گذشتہ روز ڈی جی آئی ایس پی آر کی پریس کانفرنس بہت اہم
تھی اور اسکا انتظار بھی تھا کیونکہ بہت سی باتیں پاک فوج کے حوالہ سے کی
جارہی تھی امید ہے کہ اب افواہ ساز فیکٹریاں بند ہو جائینگی اس پر تفصیلی
گفتگو کرنے سے پہلے میں سکھ برادی کو وساکھی میلے میں شرکت پر انہیں ایک پر
امن پاکستان میں خوش آمدید کہتا ہوں کیونکہ بیساکھی سکھ برادری کا خوشیوں
بھراروایتی تہوار ہے اور ایک دوسرے کی خوشیوں میں شریک ہونے سے بھائی چارے
اور یکجہتی کو فروغ ملتا ہے اقلیتوں کو بنیادی حقوق کی فراہمی، انکے جان
ومال کا تحفظ اور انہیں ترقی کے یکساں مواقع فراہم کرنا ہماری ذمہ داری ہے
پاکستان میں سکھ برادری سمیت دیگر مذاہب کے ماننے والوں کو اپنے عقائد کے
مطابق زندگی بسر کرنے کی مکمل آزادی ہے اب آتے ہیں ترجمان پاک فوج میجر
جنرل بابر افتخار کی پریس کانفرنس کی طرف جنہوں نے بہت سے مشکل سوالات کے
جواب بھی بہت آسانی سے حل کردیے کیونکہ حالیہ اعصاب شکن سیاسی و آئینی
بحران میں فوج نے مثالی کردار ادا کر کے ملک کو زبردست سیاسی عدم استحکام
سے بچا لیا انہوں نے واضح کیا کہ فوج کوسیاست میں مت گھسیٹیں یہ مہم پہلے
کامیاب ہوئی نہ اب ہوگی افواہوں کی بنیاد پر بے بنیاد کردار کشی کرنا کسی
صورت قابل قبول نہیں عوام اور فوج کے درمیان خلیج پیدا کرنے کی کوشش کی جا
رہی ہے آرمی چیف ایکسٹینشن نہیں چاہتے وہ وقت پر ریٹائر ہوں گے جوہری
اثاثوں کی بات کرتے ہوئے محتاط رہنا چاہیے امریکا نے فوجی اڈے مانگے اور نہ
ہم نے دیے اگر مانگتے بھی تو پاک فوج کا وہی موقف ہوتا جو سابق وزیر اعظم
تھا ایبسولوٹلی ناٹ جبکہ9 اپریل کی رات کے حوالے سے بی بی سی کی خبر سراسر
جھوٹ پر مبنی اسٹوری ہے پاک فوج کا سیاست میں عمل دخل نہیں ہونا چاہیے اور
اس بات کو عملی جامہ پہنایا گیا ہے پاک فوج کا سیاست سے کوئی لینا دینا
نہیں ہے پاک فوج اپنا آئینی اور قانونی کردار ادا کرتی ہے اور کرتی رہے گی
فوج کسی کو این آر او دینے کی پوزیشن میں نہیں فوج کون ہوتی ہے کسی کو این
آر او دینے والی؟ وہ اپنا کام کررہی ہے اگر کوئی دھمکی موصول ہوئی تو وہ
وزارت داخلہ دیکھتی ہے احتجاجی مراسلے صرف سازش پر نہیں اور بھی کئی
معاملات میں جاری کیے جاتے ہیں یہ سفارتی طریقہ کار ہے ایک سوال کے جواب
میں میجر جنرل بابر افتخار کا کہنا تھا کہ قومی سلامتی کمیٹی میں بحث کے
نکات پر بات نہیں کر سکتا لیکن میرا خیال ہے کہ اجلاس کے اعلامیے میں سازش
کا لفظ شامل نہیں ہے سابق وزیر اعظم نے سیاسی بحران کے حل کے لیے آرمی چیف
سے رابطہ کیا تھا مگر اسٹیبلشمنٹ کی اپوزیشن جماعتوں سے ملاقات کے متعلق
سوشل میڈیا پر چلنے والی افواہوں کی بھی کوئی حقیقت نہیں ہے تحقیقاتی صحافت
بہت آگے بڑھ چکی ہے اگر کسی کے پاس کوئی ثبوت ہے تو سامنے لائے ایسا کوئی
رابطہ نہیں ہوا کوئی ڈیل نہیں ہوئی اور نہ ہی ایسی کوئی بات ہے جبکہ سوشل
میڈیا پر جو کچھ ہورہا ہے اسے بیرونی اثرورسوخ کے ذریعے بڑھایا جارہا ہے
