کشمیر فائلز کا خمار ٹوٹ رہا ہے۔ اس فلم کی تشہیر
کے لیے پہلے تو وزیر اعظم سے لے کر وزیر داخلہ کی خدمات حاصل کی گئیں ۔ اس
کے بعد یکے بعد دیگرے بی جے پی وزرائے اعلیٰ میدان میں اترے اور اسے ٹیکس
فری کرکے ہدایتکار اور دیگر فنکاروں کے ساتھ تصویریں کھنچوا کر اسے سب سے
بڑا دھرم یدھ قرار دیا۔ عوام جب اس سے اوب گئے تو دوسری بلاواسطہ خبریں
چلنے لگیں مثلاً انوپم کھیر کی اہلیہ کرن کھیراپنے بیٹے کے گود میں بیٹھ
گئیں۔ خبر کے اندر انوپم کھیر کے بیٹے کا نہ نام تھا اور نہ تصویر بس کرن
کھیرکا یہ بیان لکھا تھا چونکہ وہ اپنے بیٹے کو بچپن میں گود میں لیتی تھیں
اس لیے انہوں نے ایسا کیا ۔ اس کے ساتھ تفصیل سے درج تھا کہ انوپم کھیر کی
فلم کشمیر فائلزکامیابیوں کی بلندیاں چھو رہی ہے وغیرہ وغیرہ ۔ تشہیر کے
لیےایسی اوٹ پٹانگ خبریں ہر روز شائع ہوتی ہیں اس کے باوجود 25 ویں دن اس
کی کمائی گھٹ کر ایک کروڈ پر آگئی اور اس کا جملہ عالمی کاروبار331 کروڈپر
جاکر اٹک گیا۔ اس کے 13دن بعد آنے والی آر آر آر نے 12دن کے اندر ایک
ہزار کروڈ کے قریب پر پہنچ گئی ۔ یہ سب کچھ بغیر کسی نفرت انگیزی اور سیاسی
آشیرواد کے ہوگیا اس لیے فلمسازوں کو سوچنا ہوگا کہ پیسے کمانے کے لیے
سیاست اور نفرت کی چنداں ضرورت نہیں ہے۔
کشمیر فائلز کی گرتی مقبولیت کو سنبھالنے کے لیے گزشتہ ہفتہ رکن پارلیمان
تیجسوی سوریہ پولیس کی بس کے چھت پر چڑھ کر کیجریوال کی رہائش گاہ پر
احتجاج کیا ۔ شاہ جی کا اگر آشیرواد نہ ہوتو کیا ایسا کرنا ممکن تھا ؟ اس
مظاہرہ کے دوران گھر کے دروازے کو لال رنگ سے پینٹ کیا گیا ہے۔ بی جے پی
رکن پارلیمان نے اس حرکت کی یہ وجہ بتائی کہ وہ کیجریوال کو کشمیری پنڈتوں
کی نسل کشی یاد دلانے کی خاطر سڑکوں پر اترے ہیں۔ تیجسوی سوریہ نے مطالبہ
کیا کہ ’’اروند کیجریوال کو اس ملک کے ہندوؤں سے معافی مانگنی چاہیے۔ یہ
احتجاج اس وقت تک جاری رہے گا جب تک ہمیں معافی نہیں ملتی۔‘‘ سوال یہ ہے کہ
مسئلہ اگر کشمیری پنڈتوں کا ہے تو ہندووں سے کیوں معافی مانگی جائے اور اس
کام کے لیے خود کشمیری پنڈت یا ان کی کوئی نمائندہ تنظیم میدان میں کیوں
نہیں آئی ؟ تیجسوی میدان میں کیوں کودے؟اس کا جواب عآپ رہنما راگھو چڈھا
نے اپنے ٹوئٹ میں اس طرح دیا کہ ’’عزت مآب وزیر اعلیٰ اروند کیجریوال جی
کی رہائش گاہ پر بی جے پی کے غنڈوں کے ذریعہ کیا گیا حملہ بے حد قابل مذمت
ہے۔ پولیس کی موجودگی میں ان غنڈوں نےبیریکیڈ توڑے، سی سی ٹی وی کیمرا
