یوکرین میں روس نے فوج کشی کی۔ اس جارحیت کے خلاف دنیا کے
بڑے ممالک نے روس پر معاشی پابندی لگا دی۔ اس طرح روس کے مال کی رسد زیادہ
اور کھپت کم ہوگئی نتیجہ یہ نکلا کہ روسی تیل کی قیمت گھٹ گئی۔عدل و انصاف
کے اقدار کو بالائے طاق اس صورتحال کا فائدہ اٹھانے کے لیے ہندوستانی حکومت
نے روس سے تیل خریدنا شروع کردیا ۔ اس لیے سرکار کے مخالفین کی یہ سوچ کہ
یہ ایک نااہل اور بیوقوف حکومت ہے، درست نہیں ہے ۔ ایسا پہلے بھی کیا گیا
جب ایران پر امریکہ نے معاشی پابندی لگائی تو ہندوستان نے تیل خریدا کیونکہ
سستا تھا ۔ چین کے ساتھ سرحدی تنازعات کے ساتھ کاروبار جاری و ساری رہتا ہے
۔ یعنی اپنے ملک میں اشتراکیوں کو نکسلوادی کہہ کر بدنام کرنا اور چین و
روس کے ساتھ کاروبار کیے جانا یا اندرون ملک اسلامی دہشت گردی کا ہواّ کھڑا
کرکے سیاست چمکانا اور ایران سے تیل خریدنا یہ سب قومی مفاد میں ہوتا رہتا
ہے لیکن کیا اس کا فائدہ قوم کو ملتا ہے؟
یہ ایک تلخ حقیقت ہے کہ ہمارا ملک تیل سستے داموں پر خرید کر سارے پڑوسیوں
سے زیادہ مہنگا بیچتا ہے۔ اب عوام کے ذہن میں یہ سوال تو پیدا ہوگا کہ آخر
ہمارا قصور کیا ہے؟ وہ حکومت جس کو خود ہم نے ووٹ دے کر اقتدار پر فائز کیا
وہ ہمارے ساتھ ایسا برا سلوک کیوں کررہی ہے؟ وہ ہمیں لوٹ کیوں رہی ہے؟ عوام
سرکار کو یہ دھمکی بھی دے سکتے ہیں کہ اگر یہ رویہ نہیں بدلا گیا تو دوبارہ
اس کو ووٹ دینے کی غلطی نہیں کی جائے گی ۔ لوگوں کو یہ بولنے بلکہ سوچنے سے
روکنا ایک سرکاری ضرورت ہے ۔ اس ضرورت کو پورا کرنے کی خاطر مسلمانوں کے
خلاف نفرت انگیزی کو فروغ دیا جاتا ہے۔ دہلی کے کچھ حصوں میں گوشت کے فروخت
پر پابندی کا اعلان کردیا جاتا ہے۔ حلال اور پھل جہاد چھیڑ دیا جاتا ہے
تاکہ عوام کو ان غیر ضروری مسائل میں الجھاکر سرکار سے یہ پوچھنے کا موقع
ہی نہ دیا جائے کہ آخر باہر سے آنے والا سستا تیل ہندوستان کے اندر مہنگا
کیوں ہوجاتا ہے؟
ان سوالات کی جانب سے توجہ ہٹانے کی خاطرمختلف شوشے چھوڑے جاتے ہیں لیکن
چونکہ ان کی عمر بہت کم ہوتی ہے اس لیے نت نئے موضوعات کی ضرورت پڑتی ہے
تاکہ ذرائع ابلاغ کے ذریعہ عوام کو ان میں مصروف رکھا جاسکے ۔ اسی سلسلے کی
ایک کڑی جنوبی دہلی کے میئر مکیش سورین کے ذریعہ نوراتری کے دوران گوشت کی
دکانوں پر پابندی کا احمقانہ اعلان اور اس کو سختی سے نافذکرنے کی دھمکی
تھی۔ اُن کے مطابق یہ قدم شکایات کے بعد اُٹھایا گیا تھا اور اس کا مقصد یہ
تھا کہ جب گوشت فروخت ہی نہیں ہوگا تو لوگ اُسے نہیں کھائیں گے۔ اس کے بعد
انہوں نے یہ بھی فرمادیا کہ اِس سے کسی کی انفرادی آزادی کی خلاف ورزی
نہیں ہوتی ہے۔ ایسی متضاد بیانی وہی کر سکتا ہے کہ جس دماغی توازن بگڑ گیا
ہو۔ ویسے جن لوگوں کے دماغ میں اقتدار کی ہوا بھر جائے اور ان مقصد عوام کو
گمراہ کرکے اپنی سیاسی دوکان چمکانا ہو ان سے اس کے سوا کوئی اور توقع نہیں
کی جانی چاہیے؟
