میں رزاق بھائی کے چہرے پر غصے
کے آثار دیکھ کر میں اتنا تو سمجھ گیا کہ معاملہ کچھ گھمبیر ہے لہذا آہستہ
سے کریدتے ہوئے پوچھا، بھائی آخر ایسی کیا بات ہے ؟ پہلے تو آپ نے جھٹ پٹ
چپکے سے شادی رچا لی ، اُس کو ابھی ایک مہینہ بھی نہیں ہوا اور ابھی سے
بیوی کو چھوڑنے کی باتیں کر رہے ہو ! آخر اُس میں ایسی کونسی خرابی ہے ؟ اس
پر رزاق بھائی نے اپنی گجراتی انداز کی اردو میں کہنا شروع کیا، وہ سالی
میرا سب کچھ لوٹ پاٹ کر اپنے پچھلوں کو بھر رہی ہے،میں تو اُسے طلاق بھی
نہیں دوں گا اور ساتھ بھی نہیں رکھوں گا، بس ایک فلیٹ لے دوں گا اور ہر
مہینے راشن کے پیسے دے دیا کروں گا ،خود کبھی اُس کی صورت بھی نہیں دیکھوں
گا۔
یہ سب باتیں اُس نے غُصے سے منہ پھلا کر کر تو دیں مگر اس پر عمل کرنا اس
کے لیے بڑا نقصان دہ تھا، میں نے اُس کے غصے کو کم کرنے کے لیے ایک مثال دی
کہ بھائی اس تو اچھا ہے کہ آپ چوراہے پر ایک پانی کا نلکا لگوا دیں کہ جس
کا جی چاہے پانی پی لے، اس سے کم از کم ثواب تو ملے گا مگر جیسا تم سوچ رہے
ہو اس میں تو نقصان ہی نقصان ہے، میری بات کا مطلب سمجھتے ہوئے سلیم بھائی
کی ہنسی نکل گئی کہنے لگے ، یار یہ تو آپ نے ٹھیک مثال دی کہ خرچہ ان کا ہو
گا اور عیش کوئی اور کرے گا،رزاق بھائی تلملا کر بولے ، تو کیا کروں سالی
نے کل میرے پرس سے دس ہزار چٹ نکال کر اپنی بیوہ بہن کو دے دیئے اس سے پہلے
اپنا زیور بھی اُٹھا کر اُس کو دے دیا بولی ایک شادی میں پہن کر جائے گی آ
کر واپس کر دے گی مگر کہاں ! آج دس روز ہو گئے واپسی کا کوئی نام نہیں ،
سالی روز سینما لے جانے بولتی ہے ، میں کیا اس عمر میں اس کے ہاتھ میں ہاتھ
ڈال کر سینما جاتے اچھا لگوں گا ؟ ۔
اُس کی بات سن کر مجھے اندازہ ہو ا کہ اصل مسئلہ یہاں کے ماحول کا ہے
جورزاق بھائی کو اچھا نہیں لگتا، ورنہ یہاں کی عورت تو دوسروں کی دیکھا
دیکھی تفریح پسند ہے، میں نے رزاق بھائی سے پوچھا ، معاف کرنا بھائی ایک
ذاتی سا سوال ہے کہ ہماری بھابی کی عمر کیا ہے ؟ وہ ناک منہ پھلاتے ہوئے
بولے، ارے سالی دو جوان شادی شدہ بال بچوں والے بیٹوں کی ماں ہے عمر کیا
بتاﺅں مجھ سے سال دو سال چھوٹی بڑی ہو گی، میں نے ہنستے ہوئے سلیم بھائی کی
طرف دیکھ کر کہا، بھئی ماشااللہ جوڑ تو اللہ نے خوب ملایا ہے ، باقی ماحول
دونوں کا الگ ہونے کی وجہ سے طبیعتیں ملنے میں تھوڑا وقت لگے گا، ساتھ ہی
میںنے رزاق بھائی کی طرف منہ پھیرتے ہوئے کہا،اچھا بھائی بڑی معذرت کے ساتھ
مجھے ایک بات کا جواب دو کہ اگر تئمھاری کوئی بہن بیوہ ہوتی اور تم اُس کی
مدد کرتے اور وہ یعنی تمہاری بیوی مخالفت کرتی تو تمہارا کیا رد عمل ہوتا ؟
