بابا اور پھر ماما کے بلڈوزر نے عدل و انصاف کو روند دیا


وطن عزیز میں فرقہ وارانہ فساد ایک سیاسی ضرورت ہے اس لیے جب سیاستدانوں کو اس کی حاجت ہوتی ہے یہ ہوجاتا ہے بلاوجہ نہیں ہوتا ۔ اترپردیش میں فی الحال ملک کا سب سے بڑا ہندوتوانواز رہنما وزیر اعلیٰ ہے۔ ایک ایسے وقت میں جبکہ ملک کے کئی صوبوں میں رام نومی کے موقع پر فسادات ہوئے یوگی آدتیہ ناتھ نے بڑے فخر سے کہا کہ یوپی میں فسادات کی کوئی جگہ نہیں ہے۔ سوال یہ ہے کہ اگر اتر پردیش میں اس کی گنجائش نہیں ہے تو بغل کے مدھیہ پردیش میں کیوں ہے ؟ وہاں بھی تو بی جے پی برسرِ اقتدار ہے اور دوسرے ٹھاکر شیوراج چوہان کی سرکار ہے۔ دونوں کا تعلق بی جے پی سے ہے۔ یوگی کے مطابق اگر یوپی میں ترقی کی نئی سوچ کے سبب شرپسندی ، غنڈہ گردی، اور افواہ کے لئے بھی کوئی جگہ نہیں ہے تو مدھیہ پردیش میں کیوں ہے؟ اس کی وجہ یہ ہے کہ اترپردیش میں الیکشن ہوچکے اس لیے اب وہاں بی جے پی کو فرقہ پرستی کے فروغ اور دنگا فساد کی ضرورت نہیں ہے۔
مدھیہ پردیش میں بلڈوزر کی انتخابی ضرورت اترپردیش سے کہیں زیادہ شدید ہے۔ اس کی پہلی وجہ تو یہ ہے کہ اترپردیش میں بی جے پی نے پچھلے الیکشن میں 312نشستو ں پر کامیابی حاصل کی تھی جبکہ سماجوادی پارٹی 48 پر سمٹ گئی تھی اس لیے دونوں میں فرق بہت زیادہ تھا ۔اس وقت یوگی کی پارٹی میں کوئی خاص اہمیت نہیں تھی اس لیے وہ اپنا قد بڑھانے کے لیے فرقہ پرستی کو خوب بھڑکاتے تھے تاکہ مودی یا امیت شاہ ان کو فارغ نہ کردیں ۔ یہیں سے بلڈوزر بابا کا جنم ہوا تاکہ مختار انصاری اور وکاس دوبے وغیرہ کی جائیداد پر اسے چلا کر ہندو رائے دہندگان کا دل جیتا جاسکے اور یہ جعلی تاثر قائم کیا جاسکے کہ یوگی نے صوبے سے مافیا راج ختم کر دیا ہے۔ مدھیہ پردیش میں اس کے برعکس کانگریس صوبائی انتخاب ہار گئی تھی ۔ جوڑ توڑ کر سرکار بنائی گئی تو اڈوانی سے دوستی کے سبب ماما کہلانے والے شیوراج چوہان پہلی پسند نہیں تھے ۔ ان کے حریف نروتم مشرا وزیر اعلیٰ نہ بن سکے تو وزارت ِ داخلہ بنادیئے گئے اور اب دونوں میں یہ ثابت کرنے کے لیے مسابقت چل رہی ہے کہ کون یوگی بابا کی بہتر نقالی کرسکتا ہے۔ اسی دوڑ میں ماما کا بلڈور بابا سے آگے نکل گیا ۔

رام نومی کا سب سے بڑا فساد مدھیہ پردیش کے کھرگون میں ہوا ۔ یہاں کی خصوصیت کپل مشرا کی موجودگی تھی۔ کپل مشرا نے دہلی کے فسادات بھڑکانے میں جو کلیدی کردار ادا کیا وہ جگ ظاہر ہے۔ اس کا سب سے شرمناک پہلو کپل مشرا کو دیا جانے والا سرکاری تحفظ ہے۔ یہ وہی بدمعاش ہے کہ جس کے خلاف ایف آئی آر درج کروانے کا اصرار کرنے پر دہلی ہائی کورٹ کے جج مرلی دھر کو راتوں رات چندی گڑھ منتقل کردیا گیا۔ کسی فسادی کو گرفتاری سے بچانے کی خاطر کیے جانے والے اس غیر معمولی اقدام نے خود مشرا اور دیگر فسادیوں کو یہ واضح پیغام دے دیا کہ ان کو بچانے کی خاطر مرکزی حکومت کسی بھی حد تک جاسکتی ہے۔ ملک بھر میں ہونے والے فرقہ وارانہ فساد کی بنیادی وجہ یہی تحفظ ہے جو فسادیوں کو سرکار کی جانب سےفراہم کیا جاتا ہے ورنہ ان بزدلوں کی کیا مجال ہے کہ عوام کے جان و مال سے کھلواڑ کریں اور بچ نکلیں ۔

