کی جانچ کا
کام یوپی اے ٹی ایس کو سونپ دیا گیا ۔چیف سکریٹری کے ساتھ ایک مشترکہ پریس
کانفرنس میں اڈیشنل ڈائرکٹر جنرل آف پولیس(نظم ونسق)پرشانت کمار نے مرتضی
عباسی کے گورکھناتھ مندر میں تعینات سیکورٹی فورسز پر حملہ کرنے اور مذہبی
نعرے لگانے کی تصدیق کی ۔ اس موقع پر دو پی اے سی جوانوں گوپال گور اور انل
پاسوان اور ایک پولیس اہلکار آزاد پاسوان کے زخمی ہونے کی بھی خبر دی گئی
۔
تفتیش کے آغازہی میں اڈیشنل چیف سکریٹری اونیش اوستھی نے اعلان فرما دیا
کہ مذکورہ حملے کے دہشت گردانہ زاویہ کو نظر انداز نہیں کیا جاسکتا ہے ۔
انہوں نے ملزم کے قبضے سے برآمد ہونے والی چیزوں سے کسی بڑی سازش کی کوشش
کے شبہ کا اظہار کردیا۔ اے ڈی جی انسداد دہشت گردی (اے ٹی ایس) اور اے ڈی
جی اسپیشل ٹاسک فورس(ایس ٹی ایف) نے گورکھپور پہنچ کر تفتیش ابتدائی مرحلہ
میں ہی ملزم کے قبضے سے کئی حساس دستاویزات برآمد ہونے کا انکشاف
کردیا۔وزیر اعلی نے اس حملے میں زخمی پی اے سی جوان اور پولیس اہلکار کے
لئے پانچ لاکھ روپئے کے انعام کا اعلان بھی کروا دیا ۔ انہیں کی ہدایت پر
معاملے کی تحقیق کے لئے اے ٹی ایس اور ایس ٹی ایف کویہ ذمہ داری سونپی گئی
اور لیپ ٹاپ و موبائل سے فراہم تفصیلات کی باریکی سے جانچ کا کام شروع
کروایاگیا ۔افسران ان افراد کی نشاندہی کرنے میں جٹ گئے جن سے مرتضی کے
تعلقات ہیں اور یہ پتہ لگانے میں مصروف ہیں کہ اس نے بیرون ملک کا سفر بھی
کیا ہے یا نہیں؟ اس مشق کا مقصد یہ معلوم کرنا ہے کہ کہیں یہ کسی بڑی سازش
کا حصہ تو نہیں ہے ؟
وزیر اعلیٰ کی رہائش گاہ پر حملہ سنگین معاملہ ضرور ہے لیکن ایسی ہی ایک
علیٰ لاعلان کوشش بی جے پی کے رکن پارلیمان تیجسوی سوریہ نے اپنے پچھلے
دنوں دہلی میں وزیر اعلیٰ اروند کیجریوال کے گھر پر بھی کی تھی ۔ اپنے
ہمنواوں کے ساتھ انہوں نے وہاں موجود حفاظتی بیریکیڈ اور کیمروں کو توڑ دیا
تھا ۔ نائب وزیر اعلیٰ منیش سسودیہ نے اسے وزیر اعلیٰ کے قتل کی منصوبہ بند
سازش قرار دیا تھا مگر اس کے لیے نہ ایس آئی ٹی بنائی گئی اور نہ ایس ٹی
ایف کا قیام عمل میں آیا۔ دکھاوے کے لیے تیجسوی سوریہ کو گرفتار کرنے کے
بعد رہا کردیا گیا۔ کوئی بیرونی سازش تو دور تیجسوی کے ذہنی توازن کا پتہ
لگانے کی بھی سعی نہیں کی گئی ۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ جس طرح ایک آزاد
ملک میں تمام شہریوں کے حقوق یکساں ہوتے ہیں اسی طرح کیا تمام وزرائے اعلیٰ
کا درجہ برابر نہیں ہوتا ؟ کیا ان کے ہاتھ میں کمل یا جھاڑو دیکھ کر تفریق
و امتیاز کیا جاتا ہے؟
گورکھپور کے واقعہ سے قبل 27؍ مارچ کو بہار کے وزیر اعلیٰ نتیش کمار پر بھی