توڑا۔ پنجاب کی شکست کی بوکھلاہٹ میں بی جے پی والے اتنی گھٹیا سیاست پر
اتر گئے۔‘‘
اس پیغام کے آخر میں پنجاب کی شکست ذکر ساری کہانی کھول دیتا ہے۔ جموں میں
اپنے آپ کو اسی طرح کی شکست سے بچانے کی خاطر بی جے پی یہ کھیل تماشا
کررہی ہے۔ دہلی کے نائب وزیر اعلیٰ منیش سسودیا تو راگھو چڈھا سے دو قدم
آگے نکل گئے ۔ انہوں نے یہ الزام لگا دیا کہ پنجاب میں عام آدمی پارٹی کی
جیت اور اپنی ہار کے بعد بی جے پی اروند کیجریوال کو قتل کرنا چاہتی ہے۔ ان
کے مطابق بی جے پی کے غنڈے نےوزیر اعلیٰ کیجریوال کی رہائش میں جبراً داخل
ہوکر سی سی ٹی وی کیمرے توڑ کروہاں لگی بندشوں کو اس لیےمسمار کردیا کیونکہ
وہ کیجریوال کو نہیں ہرا سکتی، اسی لئے وہ ان کو قتل کرنے کی کوشش کر رہے
ہیں۔ سسودیہ نے اسے قتل کی منصوبہ بند کوشش قرار دیا۔ انہوں نے الزام لگایا
کہ پولیس جان بوجھ کر حملہ آوروں کو اروند کیجریوال کے گھر لے گئی۔ بوم
بیریئر توڑا، اس معاملے میں وہ لوگ خطرناک کھیل کھیل رہے ہیں۔ سیاست ایک
بہانہ ہے، یہ سیدھا مجرمانہ معاملہ ہے۔ سسودیہ کا سوال معقول ہے کہ کیا
غنڈے اس طرح کسی وزیراعلیٰ کے گھر پہنچ سکتے ہیں؟
اروند کیجریوال مزاجاً اب بھی بنیا ہیں ۔ انہیں پتہ ہے کہ پانی کہاں مرتا
ہے اور چوٹ کہاں لگتی ہے۔ اسی لیے دہلی ایوان اسمبلی میں بجٹ اجلاس کے
دوران اپنے خطاب میں انہوں نے متنازع فلم دی کشمیر فائلز کو بی جے پی کی
جانب سے ٹیکس فری قرار دینے پر بی جے پی سرکاروں کو آڑے ہاتھوں لیا ہے اور
کہا ہے کہ بی جے پی کے لوگ کیوں کشمیر فائلز کو ٹیکس فری قرار دینے کا
مطالبہ کررہے ہیں۔ اس کے بعد انہوں نے سوال کیا آپ ٹیکس فری کیوں کرارہے
ہو وویک اگنی ہوتی کو بول دو یوٹیوب پر ڈال دے گا سب فلم دیکھ لیں گے اور
فری ہی فری ہوجائے گی۔انہوں نے بی جے پی کو چیلنج کیا کہ وہ کشمیر فائلز
یونٹ سے بات کر کے اسے یوٹیوب میں اپ لوڈ کروائے ۔ انہوں نے کہا کہ بی جے
پی کشمیری پنڈتوں کے نام پر سیاست کر رہی ہے جو کہ اچھا عمل نہیں ہے۔
کشمیری پنڈتوں کو کاروبار کے لیے استعمال کرنا شرمناک ہے۔ اروند کیجریوال
نے کہا کہ بی جے پی لیڈرس فلم یونٹ سے زیادہ کشمیر فائلز فلم کی تشہیر کر
رہے ہیں۔
کشمیر فائلز کے بارے میں اروند کیجریوال کا ذہن بالکل صاف ہے۔ ان سے کسی ٹی
وی چینل پر پوچھا گیا کہ اس سے قبل وہ ’نِل بٹا سناٹا‘ اور ’سانڈ کی آنکھ‘
جیسی فلموں کا ٹیکس معاف کرچکے ہیں تو اس فلم کے ساتھ وہی سلوک کرنے میں
کیا دقت ہے؟ اس پر ان کا جواب تھا ’کشمیری پنڈتوں پر آج سے 32؍ سال قبل
