نتائجوں کا برہمن - پانچویں قسط

کہتے ہیں ضرورت ایجاد کی ماں ہے ، جس کی عملی شکل میں نے برما کے دیہات میں بھی دیکھی جہاں چائنہ کے چھوٹے سے ڈیزل انجن سے ٹریکٹر تیار کر کے اس کے پیچھے ایک بڑی ٹرالی جوڑ کر اس میں چالیس پچاس مسافر بٹھا کر دیہاتوں میں لانے لے جانے کا کام لیا جاتا ہے مجھے بابو نے کہا چلیے آج اس میں بیٹھ کر گودام چلتے ہیں بہت کم خرچ میں پہنچ جائیں گے جبکہ سائیکل رکشہ میں ایک ہزار چٹ لگ جاتے ہیں، میں نے دیکھا عورتیں مرد ٹرالی میں بھرکر بھی ڈرائیور اپنے آس پاس دو سواریوں کو بٹھا لیتا ہے جس سے اسے ٹریکٹر چلانے میں تو کافی دشواری ہوتی ہے مگر پیسوں کا لالچ ہر مشکل کو آسان کر دیتا ہے، میں نے بابو سے کہا کیا سامنے بٹھانے کے پیسے زیادہ ہوتے ہیں، بابو نے کہا ہاں صاحب آپ سامنے بیٹھیں میں پیچھے بیٹھ جاتا ہوں، میں نے یہ انوکھا سفر اس لیے بھی کیا کہ یہاں کے ہر رنگ کو قریب سے دیکھنا چاہتاتھا ، تھوڑی دور گئے تو بارش شروع ہو گئی جس نے ٹرالی پر ترپال ہونے کے باوجود دونوں سائیڈوں کی بوچھاڑ نے سب کو بھگو ڈالا،گودام پہنچ کر میں نے بابو سے کہا ، واہ بھئی واہ برما کے لوگ تو بڑے کاریگر ہیں اتنا سستا ٹریکٹر بنا لیتے ہیں ، میری بات پر بابو نے ہنستے ہوئے جواب دیا ،بابو جی ٹریکٹر ہی کیا یہاں تو اس انجن سے منی ٹرک بھی چلتے ہیں جن پر کافی سارا مال لوڈ کر کے گاﺅں دیہات میں لایا لے جایا جاتا ہے، ابھی ہم لوگ یہی باتیں کر رہے تھے کہ رنگون سے میرے ایکسپورٹر کا فون آ گیا ، اس نے بتایا کہ آپ کا ایک دوست سلیم ٹانگو سے آیا ہوا ہے آپ سے بات کرنا چاہتا ہے، میں نے کہا ٹھیک ہے آپ اسے فون دیں، قارئین کو یہاں بتاتا چلوں کہ” ٹانگو“ رنگون سے ایک سو پچھتر میل دور ایک تاریخی شہر ہے جہاں میں کام کے سلسلے میں گیا تو میری انسولین ختم ہوگئی جسے تلاش کرتے کرتے سلیم سے ملاقات ہو گئی جس کا وہاں میڈیکل اسٹور ہے میں نے جب اسے اردو بولتے دیکھا تو مجھے بہت اچھا لگا پوچھنے پر اس نے بتایا کہ اس کے والد صاحب بھی پاکستانی ہیں اورخوشاب کے رہنے والے ہیں،اس کی تفصیل میں پہلے اپنے کالم رنگون کے رنگ میں لکھ چکا ہوںبہر حال اس سے اچھی دوستی ہو گئی تھی ، اس نے فون پر سلام دعا کے بعد پوچھا رنگون کب آ رہے ہو ، میں نے جواب میں بتایا کہ کام ختم ہونے میں دیری ہے اگر تمہارے پاس وقت ہو تو یہاں آ جاﺅ تمہارا ساتھ ہونے سے میرا کام آسان ہو جائے گا، وہ اپنے میڈیکل اسٹور کے لیے کچھ دوائیں خریدنے رنگون آیا تھا ، میں نے کہاوہ سب کسی ٹرک یا بس کے ذریعے بھیج کر تم آ جاﺅ باقی اسٹور تو ماشااللہ بچے چلا لیتے ہیں جن کا ساتھ ہماری بھابی بھی پورا پورا دیتی ہیں، میری اس دلیل پر وہ لاجواب سا ہو کر کہنے لگا ٹھیک ہے بھائی آ جاتا ہوں مگر دو دن سے زیادہ نہیں ٹھہر سکوں گا ،میں نے کہا ٹھیک ہے اگر میرا کام بھی ختم ہو گیا تو ایک ساتھ واپس آ جائیں گے،اس پر سلیم بھائی نے خوش ہو کر کہا تو ٹھیک ہے میں آج رات کو تمہارے پاس پہنچ رہا ہوں، میں نے بھی اسی انداز میں جواب دیا ،تو ٹھیک ہے میں تمہارے لیے رات کے کھانے میں ایک بڑی پراﺅن فِش پکوا نے کا انتظام کرتا ہوںجو تمہاری فیورٹ ہے اور یہاں بہت سستے میں مل جاتی ہے، اُس نے حیرت سے کہا”اچھا ایسی بات ہے تو میں انشااللہ آج ہی پہنچتا ہوں، یہ کہہ کر اس نے فون بند کر دیا۔

