2008 سے لے کر اب تک جمہوری حکومتوں کا تسلسل پاکستان
کیلئے نیک شگون رہا ہے تا ہم چند شرپسند عناصر جو ملکی معاملات کو محض
سیاسی کھیل سمجھتے ہیں وہ ایک مرتبہ پھر جمہوریت کے در پے ہیں۔ گزشتہ
کالموں میں بھی عرض کیا تھا کہ ملک میں کوئی سیاسی یا آئینی بحران پیدا ہوا
تو نقصان صرف وطن عزیز کا ہوناہے۔ اس وقت جو سیاسی بحران مملکت خداداد
پاکستان کو اپنی لپیٹ میں لئے ہوئے ہے اس کے شدید اثرات آنے والے دنوں میں
دیکھنے کو ملیں گے اور اس تمام صورتحال سے مستفید ہونے والا طبقہ صرف ایک
ہی ہوگاجو پاکستان کو ترقی کی شاہراہ پر گامزن نہیں دیکھنا چاہتا۔
ان دنوں وفاق کے بعد صوبہ پنجاب میں بھی سیاسی و آئینی بحران موجود ہے ۔ فی
الوقت پنجاب میں تحریک انصاف کی ہی حکومت ہے لیکن وزرات اعلیٰ کے منصب سے
’’وسیم اکرم پلس‘‘ مستعفی ہو چکے ہیں البتہ نئے وزیر اعلیٰ کے انتخاب تک
عثمان بزدار ہی قلمدان سنبھالے ہوئے ہیں ۔ ساڑھے تین سال بعد اقتدار کے مزے
لینے والے چوہدری سرور کا بھی عہدے سے ہٹائے جانے پر اچانک ضمیر جاگ گیا
اور ان کی جگہ عمر سرفراز چیمہ کو نیا گورنر پنجاب مقرر کیا گیا ہے۔سیاسی
سمجھ بوجھ رکھنے والے جانتے ہیں کہ پنجاب میں حکومت کرنے والے ہی وفاقی
حکومت کے سیاسی استحکام کے ضامن چلے آ رہے ہیں۔ اس وجہ سے سب کی نظریں وفاق
کے بعد پنجاب اسمبلی پر مرکوز ہیں۔ اگر ہم آئین کی روشنی میں جائزہ لیں تو
وفاق میں عدم اعتماد جیسی صورتحال کے بعد یہ صوبوں کی صوابدید پر ہوتا ہے
کہ وہ صوبے میں اپنی حکومت قائم رکھنا چاہتے ہیں یا نہیں۔ نکتہ داں سوال
اٹھا رہے ہیں کہ کیا عثمان بزدار جو اس وقت بھی ٹیکنکلی وزیر اعلیٰ پنجاب
ہیں وہ گورنر کو پنجاب اسمبلی تحلیل کرنے کی سفارش کر سکتے ہیں یا نہیں؟ اس
سوال کا جواب یہ ہے کہ آئین کی رو سے چونکہ عثمان بزدار کیخلاف بھی تحریک
عدم اعتماد پارلیمان میں پیش کی جا چکی تھی اس لئے عدم اعتماد آنے کے بعد
وہ اسمبلی تحلیل کرنے کا آئینی اختیار کھو چکے ہیں۔ یہی صورتحال وفاق کیلئے
بھی تھی لیکن وہاں معاملہ قومی سلامتی کے حوالے سے طول پکڑ گیاجس کا معاملہ
پاکستان کی سب سے بڑی عدالت میں زیر سماعت ہے۔
پیپلز پارٹی کے چیئرمین بلاول زرداری گلگت، بلتستان اور آزاد کشمیر سمیت
خیبر پختونخواہ میں بھی تحریک انصاف حکومت کیخلاف عدم اعتماد لانے کا اعلان
کر چکے ہیں۔ پنجاب اور وفاق کی صورتحال کو مد نظر رکھتے ہوئے دیگر صوبوں
میں بھی سیاسی درجہ حرارت بڑھ چکا ہے۔ صوبہ خیبرپختونخوا میں پاکستان تحریک