اس اعلان کے بعد دہلی اقلیتی کمیشن کے سربراہ ذاکر خان نے میئر اور کمشنر
سے یہ سوال کردیا کہ کن ضابطوں کے تحت نوراتوں کے دوران گوشت کی دکانوں پر
پابندی لگانے کے احکامات/ہدایات جاری کی گئی ہیں کیونکہ ملک کے قانون میں
تہواروں پر گوشت کی دکانیں بند رکھنے کا کوئی ذکر نہیں ہے۔ اس کے برعکس
سبھی کو اپنی مرضی کے مطابق کھا نے پینے کی اجازت ہے۔ اس نوٹس میں پوچھا
گیا کہ کیا تہواروں پر گوشت کی دکانیں بند کرنے کا کوئی تحریری حکم دیا گیا
ہے، یا یہ زبانی بیان ہے؟ اس سوال نے سارے معاملے کی ہوا نکال دی ۔ قانون
کا نفاذکرنے والے کمشنر نے بتایا کہ انہیں کوئی تحریر حکم ملا ہی نہیں ۔
یعنی اس خط کا مقصد صرف میڈیا میں شور مچاکر عوام کو گمراہ کرکے سیاسی الو
سیدھا کرنا تھا ۔
کانگریس کے رہنما طارق انور کے مطابق بھارتیہ جنتا پارٹی جانتی ہے کہ جب تک
مذہبی جنون پیدا نہیں ہوتا، وہ انتخابات نہیں جیت سکتی اور اگر عوام الجھے
رہیں گے تو وہ بنیادی سوالات نہیں اٹھا سکیں گے۔ ان کا خیال میں پیٹرول کی
قیمت اورمہنگائی سے عوام کی توجہ ہٹانے کی خاطر اذان پر اعتراض کیا جارہا
ہے۔ ہر الیکشن کے وقت کسی نہ کسی نئے مسئلہ سے فرقہ وارانہ تناؤ پیدا کرکے
سیاسی فائدہ اٹھایا جاتاہے۔یہ محض اتفاق نہیں ہے کہ پانچ ریاستوں کی
انتخابی مہم کا آغاز ہوتے ہی 130 دنوں تک پٹرول اور ڈیزل کے داموں میں
اضافہ بند ہوگیااور نتائج کے بعد یہ منحوس سلسلہ پھر سے جاری و ساری کردیا
گیا۔ ملک بھر میں پٹرول 100 فی لیٹر سے تجاوز کر چکاہے دیگر اشیاء کے دام
بھی بڑھ رہے ہیں۔ لیموں کی قیمت 300 روپے کلو اور سبزی کے ساتھ مفت میں
ملنے والے مرچ اور ہرے دھنیے کی قیمت بھی 100 سے 200 روپے فی کلو تک
جاپہنچی ہےمگر اس سے بے نیاز برسرِ اقتدار طبقہ فرقہ وارانہ آگ لگانے میں
مصروفِ ہے۔
انتخاب کے دوران ووٹ دینے والے امیدوار سے فلاح و بہبود ہیں کی توقع کرتے
ہیں ۔ اسی دباو میں عوامی نمائندے عوام کی جانب بادلِ نخواستہ توجہ دیتے
ہیں لیکن فی الحال یہ سب نہیں ہورہا ہے کیونکہ موجودہ حکومت کے دو مسائل
ہیں۔ اول تو اس نے بڑے سرمایہ داروں سے سانٹھ گانٹھ کررکھی ہے۔ دوسرے انہیں
عوامی مسائل کی کوئی خاص پروا نہیں ہے۔ وہ اس خوش فہمی کا شکار ہے کہ فرقہ
وارانہ جذبات کو بھڑکا کر بہ آسانی انتخاب جیتا جاسکتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ
اپنی ناکامیوں کو چھپانے کی خاطر فرقہ واریت کی آگ میں تیل ڈالاجاتا ہے۔
اس طریقۂ کار کی کرناٹک میں سامنے آنے والی مثال دیکھیں۔ بنگلورو میں ایک
22؍ سالہ نوجوان چندرو کا سڑک کے جھگڑے میں قتل ہو گیا۔ اتفاق سے جن دو
نوجوانوں پر قتل کا الزام ہےوہ مسلمان ہیں ۔ اس کو بنگلورو پولس کمشنر کمل
پنت نے نہایت واضح ا نداز میں سڑک کا جھگڑا بتایا اس کے باوجود وزیر داخلہ
جانیندر نے چندرو کے قتل اردو سے جوڑ کر شر انگیزی کی ۔ آگے چل کر پولس نے
سوشیل میڈیا پر پھیلائی جانے والی باتوں کی تردید تو وزیر داخلہ کو اپنے