کھرگون میں کپل مشرا اپنی اشتعال انگیز تقریرمیں کشمیر فائلس کا حوالہ دے کر عوام کے اندر انتقامی جذبات کو بھڑکاتا ہے اورپھر گھر میں گھس کر مارنے کی ترغیب دیتا ہے ۔ کشمیر کے اندر جاکر سے برہان جیسے جنگجو نوجوانوں کے گھر میں گھس کر مارنے کا نعرہ لگانے والوں کا حال یہ ہے کہ خود تو سرکاری تحفظ میں گھومتے ہیں اور اپنے دفاع میں ان پر پتھر پھینکنے والوں کو قابو میں کرنے کی خاطر صوبائی سرکار کو بلڈوزر بھیجنا پڑتا ہے۔ ان سرکس کے شیروں نے اپنے محلے میں کشمیر فائلس تو خوب دیکھی مگر کبھی کشمیر جانے کی جرأت نہیں دکھائی ۔ ہاں کوئی کمزور ہتھے چڑھ گیا تو بزدلوں کی مانند اس پر بھیڑیوں کی مانند ٹوٹ پڑے ۔ یہی ان کی دلیری ہے۔ کپل مشرا کے عار دلانے پر جوش میں آخر ان لوگوں نے فساد برپا کیا کیوں کہ اندر کی بات پولس کا ساتھ یہ لوگ اچھی طرح جانتے تھے۔
کپل مشرا نےتشدد پر ابھارنے کی مذموم حرکت ببانگ دہل اسی لیے کی کیونکہ ریاستی وزیر داخلہ نروتم مشرا نے اسے یہی کام سونپا تھا ۔ اس گمان کا ایک ثبوت تو کپل مشرا کا صحیح سلامت دہلی لوٹ جانا ہے اور دوسرا ثبوت خود نروتم مشرا کا نہایت زہریلا اور غیر ذمہ دارانہ بیان ہے جو کسی باوقار وزیر داخلہ کو زیب نہیں دیتا مگر زعفرانیوں کا تو یہی خاصہ ہے۔ نروتم مشرا نے اس فساد کے بعد مظلومین گھروں اور دوکانوں پر یکطرفہ کارروائی کرتے ہوئے بلڈوزر چلوا دیا اور پھر زخموں پر نمک چھڑکتے ہوئے مسلمانوں پر تشدد کا الزام لگا دیا۔ جلوس پر پتھر پھینکنے والے ملزمین کے گھروں کو منہدم کرنے کا دفاع کرتے ہوئےمشرا نے کہا کہ’’اگر مسلمان اس طرح کے حملے کریں گے تو انہیں انصاف کی امید نہیں کرنی چاہئے‘‘۔

یہ کہاں کا انصاف ہے کہ مسلمانوں کو اپنا دفاع کرنے پر انصاف سے محروم کردیا جائے اور جلوس میں شامل دنگائیوں کو تحفظ فراہم کیا جائے؟ موصوف کو انصاف کے نام پر تو ایسی ناانصافی نہیں کرنی چاہیےلیکن اگر مرکز ی وزیر اجئے مشرا کسانوں پر گاڑی چڑھانے والے اپنے بیٹے آشیش مشرا کو چھڑا لیتا ہے تو نروتم مشرا اور کپل مشرا سے کیا توقع کی جائے؟ یہ عجیب سفاکی ہے کہ حکومت جن 94 لوگوں کو گرفتارکرے ان میں بیشتر مسلمان اور ایسے لوگوں پر پتھر بازی کا الزام لگایا جائے جو جیل میں بند ہوں ۔ 45 کے قریب مکانات اور دکانوں کو بلڈوزر سے مسمار کیا جائے وہ بھی مسلمانوں کے ہوں اور وزیر داخلہ ڈھٹائی کے ساتھ یہ الزام لگائے کہ حملہ آوروں کو بچایا جا رہا ہے نیز اسے اس بات کی پرواہ نہیں ہے کہ مدھیہ پردیش حکومت پر کسی ایک کمیونٹی کے لیے کام کرنے کا الزام ہے۔ جوکوئی فساد بھڑکائے گا تو اسے کچل دیا جائے گا۔ یہ تمام فسادی ایک ہی طبقہ (مسلم )سے تعلق رکھتے ہیں۔‘‘ وزیر داخلہ کی اس بہتان تراشی کی تردید میدان میں جا کر رپورٹنگ کرنے والے کئی صحافیوں نے کی لیکن اگر کوئی بے حیائی پر اتر آئے تو اس کا کیا کیا جائے؟