کچھ دراڑیں ضرور وجود رکھتی ہیں جنہیں بیرونی اثرو رسوخ سے بڑھایا اور پھر
اس کا فائدہ اٹھایا جاتا ہے لوگوں کو سیاست اور نیشنل سیکیورٹی سے متعلق
خیالات کو منفی شکل دی جارہی ہے اس میں کچھ خیالات حقیقی بھی ہوسکتے ہیں
لیکن اس کو بیرونی اثرورسوخ سے اس تیزی کے ساتھ بڑھایا جارہا ہے جسے بغیر
تصدیق کے آگے شیئر کردیا جاتا ہے اور ہمیں اپنی سوسائٹی کو ان اثرات سے
بچانے کے لیے ہمیں بہت مربوط اقدامات کرنے پڑیں گے یہ حکومتی سطح پر بھی
کرنا پڑے گا اور انفرادی سطح پر بھی کرنا پڑے گا تمام اداروں کو اس سلسلے
میں اپنا کردار ادا کر ہوگا ہم نے بحیثیت ادارہ اس حوالے سے اپنے طورپر
اقدامات اٹھائے ہیں ڈس انفارمیشن کیمپین کا بہت بڑا ٹارگٹ ہماری فوج ہے ہم
نے جو جنگ لڑی ہے وہ اپنے عوام کے بل بوتے پر لڑی ہے اگر عوام فوج کے ساتھ
نہ کھڑے ہوں تو جن ملکوں میں یہ حالات تھے آج ان کے حالات دیکھ لیں کدھر
گئی وہ فوج اور کیا حالت ہے اس ملک کی فوج کے اندر جانبدار اور غیرجانبدار
کی لڑائی سے متعلق سوال پران کا کہنا تھا کہ آپ کو شاید معلوم نہیں ہے کہ
فوج یونیٹی آف کمانڈ کے فیکٹر پر چلتی ہے چیف آف آرمی اسٹاف جس جانب دیکھتا
ہے اسی جانب آرمڈ فورس بھی دیکھتی ہے آج تک اس میں نہ تبدیلی آئی ہے نہ ان
شا اﷲ آگے کبھی آئے گی الحمداﷲ فوج کے اندر کسی قسم کی کوئی تقسیم نہیں ہے
اور پوری فوج اپنی لیڈرشپ پر فخر کرتی ہے اسکے ساتھ ساتھ نیشنل سیکیورٹی کا
دارومدار سیاسی استحکام پر ہے دفاع اس کا ایک چھوٹا سا حصہ ہے سیاسی
استحکام اصل عنصر ہے جو معیشت اور سیکیورٹی سمیت تمام چیزوں کو آگے بڑھاتا
ہے اگر ملک میں سیاسی عدم استحکام ہوگا تو اس سے یقینی طور پر نیشنل
سیکیورٹی کو نقصان پہنچے گا پچھلے دنوں جو کچھ ہوا وہ ایک سیاسی عمل کا حصہ
تھا جمہوریت میں یہ چیزیں ہوتی رہتی ہیں فارمیشن کمانڈرز کانفرنس پر گفتگو
کرتے ہوئے ڈی جی آئی ایس پی آر کا کہنا تھا کہ آرمی چیف کی زیر صدارت
فارمیشنز کور کمانڈر کانفرنس کے شرکا کو پاک فوج کی پیشہ ورانہ سرگرمیوں کے
ساتھ ساتھ بین الاقوامی اور خطے کے حالات کے تناظر میں درپیش سیکیورٹی
چیلنجز ان کے حوالے سے سیکیورٹی اور انٹیلی جنس بریفنگ دی گئیں جبکہ ان
چیلنجز سے نمٹنے کے لیے وضع کردہ حکمت عملی سے بھی آگاہ کیا گیا پاک فوج کی
بارڈر سیکیورٹی مکمل طور پر برقرار ہے اور مسلح افواج اور متعلقہ ادارے کسی
بھی صورتحال سے نمٹنے کے لیے ہمہ وقت تیار ہیں پچھلے چند مہینوں میں
بلوچستان اور قبائلی اضلاع میں دہشت گردوں نے امن عامہ کو خراب کرنے کی بے
انتہا کوشش کی لیکن ہمارے بہادر آفیسرز اور جوانوں نے ان مذموم عزائم کو
بھرپور طریقے سے ناکام بنایا اس سال کے پہلے تین ماہ کے دوران 128 دہشت
گردوں کو ہلاک اور 270 کو گرفتار کیا گیا اور ان آپریشنز کے دوران 97
آفیسرز اور جوانوں نے شہادت نوش کی پوری قوم ان بہادر سپوتوں اور ان کے
لواحقین کو خراج تحسین پیش کرتی ہے۔
|