پٹنہ سے قریب ان کے آبائی علاقے بختیار پور میں ایک شخص نے حملہ کردیا۔
نتیش کمار کی کرسی فی الحال خطرے میں ہے ۔ انہیں ایوان بالہ کا رکن بناکر
دہلی لانے کی سازش چل رہی ہیں اس لیے عوام میں اپنی مقبولیت بڑھانے کے لیے
وہ فی الحال’جن سمواد(عوامی رابطہ) یاترا‘ پر ہیں۔ وہ ان بارہ پارلیمانی
حلقہ کے کارکنوں سے ملاقات کررہے ہیں جہاں سے جے ڈی یو کے ارکان کامیاب
ہوئے تھے تاکہ آئندہ بھی ووٹ مل سکے۔ اسی سلسلے میں انہوں نے دھنروا کے
ساسونا گاؤں پہنچ کر لوگوں کے مسائل سنے۔اس دوران بہت سارے لوگوں نے زمین
جائیداد سے متعلق تنازعات کے حل میں پیش آنے والی مشکلات سے انہیں باخبر
کیا۔ اس کے علاوہ مقامی لوگوں نے دھنروا کے سائی اسپورٹس گراؤنڈ میں
اسٹیڈیم، کیندریہ ودیالیہ اور شہادت نگر میں شہید کے نام پر سڑک بنانے کا
مطالبہ بھی کیا۔
اس موقع پر وزیر اعلیٰ نے سوچا ہوگا کہ سڑک تو جب بنے گی تب بنے گی کیوں نہ
بہار سے جدوجہد آزادی میں حصہ لینے والے جنگجو شلبھدر کے مجسمہ پر پھول
چڑھا کر کچھ شہرت بڑھائی جائے ۔ اسی چکر میں وزیر اعلیٰ نتیش کمار وہاں
پہنچے تو حملہ آور نے اچانک پلیٹ فارم پر چڑھ کر پیچھے سے انہیں گھونسا
رسید کردیا۔ وزیر اعلیٰ کے ذاتی حفاظتی دستے نے اسے ایک طرف کھینچ کر پولیس
کے حوالے کردیا۔ حد تو یہ وزیر اعلیٰ کے حامیوں نے اس پر ہاتھ صاف کرنے کی
زحمت بھی گوارہ نہیں کی۔ پولس کی ابتدائی تفتیش میں بتایا گیا ہے کہ نوجوان
ذہنی طور پر معذور ہے۔ اس طرح گویا معاملہ رفع دفع کردیا گیا ۔ پولیس نے
اسے گرفتار کرکے حملے کی وجہ دریافت تو کی مگر نہ اس کا نام ذرائع ابلاغ
میں آیا اور نہ حملے کے تانے بانے دہشت گردی سے جوڑے گئے۔ اس کو کہتے ہیں
بختیار پور اور گورکھپور کا فرق ؟ جہاں سیاسی فائدہ اٹھانا ہو تو وہاں
معاملہ مختلف اور نہیں تو رویہ بالکل برعکس ۔
گورکھپور کے معاملے میں ملزم احمد مرتضیٰ اور اس کے اہل خانہ سے پولس پوچھ
گچھ تو کررہی ہے لیکن اسے دہشت گردانہ سازش سے جوڑنے کی منصوبہ بند کوشش
صاف دکھائی دیتی ہے۔ پولس کا بار باریہ کہنا کہ حملہ آور اور اس سے جڑے
لوگوں کو بخشا نہیں جائے گا اس بات کا اشارہ ہے کہ انتظامیہ کے ارادے ٹھیک
نہیں ہیں ۔ پولس کے مطابق مرتضیٰ گول مول جواب دے رہا ہےاور اس کے اہل خانہ
کوئی طبی ثبوت نہیں دے پائے ہیں حالانکہ یہ دونوں باتیں خلافِ حقیقت ہیں۔
معروف اخباردینک جاگرن کے مطابق گرفتاری سے قبل احمد نے وہاں موجود لوگوں
سے کہہ دیا تھا کہ وہ شادی شدہ ہے۔ بیوی کےچھوڑ کرچلے جانے اور بیروز گاری
کے سبب وہ سو نہیں پارہا تھا اس لیے چاہتا تھا کہ کوئی اس کو گولی مار کر
