روس کو یوکرین جنگ کی طوالت کا اندازہ نہیں تھا اس لیے پچاس دن بعد اپنے
نقصانات کا اعتراف کرتے ہوئے اس نے جنگ کے اگلے مرحلے کی سربراہی الیگزینڈر
ڈورنیکوو کو سونپ دی ۔ ڈورنیکوو سنہ 1978 کے اندرروس کی فوج میں شامل ہوا۔
سنہ 2000 میں چیچنیا کی دوسری جنگ میں حصہ لینے کے بعد سنہ 2015 میں شام کے
اندر روسی فوجیوں کا سربراہ متعین ہوا۔ اس کے بعد سے الیگزینڈر ڈورنیکوو
جنوبی فوجی ڈویژن کے کمانڈر کی ذمہ داری سونپی گئی ۔ اسی ڈویژن نے سنہ 2014
میں کریمیا کا روس سے جبری الحاق کردیا تھا۔ الیگزینڈر ڈورنیکوو حربی اہمیت
کے حامل ڈنباز علاقے سے خوب واقفیت رکھتاہے ۔ اس سفاک درندے پر شام میں
شہریوں کے خلاف جنگی اور انسانیت مخالف جرائم کے الزامات لگے تھے۔
الیگزینڈر ڈورنیکوو کی قیادت میں روس کی فوج نے شام کے کئی شہروں مثلاً
ادلیب اور حلب کو کلسٹر بموں اور بیرل بموں سے تباہ کر دیا۔ اس ظالم نے
وہاں اسپتالوں اور سکولوں کو بھی نہیں بخشا۔ ان حملوں کے نتیجے میں شام کے
لاکھوں شہری دوسرے ملکوں میں پناہ لینے پر مجبور ہو گئے تھے۔
روسی صدر ولادیمیر پوتن نے سنہ 2016 میں شام کے اندر کامیابی کا اعلان کرتے
ہوئے الیگزینڈر ڈورنیکوو کو ’ہیرو آف رشین فیڈریشن‘ کا اعزاز سے نوازہ تھا
جو ملک میں کسی بھی شہری کو دیا جانے والا سب سے بڑا اعزاز ہے۔ اقوام متحدہ
نے 10 سال سے جاری شام کی خانہ جنگی میں ساڑھے تین لاکھ سے زیادہ اموات کی
تصدیق کی ہے ۔ شام کے بعد اس درندے کو یوکرین تباہ کرنے کا کام سونپا گیا
ہے۔ اب اس بات کا قوی امکان پیدا ہوگیا ہے کہ یہ نیا جنرل یوکرین میں بھی
جنگی جرائم اور شہریوں کے خلاف ظلم کا ارتکاب کرے گا۔ امریکی خفیہ ایجنسی
سی آئی اے کے سابق ڈائریکٹر ڈیوڈ پیٹریاس کو اندیشہ ہے کہ جس طرح شام میں
روس کی فوج نے حلب جیسے علاقوں کو شہری آبادی سے خالی کر دیتی تھی اب وہی
طریقۂ کار یوکرین میں اپنایا جائے گا ۔یعنی جو تباہی ماریوپول اور بوچا
میں برپا ہو چکی ہے اس کا اعادہ یوکرین کے دیگر شہروں میں بھی دیکھنے کو
ملے گا ۔ مغربی تہذیب کے جو سگاک درندے عالم انسانیت پر مسلط کیے ان میں سے
ایک ڈورنیکوو ہے لیکن وہ اکیلا نہیں ہے بلکہ اس کا ایک بھائی بند اجاتبیک
اومور کوو بوچا میں اپنی درندگی کا مظاہرہ کرچکا ہے۔علامہ اقبال نے کیا خوب
کہا تھا ؎
بنایا ایک ہی اِبلیس آگ سے تُو نے
بنائے خاک سے اُس نے دو صد ہزار ابلیس!
اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل انتونیو گوٹیرس تو سلامتی کونسل میں کہتے ہیں
کہ "میں بوچا میں ہلاک ہونے والے شہریوں کی ہولناک تصاویر کو کبھی نہیں
بھولوں گااورمیں عصمت دری اور جنسی تشدد کی ذاتی گواہی سے بھی حیران
ہوں‘‘۔اقوام متحدہ کی انڈر سیکرٹری جنرل روزمیری ڈی کارلو نے ایک اجتماعی
قبرکا ذکر کرنے کے بعدقتل، عصمت دری اور لوٹ مار کا بھی الزام لگایا لیکن
ان سب کو جھٹلاتے ہوئے قوام متحدہ میں روس کے مستقل نمائندے واسیلی نیبنزیا
نے یوکرینی باشندوں کے قتل کا الزام اسی ملک کے فوجیوں ، یوکرینی نازیوں
اور قدامت پسندوں کے سر منڈھ دیا۔ تصاویر کی ٹائم لائن پر سوال کرکے انہیں
مشکوک کرنے کی مذموم کوشش کی۔ روسی سفیر نےانخلاء کی وجہ شہری آبادی کو
نقصان سے بچانا بتاکر روسی سپاہیوں پر لگنے والے سنگین الزامات کو غلط
بیانی کہہ کر مسترد کرتے ہوئے اسے روس کے خلاف پروپیگنڈا کا حصہ بتایا۔
روسی وزیر خارجہ سرگئی لاوروف کے مطابق لاشوں کا منظر گھڑی ہوئی داستان ہے
اور ان تصاویر کی مدد سے مغربی ملکوں نے سوشل میڈیا پر یوکرین کے بارے
حقائق کا ایک مصنوعی تاثر پیدا کرنے کی کوشش کررہی ہیں۔اس طرح کی سفاکانہ
ڈھٹائی یوروپی اقوام کا خاصہ رہی ہے۔ اس لیےاقوام متحدہ کے سیکریٹری جنرل
انتونیو گوئیترس کے ذریعہ کی جانے والی جنگ بندی کی اپیل کابے اثر ہوجاتی
ہے ۔روس کی چوری اور سینہ زوری نے مغرب کے دیو استبداد کو بے نقاب کردیا ہے؎
ہے وہی سازِ کُہن مغرب کا جمہوری نظام
جس کے پردوں میں نہیں غیر از نوائے قیصری
دیو استبداد جمہوری قبا میں پاے کوب
تُو سمجھتا ہے یہ آزادی کی ہے نیلم پری
روس کی تردید اور چین کی حمایت کے بعد اب اقوام متحدہ کوبوچا کے واقعات کی
غیر جانبدار تفتیش پر راضی ہونا پڑا ہے حالانکہ سیٹلائٹ کی مدد سے سامنے
آنے والی تصاویر میں سڑکوں پر شہریوں کی لاشوں کوصاف دیکھا جا سکتا ہے ۔
یہ تصویریں حکومت روس کےان دعووں کو غلط ثابت کرتی ہیں کہ یوکرین کی افواج
نے قتل و غارتگری کی یا پھر مصنوعی طریقے سے ان مناظر کو پیش کیا گیا
۔میکسار ٹیکنالوجیز نامی ادارے نے 18، 19 اور 31 مارچ کو بوچا کی یہ تصاویر
رائٹرزجیسی مؤقر خبررساں ایجنسی کو فراہم کی تھیں۔ بوچا شہر پر 30؍ مارچ
تک روسی فوج کا قبضہ تھا۔ روزنامہ نیو یارک ٹائمز نے بھی سیٹلائٹ تصاویر کی
درستگی کی تصدیق کرچکا ہے۔بوچا کے معاون میئر، تاراس شپراسکی نے روسی افواج
کی شہر سے پسپائی پر 50 مکینوں کی لاشیں دیکھنے کی گواہی دی ہے۔ یہ تباہی
دراصل مغرب کے جمہوری نظام کے اندر پوشیدہ چنگیزی کو منہ بولتی تصاویر ہیں
۔ علامہ اقبال تو پہلے ہی اس نشاندہی کرچکے؎
تو نے کيا ديکھا نہيں مغرب کا جمہوری نظام
چہرہ روشن، اندروں چنگيز سے تاريک تر!