موقف سے رجوع کرکے معافی مانگنی پڑی۔
اس طرح کا معاملہ ماضی میں ہوچکا ہے جبکہ 2017کے اندر ہناور میں پریش میتسا
کی طالبہ نے خودکشی کرلی تو مقامی بی جے پی رکن اسمبلی شوبھانے کسی خیالی
جہادی پر قتل کاالزام لگا دیا۔ امیت شاہ نے پریش کے گھر پر جاکر اس کا
سیاسی فائدہ اٹھانے کی کوشش کی۔ یہ اور بات ہے کہ اس کے باوجود بی جے پی
اقتدارمیں نہیں آسکی اور یدورپاّ کو خریدو فروخت کرکے حکومت سازی کرنی
پڑی۔ اس فرقہ وارانہ ماحول میں سابق وزیر اعلیٰ بی ایس یدی یورپا کی
مسلمانوں کو امن اور وقار کے ساتھ جینے دینے کی اپیل خوش آئند ہے۔ دھارواڑ
میں مسلمانوں کے ٹھیلےتوڑنے کے الزام میں سری رام سینا کے چار ارکان کی
گرفتاری کے بعد انہوں یہ تلقین کی کہ ہندو تنظیمیں ایسی حرکتوں میں ملوث نہ
ہوں۔ان کا کہنا تھا ، ’میری خواہش ہے کہ ہندو اور مسلمان ایسے رہیں جیسے
ایک ماں کے بچے ساتھ رہتے ہیں۔ اگر کچھ شرپسند عناصر اس میں رکاوٹیں پیدا
کررہے ہیں تو ان کے خلاف کارروائی کی وزیر اعلیٰ نے یقین دہانی کرائی ہے ‘
۔
یدی یورپا کے بیان سے ایک دن پہلے قانون اور پارلیمانی امور کے وزیر جے سی
مدھوسوامی نے بھی بیلگاوی میں کہا تھا کہ ، ‘وہ تمام لوگ جنہوں نے آزادی
کے بعد ہندوستان میں رہنے کا فیصلہ کیا وہ ہندوستانی ہیں۔ یہ ملک سب کا
ہے‘۔مدھوسوامی کے مطابق ،آئین نے ہر شہری کو جینے، کاروبار کرنے اور اپنے
مذہب پر عمل کرنے کے حق کی ضمانت دی ہے۔ کسی بھی برادری کو عوام میں بدنام
کرنےکا حق نہیں ہے۔ کاش کے یہ باتیں نظم و نسق کے ذمہ دار صوبائی وزیر
داخلہ کی سمجھ میں آئیں ۔اس میں شک نہیں کہ فرقہ واریت کی سب سے بڑی قیمت
مسلمان چکا رہے ہیں لیکن یہ چیز سبھی کے لیے نقصان دہ ہے۔ راہل گاندھی نے
اپنے ایک ٹوئٹ میں کہا ہے کہ ’’نفرت، تشدد اور بائیکاٹ ہمارے پیارے ملک کو
کمزور کر رہے ہیں۔ بھائی چارے، امن اور خیر سگالی کی اینٹوں سے ترقی کا
راستہ ہموار ہوتا ہے۔ آئیے ایک منصفانہ اور مجموعی ہندوستان کو محفوظ کرنے
کے لیے ایک ساتھ کھڑے ہوں۔‘‘
ملک میں فرقہ واریت کے شعلے اپنی حدود سے باہر ہورہے ہیں ۔ اس کا احساس
شاید سیاسی لوگوں کو بھی ہونے لگا ہے۔ اب وقت آگیا ہے کہ اس ملک کے ہندو
سماج کو اس بات کا احساس ہوکہ بھیڑ کی کھال اوڑھ کر ایک بھیڑیا ان کے ریوڑ
میں شامل ہوگیا جو بظاہر مسلمانوں پر حملہ کرتا مگراس کی آڑ میں پورے ملک
کو مہنگائی اور بیروزگاری کی چکیّ میں پیس رہا ہے۔ اس کرب کے احساس کو
مندمل کرنے کی خاطر انہیں فرقہ پرستی کے نشے میں مدہوش رکھتا ہے۔ عوام
سامنے جب تک اس بھیڑئیے کا چہرہ عیاں ہوکر نہیں آئے گا اور وہ اسے اپنے
ریوڈ سے نکال باہر نہیں کریں گے یہ نفرت و شر انگیزی کا ننگا ناچ جاری و
ساری رہے گا ۔ سماج میں جب تک ظلم و جور کا دور دورہ رہے گا عدل و انصاف
اور تعمیر و ترقی کا خواب شرمندۂ تعبیر نہیں ہوسکے گا ۔ یہ صرف مسلمانوں
کی نہیں بلکہ پورے سماج کی بنیادی ضرورت ہے۔
|