ادھر میں نے بابو کو رات کے کھانے کا انتظام کرنے بھیج دیا ، اب میں نے بابو سے تھوڑا تھوڑا برمی زبان میں بات کرنا سیکھ لیا تھا جیسے گنتی میں ایک کو ’ٹا‘ دو کو ’نے ‘تین کو’توئ‘ چار کو ’لے‘ اسی طرح ہزار کو’ ٹھوﺅں‘ اور کھانے کو ’سائ‘ جیسے ساءبی (میں نے کھایا) ساءبی لا (میں نے نہیں کھایا) وغیرہ وغیرہ ہما رے ہاں توسلام دعا کے بعد حال چال پوچھا جاتا ہے جبکہ برما میں کھانے کا پوچھا جاتا ہے کہ کھایا ہے یا نہیں،مینگلا با کے بعد ”سا ءبا بی لا“یعنی کھانا کھایا یا نہیں سامنے والا بولتا ہے” سا ءبی بی“ مطلب کھا لیا ہے، اس طرح کے بہت سارے ر وز مرہ کے کام آنے والے الفاظ اگر کسی چیز کے دام معلوم کرنے ہوں تو کہتے ہیں ”بلاﺅ لے“اگر کہیں جانے کے لیے ٹیکسی والے سے بات کرنی پڑے توجس جگہ جانا ہو اس کے ساتھ ”تواءمے“لگادیں جیسے رنگون تواءمے(رنگون جاﺅ گے ؟ بڑی مشکل زبان ہے اور ہر اسٹیٹ کی زبان میں ٹھوڑا بہت فرق بھی آ جاتا ہے۔

رات کو سلیم بھائی کے آنے سے ایک رونق سی آ گئی جیسے کوئی اپنا آجانے سے خوشی ہوتی ہے ، رات کا کھانا بڑا مزیدار لگا تقریباً آدھے آدھے کلو کے دو پراﺅن بڑھیا نے فرائی کر کے رکھے تھے جن کے ساتھ مصالحہ بھی خوب ٹیسٹی بنا تھا اور اصل مزا تو ملکر کھانے کا تھا جو کبھی کبھی نصیب ہوتا ہے۔ کھانے سے فارغ ہو کر ہوٹل آئے تو چینی لیڈی نے سلیم بھائی کا بڑی خوشدلی سے استقبال کیا اور ہم زبان ہونے کیوجہ سے بات چیت میں بھی آسانی رہی، سلیم بھائی نے بابو کے بارے میں پوچھا تو میں ہنستے ہنستے اس کی ساری رام کہانی سناتے ہوئے کہا ، یار جیسے بھی ہو اس کی کہیں شادی کرا دو مجھے تو اس کے بوڑھے باپ کو دیکھ کر ترس آتا ہے بیچارا گھر میں اکیلا پڑا رہتا ہے کسی بیٹے کو خیال آ جائے تو اس کو کھانے کو کچھ دے آتا ہے نہیں تو سارا دن ویسے ہی بغیر کھائے پئیے گزر جاتا ہے،سلیم نے میری بات سن کر مسکراتے ہوئے کہا، ارے بھئی یہ کوئی مشکل کام نہیں میرے شہر میں بھی ایک ہندو میری دوکان پر اکثر آتا ہے وہ بھی بہار کا رہنے والا ہے میں اُس سے بات کروں گا ،سنا ہے اس کی بھی دو بیٹیاں جوان ہیں شاید اسی کے ہاں اس کا کام بن جائے، مجھے یہ سن کرکچھ اطمینان سا ہو گیا کہ چلو اگر سلیم بھائی کے ذریعے سے ہی بابو کا کچھ بھلا ہو جائے یا شاید اوپر والے نے سلیم بھائی کو یہاں اسی لیے بھیجا ہے ، اُس کے بھید کوئی نہیں سمجھ سکتاوہ کس کے ذریعے سے کس کا کام بناتا ہے یہ وہی بہتر جانتا ہے۔

