صبر کی دہلیز اور چادر

خدابخش جیسے ہی گھر میں داخل ہوا اس کی اماں اس کی بیٹی کو کہہ رہی تھی بیٹا چادر لیتے وقت چادر کی گہری بُکل لگایا کرو جس سے تم اپنا آپ چھپا کر رکھ سکوں خدا بخش ماں کی بات سن کر مسکرایا بولا اماں یہ تو بھی چھوٹی ہے جب تھوڑی سیانی ہو جائے گی تو خود کو اچھے سے ڈھانپ کر رکھا کرے گی اماں نے اس کی بات سنی اور گہرا سانس لیا اور چپ سی ہو گئی خدابخش کو لگا کہ آج تو ماں ناراض ہی ہوگئی خدابخش بولا اماں مجھے معاف کر دے میں تو بس یہ کہہ رہا تھا کہ وہ تو ابھی چھوٹی ہے اماں کی آنکھوں سے گرتے ہوئے آنسو نے خدا بخش کو بھی ہلا کر رکھ دیا خدا بخش کی بیٹی نے جب دیکھا کہ دادی اماں رو رہی ہیں تو اس نے بولا دادی اماں میں نے تو چادر کی گہری بُکل لگائی ہے دادی اماں نے اس کو اپنے سینے سے لگایا اور سسکیوں سے رونے لگی خدا بخش نے جب اماں کو روتے ہوئے دیکھا اور اس کے ہاتھوں کو پکڑ کر ان پر عقیدت سے بوسہ دینے لگا اور بولا کہ اماں چپ کر جاؤ نہ رو امّاں بولیں خدابخش اس چادر کا رشتہ ہماری پیغمبر زادیوں سے شروع ہوا اور میرا اس چادر کی گہری بُکل سے رشتہ تب زیادہ مضبوط ہوا جب قیام پاکستان کی بنیاد پڑی یہ چادر مسلمان عورتوں کی سب سے بڑی ڈھال
رہی ہے اس چادر کے لیے مسلمان مردوں بچوں اور عورتوں نے بہت قربانیاں دی ہیں اب تو جیسے اما ں کے آنسوؤں کو راستہ مل گیا ہوں جیسے دریا کے سارے بند ٹوٹ گئے ہوں-

امّاں بولیں تب ہم نے صبر کی دہلیز پر کھڑے ہوکر اس چادر کو اتنی مضبوطی سے پکڑ لیا جب دشمن اس چادر کو کھینچنا چاہتے تھے اور اس چادر میں چھپی ہوئی بہت سی شہزادیوں کو نوچنا چاہتے تھے اور دشمن نے بہت سی شہزادیوں کی چادر کھینچ کر ان کی عزت کو تار تار کردیا پاکستان بھلا کب آسانی سے بنا ہے اس کو بنانے کے لیے کتنی بیٹیوں نے اپنی عزت قربان کی ہیں کتنی سہاگنوں نے اپنے سہاگ قربان کیے کتنی ماؤں نے اپنے بیٹے قربان کیے اور کتنے بچے یتیمی کی چادر کو اوڑھ کر پاکستان میں داخل ہوئے اور کتنی بیٹیوں نے اپنی چادر کو بچانے کے لئے خود کو بہتے ہوئے دریاؤں اور بہتی ہوئی نہروں کے حوالے کردیا خدابخش اس چادر کا رشتہ تو پیغمبر زادیوں سے شروع ہوا تھا اور اس چادر کی گہری بُکل صبر کی دہلیز پر کھڑے ہوکر قیامت تک ہماری بیٹیوں نے قائم رکھنا ہے

خدا بخش عورت اور چادر کا بہت گہرا آپس میں تعلق ہے ہم نے اپنی بیٹیوں کو جوان ہونے پر نہیں بتانا کہ اس کا اور چادر کا تعلق ہے ہم نے اپنی بیٹی کو صبر کی دہلیز سے یہ سبق پڑھانا ہے کے بچپن سے لے کر قبر تک یہ چادر اس کے لئے کتنی ضروری ہے

خدا بخش نے اپنی اماں کی طرف دیکھا جو نہ تو کبھی سکول گئی تھی نہ کوئی سبق پڑھا تھا اور آج اس کی بیٹی کو وہ سبق پڑھا رہی تھی جس سبق سے اس کی زندگی گزر کر آئی تھی وہ کس طرح اپنی عزت کو محفوظ کرکے پاکستان میں داخل ہوئی تھی

یہ سبق صرف خدا بخش کی بیٹی کے لیے نہیں تھا ہر اس بیٹی کے لیے تھا جسے چادر بوجھ لگتی ہے۔

 

Qazi Nadeem Ul Hassan
About the Author: Qazi Nadeem Ul Hassan Read More Articles by Qazi Nadeem Ul Hassan : 148 Articles with 126496 views Civil Engineer .. View More