انصاف کی حکومت ہے اور وہاں صوبائی وزیر اعلیٰ اراکین اسمبلی سے مشاورت کے
بعد اسمبلی تحلیل کرنے کی تجویز گورنر کو دے سکتے ہیں لیکن آئینی طور پر
ایسا عدم اعتماد کی تحریک پارلیمان میں پیش کئے جانے سے قبل ہی ممکن
ہے۔خیبر پختونخواہ میں ابھی تک کسی قسم کی کوئی سیاسی ہلچل نظر نہیں آئی
۔دیگر صوبے جیسا کہ سندھ اور بلوچستان میں تحریک انصاف کی حکومت نہیں ہے۔
اس لیے اگر یہ صوبے فیصلہ کرتے ہیں کہ ہم اسمبلی تحلیل نہیں کریں گے اور
اپنی آئینی مدت پوری کریں گے تو آئین میں کوئی ایسا طریقہ موجود نہیں کہ
انھیں اس عمل روکا جا سکے۔ان صوبوں میں اگر حکومت گورنر کے ذریعے کچھ کرنے
کا سوچے گی تو یہ بات یاد رکھنی بھی ضروری ہے کہ گورنر بھی یہ عمل اپنے طور
پر نہیں کر سکتا بلکہ اس کے لیے وزیر اعلیٰ کا اسمبلی تحلیل کرنے کی تجویز
دینا لازمی ہے۔سندھ کے حوالے سے مشیر قانون سندھ مرتضیٰ وہاب یہ واضح کر
چکے ہیں کہ پیپلز پارٹی میں سندھ اسمبلی تحلیل کرنے کے حوالے سے اب تک کوئی
بات چیت نہیں ہوئی اور نہ ہی پیپلز پارٹی میں ایسی سوچ یا خیال پایا جاتا
ہے۔ دوسری جانب وزیر اعلیٰ بلوچستان میر عبدالقدوس بزنجو کے خلاف ان کے
مخالفین کی جانب سے تحریک عدم اعتماد کی باتیں کی جاتی رہی ہیں لیکن تاحال
ان کے خلاف ایسی کوئی تحریک نہیں لائی گئی۔سیاسی مبصرین کے مطابق مخلوط
حکومت میں ناراضی اور اختلافات ہیں لیکن اس کے باوجود بظاہر قدوس بزنجو کی
حکومت کو تاحال کوئی بڑا خطرہ درپیش نہیں ہے۔اس حوالے سے وزیر مواصلات و
تعمیرات سردار عبد الرحمن کھیتران نے بھی واضح کیا ہے کہ وفاق اور پنجاب
میں جو صورتحال پیدا ہوئی ہے اس کے تناظر میں بلوچستان اسمبلی کے بارے میں
تاحال کوئی غور و خوض نہیں کیا گیا۔
وزیر اعظم عمران خان پونے چار سال حکومت کرنے کے بعد آخر کار یہ بات تسلیم
کر چکے ہیں کہ انہیں 2018 میں بیساکھیوں کے سہارے حکومت نہیں بنانی چاہئے
تھی، یہ تجاویز ہم اس وقت اپنے کالموں میں دے چکے تھے جب بنی گالہ میں
تحریک انصاف کی جیت کا جشن منایا جا رہا تھا۔ دیر آید درست آید کے مصداق
عمران خان اگر کچھ کر گزرنا چاہتے ہیں تو انہیں دو تہائی اکثریت کے ساتھ
اقتدار میں آنا ہوگا جو آئندہ نا ممکن نظر آتا ہے۔ میری ملک کی تمام بڑی ،
چھوٹی سیاسی جماعتوں سے ایک مرتبہ پھر اپیل ہے کہ وہ سیاست ضرور کریں لیکن
سیاسی یا آئینی بحران پیدا نہ کریں، پارلیمان ہر حال میں مقدم ہے اسے بے
توقیر نہ کریں۔کسی نا معلوم شاعر نے کیا خوب کہا ہے
سمجھنے ہی نہیں دیتی سیاست ہم کو سچائی
کبھی چہرہ نہیں ملتا کبھی درپن نہیں ملتا
|