مظالم ہوئے لیکن سوال یہ ہے کہ اس عرصے میں حکومت نے کیا کیا؟ پچھلے آٹھ
سالوں سے یہ سرکار برسرِ اقتدار ہے اس نے کیا کیا؟ اروند کیجریوال نے آگے
کہا کہ آپ کسی بھی کشمیری پنڈت سے پوچھیں کہ وہ کیا چاہتا ہے؟ اس کا جواب
ہوگا کہ وہ باز آبادکاری چاہتا ہے۔ اس کی اس خواہش کے جواب میں سرکار نے
ایک فلم بنوادی اور کہا کہ یہ دیکھو ۔ کیجریوال کے خیال میں اس طرح
کشمیریوں کے مسئلہ پر سیاست کرنا دراصل بہت گندی بات ہے۔ اس جواب میں نہ تو
مدافعانہ رخ اپنایا گیا اور نہ بی جے پی کو کوئی ایسا موقع نہیں دیا گیا کہ
جس کا فائدہ اٹھا کر وہ پلٹ وار کرسکے ۔ سیاست اس طرح سے کی جاتی ہے کہ
مخالف لاجواب ہوجائے۔ اس کو جھولا اٹھا کر بھاگنے کے سوا کوئی اور موقع نہ
ہو۔ سچ تو یہ ہے کہ حکومت کو کشمیری پنڈتوں کی باز آبادکاری کے بجائے اپنی
سرکار بچانے اور کسی طرح جموں کشمیر کا صوبائی انتخاب میں جیت درج کرانے کی
فکر لاحق ہے۔
دہلی کےنائب وزیر اعلیٰ منیش سسودیا نے بھی عام آدمی پارٹی اور بی جے پی
کے درمیان کا فرق واضح کرتے ہوئے کہا کہ ’’وہ صرف 'کشمیر فائلز' اور ہم
کشمیری پنڈتوں کے دکھ اور ان کی فلاح کی بات کرتے ہیں ‘‘۔ انہوں نے بی جے
پی کی مرکزی حکومت سے کشمیری پنڈتوں پر جھوٹی سیاست کرنے کے بجائے ان کی
بہتری کے لیےتین مطالبات کیے۔ پہلا تو یہ بے گھر افراد کی بازآبادکاری کی
جائے، دوسرے اس فلم کی آمدنی سے کشمیری پنڈتوں کی فلاح و بہبود کے لیے 200
کروڑ روپے خرچ کیے جائیں اور یوٹیوب پر 'دی کشمیر فائلز' ڈال دیا جائے تاکہ
پورا ملک کشمیری پنڈتوں کے دکھ درد سے واقف ہو سکے۔نائب وزیر اعلی منیش
سسودیا کا تیسرا مطالبہ گوکہ مناسب نہیں ہے کیونکہ نفرت کے زہر کو پھیلنے
کا زبردست موقع مل جائے گا لیکن یہ سیاست اس لیے کھیلی جارہی ہے تاکہ بی جے
پی یہ بہتان تراشی نہ کرسکے کہ عآپ کشمیری پنڈتوں کے خلاف ہے اور نہ فلم
کی مخالف ہے۔ اس کے پیچھے یہ یقین بھی کارفرما ہوسکتا ہے وویک اگنی ہوتری
یا بی جے پی کسی قیمت پر اس سونے کے انڈے دینے والی مرغی کو یو ٹیوب پر ذبح
نہیں کرے گی۔ جو ہدایتکار پندرہ کروڈ کی لاگت والی فلم پر دو سو کروڈ سے
زیادہ کمانے کے بعد یہ کہتا ہو کہ جب کمائی ہوگی تو کشمیریوں کا تعاون کیا
جائے اس سے کیا توقع کی جائے۔ اس سے کشمیریوں کے تئیں اگنی ہوتری کی
پاکھنڈی ہمدردی ظاہر ہوتی ہے۔
کشمیر فائلز پر بدنامِ زمانہ کرنی سینا کے صدر سورج پال امّو نے بھی وویک