ہلاک کردے ۔ اسی لیے اس نے پولس پر حملہ کیا لیکن پولس اس پر یقین کرنے کے
لیے تیار نہیں ہے۔ اس کو دہشت گردانہ کنکشن جوڑنے کی جو ذمہ داری سونپی گئی
ہے وہ اس میں مصروف ِ عمل ہے۔
احمد مرتضیٰ عباسی کے والد منیر عباسی نے معروف ٹی وی ’آج تک‘ سے بات چیت
میں اتر پردیش پولیس کے دہشت گردی والے زاویہ کو مسترد کردیا ۔ انہوں نے
اپنےبیٹے کو ذہنی مریض قرار دیتے ہوئے کہا کہ وہ بچپن سے ہی بیمار تھا ۔ اس
کی وجہ سےوہ سمجھ نہیں سکے، لیکن 2018 تک اس کی بیماری نے خوفناک شکل
اختیار کرلی۔منیر عباسی نے بتایا کہ 'نوکری کے دوران بھی وہ مہینوں بغیر
اطلاع کے کمرے میں پڑا رہتا تھا۔ پولس کے بیان کی تردید میں انہوں نے کہاکہ
جام نگر اور احمد آباد میں بھی اس کا علاج کروایا جا چکا ہے۔ ذہنی عدم
استحکام کے سبب وہ اکیلا نہیں رہ سکتاہے ۔ وہ اپنے والد کے ساتھ ممبئی میں
رہتا تھا مگر اکتوبر 2020 میں جب وہ لوگ گورکھپور واپس آگئے تو وہ ان کے
ساتھ ایک ہی کمرے میں سونے لگا ۔مرتضیٰ کے والد منیر عباسی نے یہ بھی بتایا
کہ وہ اپنا فلیٹ کرایہ پر اٹھانے کے لیے28 مارچ کو ممبئی گئے تھے ۔ 2؍
اپریل کولو ٹنے کے ایک دن بعد یہ سانحہ رونما ہوگیا۔
منیر عباسی نےایک نہایت سنسنی خیز انکشاف یہ کیا کہ 2؍ اپریل کی شام سادہ
لباس میں2؍ افراد نے ان کے گھر آکر کہاکہ ان کے پاس عدالت کا سمن ہے۔ ڈیل
ڈول سے وہ لوگ اے ٹی ایس کے آدمی لگتے تھے ۔ ان کی زبانی 36؍ لاکھ کے سمن
کا ذکر سن کر احمد مرتضیٰ ڈپریشن میں چلا گیا۔ اس کے پاس نہ کار ہے نہ
اسکوٹر، تو اسے قرض کون دے گا؟ پولس کو چاہیے کہ ان لوگوں کا پتہ لگائے کہ
جنہوں نے احمد مرتضیٰ سے ملاقات کرکے یہ بات کی تاکہ سازش کا سراغ مل سکے۔
پولس نے لیپ ٹاپ کا جو ہواّ کھڑا کررکھا ہے اس سے متعلق منیر عباسی نے
وضاحت کی کہ 'احمد مرتضیٰ عباسی نے کئی مہینوں سے لیپ ٹاپ نہیں چلایا‘۔
منیر عباسی یہ ماننے کے لیے تیار نہیں ہیں ان کا بیٹا دہشت گرد بن گیا۔ ان
کی معقول دلیل یہ ہے کہ اگر وہ دہشت گرد ہوتا تو بندوق لے کر جاتا۔ وہ اس
بات کو ضرور تسلیم کرتے ہیں ان کے بیٹے نے اچھا نہیں کیا لیکن انہیں خوشی
ہے کہ وہ زندہ ہے لیکن چونکہ ذہنی طور پر مستحکم نہیں ہے اس لیے حکومت سے
ہمدردی کا معاملہ کرنے کی درخواست کرتے ہیں۔ منیر عباسی کا مطالبہ درست ہے
مگر جس وزیر اعلیٰ نے برسوں تک ڈاکٹر کفیل خان پر مظالم ڈھائے اس سے اس کی
توقع کرنا بے سود ہے۔ فی الحال تو ایسا لگتا ہے کہ یوپی سرکار اس کا سیاسی
فائدہ اٹھانے پر تُلی ہوئی ہےورنہ بختیار پور یا دہلی کی طرح اسے بھی رفع
دفع کردیا جاتا۔
|