رات کو سلیم نے بتایا کہ میں رنگون میں جب تم سے ملنے تمہارے ہوٹل گیا تو وہاں ایک میمن سے ملاقات ہوئی جس نے بتایا کہ تمہارے کراچی والے دوست رزاق بھائی نے یہاں ایک میمن بیوہ عورت سے شادی کر لی ہے اور اب وہ ہوٹل کی بجائے ایک کرایہ کے گھر میں رہ رہا ہے کیا یہ درست ہے؟ میں نے جواب میں لاعلمی کا اظہار کرتے ہوئے کہا ، نہیں بھئی مجھے تو ایسی کوئی اطلاع نہیں ،بلکہ پچھلے ایک مہینے سے جب سے میں برما آیا ہوں اُس سے میری مُلاقات ہی نہیں ہوئی،(یہاں قارئین کو بتاتا چلوں کہ رزاق بھائی بھی ایک کاروباری میمن جن کا جوڑیا بازار میں امپورٹ ایکسپورٹ کا بہت بڑا کاروبار ہے عمر کوئی ساٹھ کے قریب دو بیٹے جو شادی شدہ بال بچے دار ،رزاق بھائی کی بیوی کے انتقال کو کافی عرصہ ہو چکا تھا ، کاروباری سلسلے میں اکثر رنگون میں ہی رہتے تھے باتوں باتوں میں مجھ سے کئی دفعہ اپنی خواہش کا اظہار کر چکے تھے کہ کراچی میں دونوں بیٹے جب اپنے اپنے کمرے میں چلے جاتے ہیں تو میں تنہائی محسوس کرتا ہوں سوچتا ہوں اگر کوئی ڈ ھنگ کی ملے تو دوسری شادی کر لوں، بیٹوں سے بھی مشورہ کیا ہے اُن کو بھی کوئی اعتراض نہیں) اب جو سلیم بھائی نے بتایا تو مجھے یقین ہو گیا کہ شاید اُن کو کوئی ڈھنگ کی مل گئی ہوگی!

دو دن بعد جب میں اور سلیم کام بابو کی ذمہ داری پر چھوڑ کر رنگون پہنچے تو اُسی رات کو رزاق بھائی افسردہ سا چہرہ لیے ہوٹل آ ئے ، سلام دعا کے بعد میں نے بڑے بے تکلفانہ انداز میں کہا، کیوں بھئی چپکے چپکے شادی رچا لی ،نہ کوئی دعوت نہ مٹھائی ،بلکہ بھابی نے ایسا گرویدہ بنا لیا کہ پرانے دوستوں سے ملنا بھی چھڑوا دیا ، اس پر رزاق بھائی نے الجھے ہوئے انداز میں جواب دیا ، ارے بھئی دوستوں کو کیا میں تو اب اُسے ہی چھوڑنے والا ہوں،! اُس کے منہ سے ایسی بات خلافِ توقع تھی جس نے مجھے اور سلیم بھائی کو بھی حیرت میں ڈال دیا،

(جاری ہے)
 
H.A.Latif
About the Author: H.A.Latif Read More Articles by H.A.Latif: 58 Articles with 84020 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.