اگنی ہوتری کے سامنے یہ شرط رکھی کہ جب تک فلم کی کمائی کا 50 فیصد حصہ
مظلوم کشمیری پنڈتوں کو نہیں دیا جاتا تب تک کرنی سینک یہ فلم نہیں دیکھیں
گے۔یہ بات کرنی سینا صدر نے ہدایت کار کی تعریف ک ے بعد کہی۔ سورج پال کے
مطابق وویک نے ’دی کشمیر فائلس‘ میں کشمیری پنڈتوں کے قتل عام اور ہجرت سے
جڑے پہلوؤں کو دکھا کر بہادری کا کام کیا ہے۔ انہوں نے فلم کے ٹیکس فری
ہونے پر بھی خوشی کا اظہار کیا لیکن مظلوم کشمیری پنڈتوں کی مدد کے لیے فلم
کی کمائی کا نصف حصہ عطیہ پر اڑے رہے۔ مدھیہ پردیش کے آئی اے ایس عہدیدار
نیاز خان نے ہندوستان کے کئی ایک ریاستوں میں مسلمانوں کے قتل عام پر بھی
فلم بن نے کا مطالبہ کیا تاکہ مسلمانوں کا درد اور تکلیف باشندوں کے سامنے
لایا جاسکے ساتھ ہی اس فلم سے ہونے والی کمائی کو کشمیری پنڈتوں کے بچوں کی
تعلیم اور کشمیر میں ان کیلئے گھروں کی تعمیر میں خرچ کرنے کا مشورہ دیا ۔
اس بیان کے جواب میں پر وویک اگنی ہوتری نے نیاز خان سےتبادلۂ خیال کیلئے
ملاقات کا وقت بھی مانگا لیکن ایک پیسہ مدد کا اعلان نہیں کیا۔
بی جے پی اور اگنی ہوتری تو صرف سیاسی اور معاشی فائدہ اٹھا رہے ہیں اس لیے
منیش سسودیہ نے 32 سال سے کشمیری پنڈتوں کے نام پر سیاست کی روٹیاں سینکنے
والے زعفرانیوں سے کہا کہ وہ کشمیریوں کے لیے کیسے کام کیا جاتا ہے یہ سبق
اروند کیجریوال سے سیکھے ۔ نائب وزیر اعلیٰ نے انکشاف کیا کہ کشمیری بے گھر
اساتذہ 25 سال سے دہلی کے سرکاری اسکولوں میں ٹھیکےپر کام کر رہے تھے جبکہ
دہلی میں کانگریس اور بی جے پی کی حکومتیں تھیں۔ اس دوران کشمیری پنڈت
دفاتر کے چکر لگاتے رہے لیکن بی جے پی رہنماوں نے ان سے ملنے کی زحمت تک
نہیں کی یہاں تک کہ ایک خاتون ٹیچر نے روتے ہوئے کہا کہ اس نے اپنا گھر
چھوڑا، زمین چھوڑ دی، لیکن اس کے بعد بھی ان کے ساتھ اپنے ہی ملک میں
سوتیلی ماں جیسا سلوک کیا جا رہا ہے اور ملازمت کو ہر وقت خطرہ لگارہتا ہے۔
1989 میں وزیر اعلی اروند کیجریوال نے بغیر کاغذات کے 233 کشمیری بے گھر
اساتذہ کو فوری طور پر مستقل کرنے کا حکم دیا۔ اس کے علاوہ، آج بھی دہلی
حکومت بے گھر کشمیری پنڈتوں کے خاندان میں ہر فرد کو 3250 روپے ماہانہ دیتی
ہے۔ دوسری طرف گندی سیاست سے متاثر بی جے پی نے ان کی پنشن روک دی۔ اس طرح
کیجریوال نے نہ صرف اپنے آپ کو کشمیریوں کا سچا دوست بلکہ بی جے پی کو ان
کا دشمن ثابت کردیا۔ آر آر آر کی کامیابی نے جس طرح کشمیر فائلز کو ناک
آوٹ کردیا اسی طرح کیجریوال نے بی جے پی کی ناک کاٹ دی۔
|