اس پر اُس نے اور بھی غصے سے کہا ،کیا کرتا !! میری کمائی ہے میں جسے چاہوں
دوں وہ کون ہوتی ہے مجھے روکنے ٹوکنے والی، میں نے بھی اُسی کے انداز میں
کہا، اچھا ! اگر تم کوئی نیک کام کرو تو جائز اور اگر اُس نے اپنی بیوہ بہن
کی مدد کی جو کہ تم کو کرنی چاہیے تھی تو وہ ناجائز ہو گیا، واہ رے مرد کی
ذات عورت کو اتنا حقیر بھی مت سمجھو کہ وہ تمہیں بھی حقیر سمجھنا شروع کر
دے ،اول تو تم کو شادی سے پہلے ہہاں کے ماحول کو سمجھنا چاہئیے تھا کہ ہہاں
کی بہت ساری مسلمان عورتیں بھی ابھی تک دوپٹہ نہیں اوڑھتیں،سینما اور گانا
بجانا تو ہر گھر میں عام ہے، یہ تو تبلیغ والوں کو دعائیں دو کہ کچھ کچھ
مسلمان عورتیں برقعوں میں نظر آ جاتی ہیںورنہ تو میں نے مسجد کے دروازے پر
بھی جوان لڑکی کو میک اپ میں جانمازٹوپیاں اور تسبیاں بیچتے ہوئے بھی دیکھا
ہے باپ اندر سے نماز پڑھ کر نکلتا ہے اور سیدھا گھر کی راہ لیتا ہے کہ بیٹی
اچھا بزنس سنبھال رہی ہے،یہ سب بولتے ہوئے میری آواز کچھ اونچی ہو گئی جس
سے رزاق بھائی کے چہرہ جو پہلے تنا ہوا تھا اب ذرا ڈھیلا پڑ گیا، میں نے
اُسی رو انی میں بولتے ہوئے مزید کہا، اب اگر آپ نے اُستروں کی مالا
(بلیڈوں کا ہار) خود ہی اپنے گلے میں پہن لی ہے تو جب کوئی زخم لگتا ہے تو
چلاتے کیوں ہو ، ساتھ ہی میں نے ذرا زور دیتے ہوئے سوال کیا، کیا کسی نے
تمہارے ساتھ زبردستی کی ہے ؟ اس پر رزاق بھائی نے منہ لٹکائے ہوئے آہستہ سے
اعتراف کرتے ہوئے جواب دیا، نہیں بھائی کی تو میں نے اپنی مرضی سے ہی ہے،،
اگر ایسا ہے تو پھر اس کو مذاق نہ بناﺅ اور نبھانے کی کوشش کرو ، ذرا سوچو
کہ اگرکسی گائے بکری کو بھی ریوڑ سے لا کر جب کوئی گھر میں رکھتا ہے تو
پہلے پہل تو وہ بھی چلاتی ہے شور مچاتی ہے رسی تُڑا نے کی کوشش کرتی ہے،
پھر کچھ ہی دنوں میں آہستہ آہستہ گھر والے جب اُسے اچھا اچھا کھلاتے پلاتے
ہیں گھماتے پھراتے ہیں تو وہ آہستہ آہستہ اُس ماحول کی عادی ہوتی جاتی ہے،
آپ تو ماشااللہ سمجھدار ہو اور جہاں تک ہمارے علم میں ہے اتنے کنجوس بھی
نہیں ہو، اُ سے ڈھنگ سے اپنے طریقہ پر لاﺅ ، اس کو اس کے رشتہ داروں سے
ملانے لے جاﺅ اُن کو تحفے تحائف دو اس کی بیوہ بہن کی خود آگے بڑھ کر مدد
کرو ، پھر دیکھو تمہیں اس عمر میں بھی پہلی شادی جیسا مزا آتا ہے کہ نہیں
،میری باتوں کا کچھ ایسا ہی اثر ہوا کہ رزاق بھائی کا چہرہ جس پر آتے وقت
تناﺅ تھا اب ایک معصوم بچے کی طرح لگ رہا تھا،اُس نے اُٹھتے ہوئے مختصراً
کہا،اچھا تو میں چلتا ہوں،یہ کہہ کر بغیر چائے پئے ہی وہ تیزی سے باہر نکل
گیا، سلیم بھائی جو اب تک خاموشی سے ہماری باتیں سن رہے تھے انہوں نے بھی
