یہ ملک مغربی جمہوریت کیلئے نہیں اللّٰہ اور اس کے رسول
صلی اللہ علیہ وسلم کی حاکمیت قائم کرنے کیلئے بنا تھا. آج کل سیاسی
جماعتوں کے سپورٹرز اپنے لیڈرز کی اندھی تقلید میں اتنے آگے نکل چکے ہیں کہ
ان کو اصل مسئلہ نظر ہی نہیں آتا۔ ہر کوئی ایک دوسرے کو لعن تعن کرتا رہتا
ہے۔ حالانکہ اصل مسئلہ کی جڑ شہباز، عمران، زرداری یا مولانہ نہیں بلکہ یہ
گندہ اور بوسیدہ مغربی جمہوری نظام ہے۔ جب تک یہ نظام نافذ ہے واللہ کوئی
بھی آجاۓ، کچھ فرق پڑنے والا نہیں۔ یہ بات میں نے آج سے دو سال پہلے ہی کہہ
دی تھی لیکن اُس وقت PTI کے اندھے مقلّد ناراض ہوگئے تھے۔ ان کا یہ خیال
تھا کہ ایک عمران خان اسی نظام میں رہتے ہوئے سب کچھ ٹھیک کرلے گا۔ ہمیں یہ
سمجھنا ہوگا کہ اندھی تقلید گمراہی کی تاریکی میں لیجاتی ہے۔ کسی کو سپورٹ
کرنے کا مطلب یہ نہیں ہے کہ ہم اس شخص کی ہر بات کو بغیر سوچے سمجھے من و
عن قبول کر لیں۔ اسی کو جہالت کہتے ہیں اور یہ جہالت ہر پارٹی کے سپورٹرز
میں ہے
١٩٤٧ میں ہمارے اسلاف نے یہ ملکِ پاکستان اللّٰہ سے اس وعدے پہ لیا تھا کہ
اس ملک میں صرف اور صرف اللّٰہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی
حاکمیت (خلافت) نافذ کریں گے لیکن قریباً ٧٤ برس گزرنے کے بعد بھی مغربی
نظام جوں کا توں رائج ہے ۔ بلکہ افسوس تو یہ ہے کہ ہم آج بھی اس مشرکانہ
نظام کو کامیابی کی ضمانت سمجھتے ہیں۔ یہ اللّٰہ اور اس کے رسول سے کھلی
بغاوت نہیں تو اور کیا ہے؟
لوگ اکثر یہ پوچھتے ہیں کہ یہ مغربی جمہوری نظام اللّٰہ سے بغاوت کیسے ہے؟
تو جواب یہ ہے کہ اس مغربی نظام کی اساس (بنیاد) توحید پر نہیں ہے۔ وہ ایسے
کہ اس مغربی جمہوری نظام کی بنیاد جمہور یعنی عوام ہیں۔ مطلب یہ کہ صرف
عوام کی اکثریت جو فیصلہ کرلے بس وہی آخری فیصلہ ہے۔ اللّٰہ کی کیا مرضی
اور منشا ہے، بلکل نظر انداز کر دی جاتی ہے۔ وہ ملک جو اسلام کی بنیاد پہ
بنا تھا وہاں آخری فیصلہ اللّٰہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی
بجائے عوام کیسے کر سکتے ہیں؟ کیا یہ نظریہ توحید کے خلاف نہیں ہے؟ کیا ہم
اجتماعی طور پر شرک کے مرتکب نہیں ہو رہے؟ بلکل ہو رہے ہیں۔ تو پھر جو
ہمارے ساتھ گزشتہ ٧٤ سالوں سے ہو رہا ہے وہ ہماری بد نصیبی نہیں بلکہ مشیتِ
الٰہی ہے۔ اللّٰہ نے جو وعدے اس امت کے ساتھ کئے ہیں وہ پورے تب ھونگے جب
ہم اللّٰہ سے کیا گیا وعدہ پورہ کرتے ہوئے صرف اللّٰہ اور اسکے رسول صلی
اللہ علیہ وسلم کی حاکمیت (خلافت) قائم کریں گے ورنہ اسی طرح ذلیل و رسواء
ہوتے رہیں گے جیسے آج ہو رہے ہیں۔
اسلامی ریاست کا سب سے اہم تصور یہی ہے کہ اس کی پوری عمارت اللّٰہ کی
حاکمیت کے تصور پر قائم کی گئی ہے اور اس کا بنیادی نظریہ یہ ہے کہ ملک
اللّٰہ کا ہے اور وہی اس کا حاکم ہے۔ کسی شخص یا خاندان یا طبقے یا قوم
بلکہ پوری انسانیت کو بھی حاکمیت کے حقوق حاصل نہیں ہیں یہ حق صرف اللہ کو
ہے۔ اللّٰہ رب العزت قرآن میں ارشاد فرماتے ہیں :
وَّ لَمۡ یَکُنۡ لَّہٗ شَرِیۡکٌ فِی الۡمُلۡکِ۔ یعنی ’’حاکمیت میں اس کا
شریک کوئی نہیں ہے.‘‘سورۃ بنی اسرائیل (آیت ۱۱۱)
اب قرآن سے نظام خلافت کی دلیل لے لیتے ہیں۔ اللّٰہ فرماتا ہے:
وَعَدَ اللّٰہُ الَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡا مِنۡکُمۡ وَ عَمِلُوا الصّٰلِحٰتِ
لَیَسۡتَخۡلِفَنَّہُمۡ فِی الۡاَرۡضِ یعنی ’’اللہ نے وعدہ کیا ہے ان لوگوں
سے جو تم میں سے ایمان لائیں اور عمل صالح کریں کہ وہ ان کو زمین پر ضرور
خلیفہ بنائے گا.‘‘ سورۃ النور (آیت ۵۵)
اتنی واضح دلیلوں کے بعد بھی اگر ہم اسی مشرکانہ جمہوری نظام کو خدا بنا کے
پوجتے رہے تو اللّٰہ، اسکے رسول اور ملا ئکہ کی لعنت ہم پر پڑتی رہے گی۔ جو
لوگ اس مغربی نظامِ جمہوریت میں راضی ہیں اور اسکو کسی نہ کسی لحاظ
capacity میں سپورٹ کررہے ہیں وہ مشرک ہیں۔ اور مشرک کی نہ دعا قبول ہوتی
ہے نہ نماز۔
اللہ رب العزت سے دعا ہے کہ اللّٰہ ہمیں توحید کو سمجھنے اور اس کے نیچے
زندگی بسر کرنے کی توفیق عطا فرمائے اور اپنی حاکمیت قائم کرنے کیلئے ہماری
جان، مال اور عزت قبول فرمالے۔ آمین
|