بوچا شہر کے تباہی کی تفصیل جاننے کے بعد یہ سوال پیدا ہوتا ہے آخر اس قتل
عام کی براہِ راست ذمہ داری کس پر آتی ہے؟ یہ الزام موٹورائزڈ رائفل
بریگیڈ کے40سالہ کمانڈر اجاتبیک اومورکوو کے سر ہے۔ اس درندے کو 2014 میں
روس کے ڈپٹی وزیر دفاع دیمتری بلگاکوو نے بہترین کارکردگی کے لیے فوجی تمغہ
سے نوازہ تھا۔ روسی تمغہ سے آراستہ خدا پرست اجاتبیک نے اجتماعی آبروریزی
اور نسل کشی کے احکامات جاری کیے تھے۔ اس ظالم نے حکم دیا تھا چالیس سال سے
کم عمر والے سبھی مردوں کو موت کے گھاٹ اتاردیا جائے۔ یہی وجہ ہے کہ
برطانیہ کے مشہور اخبار ڈیلی میل نے اسے ’بوچا کا قصائی‘ کے لقب سے نواز
دیا لیکن یہ تو قصائیوں کی بھی توہین ہے کیونکہ وہ ایسا ظلم نہیں کرتے۔
رپورٹ کے مطابق اس سفاک افسر نے پسماندگان کو لاشیں دفنانے کی خاطر صرف بیس
منٹ کا وقت دیا۔
اجاتبیک کی قدامت پسند عیسائی راہب کے ساتھ ایک تصویر بھی شائع ہوچکی ہے۔
اپنے گرو سے آشیرواد لینے کے بعد اس نے کہا تھا کہ تاریخ شاہد ہے ہم بیشتر
جنگ اپنی روحانیت سے لڑتے ہیں۔ اسلحہ سب سے اہم شئے نہیں ہے۔ مقامی لوگوں
کا کہنا ہے کہ روسی فوجیوں نے وہاں پہنچ کر پہلے دستاویز طلب کیے اور
معمولی خطرے کے گمان پر بھی گولی چلادی۔ فوجیوں کے جسم پر بنے ٹیٹو کی جانچ
کے لیے لوگوں کو برہنہ کیا گیا ۔ بین الاقوامی قوانین کے مطابق فوجی کمانڈر
کو ما تحت فوجیوں کےجنگی جرائم کا ذمہ دار ماناجاتا ہے۔زیلنسکی روسی فوج اس
افسر کو جنگی جرائم کے تحت فوری طور پر انصاف کے کٹہرے میں لانے کا مطالبہ
کررہے ہیں ۔ امریکی صدر جوبائیڈن تو ا ن جنگی جرائم پر روسی صدر ولادیمیر
پوٹن کے خلاف مقدمہ چلا نے کی بات کررہے ہیں لیکن سوال یہ ہے کہ چین کے
ہوتے کس کی مجال ہے کہ وہ پوتن کی جانب نگاہِ غلط اٹھا کر دیکھے ؟ ایسے میں
سوال پیدا ہوتا ہے کہ کیا پچھلے ۷۷ سال میں مغربی اقوام عالم انسانیت کے
جنگل راج کو ختم کرنے میں کامیاب ہوسکی ہیں؟ کیا اب بھی جس کی لاٹھی اس کی
بھینس کا قانون رائج نہیں ہے۔پہلے یہ لاٹھی یوروپ کے ہاتھ میں تھی اس لیے
اس کی تعریف و توصیف ہوتی تھی اب ڈنڈا چونکہ خود اپنےسر پر پڑ رہا ہے اس
لیے ہوش ٹھکانے آنے لگا ہے۔ حکمت کے نام پرجوحرص و ہوس کا عالمی بازار گرم
تھا اس کی قلعی کھل گئی ہے۔ اقبال نے کیا خوب کہا تھا ؎
وہ حکمت ناز تھا جس پر خرد مندانِ مغرب کو
ہوس کی پنجہ خونیں میں تیغ کار زاری ہے
اجاتبیک اومورکوو اگر یوروپی عیسائی نہیں بلکہ مسلمانوں میں سے ہوتا اور
چار سو تو دور صرف چالیس لوگوں کے ساتھ بھی یہ سلوک کردیتا تو تصور کریں کہ
دنیا بھر میں اسلام اور مسلمانوں کے خلاف کیسا طوفان بدتمیزی برپا کیا
جاچکا ہوتا؟ پوری مسلم قوم کوبدنام کرنے کے لیے کون کون سے حربے استعمال
نہیں کیے جاتے ؟ اسلام اور قرآن کے خلاف نہ جانے کتنے مضامین لکھے جا چکے
ہوتے؟ دنیا بھر میں کارٹونوں کا انبار لگ گیا ہوتا؟ غیر تو غیر اپنے مغرب
نواز لوگ بھی اس کا تعلق نہ جانے کس کس تنظیم اور علماء و دانشور سے جوڑتے
؟ لیکن اب وہ صرف ایک شخص کا ایک انفرادی عمل ہے ۔ اس کے مذہبی عقائد سے اس
کا کوئی لینا دینا نہیں ہے۔ اس کی اس مجرمانہ حرکت کے لیے کسی اور پر کوئی
ذمہ داری نہیں ہے۔ اس کے گرو کا کوئی قصور نہیں ہے۔ یہ سب درست ہے لیکن
ایسا رویہ سبھی کے ساتھ اختیار کیا جانا چاہیے ۔ ایسا نہ ہو کہ اپنے آدمی
کو تو بچا لیا اور مخالف کو پھنسا دیا جائے۔ روشن خیالی ، کشادہ دلی اور
رواداری کے بلند بانگ دعوے کرنے والوں کو تو کم از کم یہ زیب نہیں دیتا ۔
مغرب اس دوغلے پن پر علامہ اقبال نے کہا تھا ؎
یہ عِلم، یہ حِکمت، یہ تدبُّر، یہ حکومت
پیتے ہیں لہُو، دیتے ہیں تعلیمِ مساوات
(۰۰۰۰۰۰۰۰جاری)
|