روکنے کی کوشش کی مگر وہ نہیں رکے۔
سلیم بھائی کو اندیشہ ہوا کہ شاید وہ میری باتوں کا بُرا مان کر چلے گئے
ہیں مگر میں نے انہیں یہ کہہ کر مطمعن کر دیا کہ اب جو بھی ہو ہمارا کام
تھا بندے کو سمجھانا اگر اُس میں تھوڑی سی بھی سمجھ بوجھ ہو گی تو وہ آئندہ
ایسا نہیں سوچے گا ، اس پر سلیم بھائی نے مسکراتے ہوئے کہا ، ہار یہ میمن
لوگ عجیب ہیں کاروبار میں تو بڑے پکے ہوتے ہیں جو گھاٹے منافع کا حساب
منٹوں میں نکال کر بتا دیتے ہیں مگر گھر بسانے کے معاملے میں پہلے کیوں
نہیں سوچتے ؟ میں نے بھی ہلکی سی ہنسی کے ساتھ کہہ دیا ، بھائی اُن کے پاس
کاروبارسے کچھ وقت بچے گا تبھی تو گھر کے بارے میں سوچیں گے ؟ میری بات پر
سلیم بھائی نے ایک ہلکا سا قہقہہ لگایا اور ہم لوگ رات کے کھانے کا پروگرام
بنانے لگے۔
دو دن بعد رزاق بھائی کا ایک بروکر دوست راستے میں ملا جو بڑا حیران سا لگ
رہاتھا مجھے روک کر کہنے لگا ، یار یہ رزاق بھائی کو کیا ہو گیا ہے ،میں نے
بھی حیرت سے دوہرایا ، کیوں کیا ہوا اُن کو ؟ اس پر بروکر نے اپنی ٹھوڑ ی
پر ہاتھ رکھتے ہوئے حیرانی سے کہا ، یار کل میں نے دیکھا وہ اپنی بیوی کے
ہاتھ میں ہاتھ ڈال کر سینما ہاﺅس کی طرف جا رہا تھا، مجھے یہ سن کر کوئی
حیرت نہیں ہوئی سلیم بھائی بھی میرے ساتھ تھے میں نے اُن کی طرف دیکھتے
ہوئے آنکھ دبا کر کہا، لو بھئی اچھی خبر ہے کہ رزاق بھائی لائن پر آ رہے
ہیں ،بروکر نے میرا ہاتھ پکڑتے ہوئے کہا کیا کہا آپ نے ؟ میںنے ان کو تسلی
دینے والے انداز میں کہا، کچھ نہیں کچھ نہیں آپ یہ بتائیں کہ وہ اپنی ہی
بیوی کے ساتھ تھے نا!!کہیں کوئی دوسری عورت تو نہیں تھی، بروکر نے ہنستے
ہوئے کہا نہیں بھئی اُن کی اپنی ہی بیوی تھی میں نے ہی تو اُن کی شادی
کروائی تھی بھلا میں اُسے نہیں پہچانوں گا ؟ میں نے غور سے دیکھا تھا ،روکا
اس لیے نہیں کہ ان کے رنگ میں بھنگ نہیں پڑے، میں نے مطمعن ہو کر کہا ،اچھا
کیا آپ نے کسی کے رنگ میں بھنگ ڈالنا اچھی بات نہیں، اچھا یہ بتاﺅ کہ کیا
وہ دونوںخوش لگ رہے تھے؟ اس پر بروکر جیسے کھل اُٹھا کہنے لگا، ارے صاحب آپ
خوش کی بات کر رہے ہیں، وہ آپس میں اتنے مگن جا رہے تھے کہ میرے بالکل پاس
سے گزرے اور میری طرف دیکھا تک نہیں، جبکہ رزاق بھائی مجھے مارکیٹ کا اُتار
چڑھاﺅ جاننے کے لیے ڈھونڈتے رہتے ہیں،میں نے کہا چلو یہ تو اچھی بات ہے کہ
بندے کا کبھی کبھی مارکیٹ سے باہرآنا بھی صحت پر اچھا اثر ڈالتا ہے،یہ کہہ
کر ہم لوگ بروکر کو جو ابھی تک حیرانگی سے ہاتھ اپنی ٹھوڑی سے لگائے کھڑا
تھا وہیں چھوڑ کر آگے چل پڑے تھوڑی دور جا کر جب ہم نے مُڑ کر دیکھا تو وہ
وہیں کھڑا ہمیں گھوم گھوم کر دیکھ رہا تھا ۔ |