کھرگون ضلع میں کوئنٹ نے جو تحقیقات کرکے ویڈیو بنائی وہ وزیر داخلہ کو منہ چڑھاتی ہے ۔ ایک اور ویڈیو میں مسلم نوجوان نے بتایا کہ اگر پولیس نہ آتی تو بڑا حادثہ ہو جاتا اوران میں سے کوئی نہیں بچ پاتا۔ کھرگون سے 10 کلومیٹر دور ککڈول میں عبدالمالک کے گھر کے اندر ہتھیاروں سےلیس بلوائی گھس کر’جے شری رام‘ کا نعرہ لگوانے لگے ۔ گھر میں توڑ پھوڑ کے بعد عصمت دری کی دھمکی دی اور خواتین کے کپڑے تک پھاڑ دیئے۔ بالآخرپولس کی گاڑی کا سائرن سن کر حملہ آور بھاگ نکلے۔ اتفاق سے مدھیہ پردیش میں کانگریس کے ترجمان بھی کے کے مشرا ہیں انہوں نے کہا چونکہ اگلے سال صوبائی اور اس کے بعد قومی انتخاب ہونےہیں اس لیے منصوبہ بند طریقہ پر سنگھ پریوار نے ابھی سے ماحول کو خراب کرنا شروع کر دیا ہے۔

کپل مشرا کے علاوہ کھرگون کا فساد بلڈوزر کے استعمال کو لے کر یاد کیا جائے گا ۔ اس کارروائی کا دفاع کرتے ہوئے کھرگون کے ایس ڈی ایم ملند ڈھوکے نے وضاحت کی کہ جن کے گھر یا دوکان گرائے گئے ہیں وہ پہلے سے غیر قانونی، تجاوزات کی فہرست میں شامل تھے اور وہ پتھر بازی میں بھی ملوث تھے، اس لیے ریاست کی انسداد تجاوزات مہم کے تحت ان کے گھر کی دکانوں کو توڑا گیا ۔ ایس ڈی ایم کا یہ بیان اپنے سیاسی آقاوں کا ترجمان ہے۔ یہ اگرتجاوزات کو ہٹانے کی کارروائی تھی تو اس کا نشانہ صرف مسلمان کیوں بنے؟ اور پورے کھرگون کے بجائے ایک مخصوص علاقہ میں اس پر عمل کیوں کیا گیا؟ پتھر بازی اس دھاندلی کا ا نہیں یا ان کے سیاسی آقاوں کو اختیار ہی نہیں ہے۔

کھرگون میں سرکاری رابطہ عامہ کے افسر نے اس توڑ پھوڑ کا جواز پیش کرتے ہوئے کہا کہ یہ کارروائی کے تشدد کے دوران ہونے والے مالی نقصانات کے جواب میں کی گئی ۔ اگر بفرضِ محال یہ مان لیا جائے کہ نقصان پہنچایا گیا تھا تو بلڈوز سے بھرپائی کیسے ہوگئی؟ عدالت کی مرضی کے بغیر سرکار ایسا کرنے کی مختار نہیں ہے۔ مدھیہ پردیش میں فی الحال ایسا کوئی قانون نافذ نہیں ہے، جس کے مطابق فسادات میں ملوث افراد یا سڑکوں پر آکر سرکاری یا نجی املاک کو نقصان پہنچانے والوں پر بلڈوزر چلا دیا جائے۔ ملزم قصوروار پا ئے جانے پر عد الت جیل بھیج سکتی یا جرمانہ لگا سکتی ہے لیکن جائیداد تباہ کرنے کا حق اسے بھی نہیں ہے کیونکہ ہندوستانی قانون اس کی قطعاً اجازت نہیں دیتا ۔
سپریم کورٹ کے معروف وکیل سنجے ہیگڈے کے مطابق اس غیر قانونی کارروائی پر سرکار اور نوکر شاہی کو سزا مل سکتی ہے لیکن غریب مظلوم عدالت میں پیروی نہیں کرسکتے ۔ عدلیہ کا فیصلہ اس قدر تاخیر سے آتا ہے کہ اس سے قبل سرکاریں چلی جاتی ہیں۔ افسران سبکدوش ہوجاتے ہیں او ر مدعی مرکھپ جاتے ہیں اس لیے لوگ عدالت کا رخ نہیں کرتے ۔ سیاستداں اس مجبوری کا فائدہ اٹھا کر ظلم و جور کا ننگا ناچ کرتے رہتے ہیں۔ سپریم کورٹ کے وکیل، شادان فراست کے مطابق پتھر مارنا تو دور اس سے زیادہ سنگین جرم میں بھی حکام کسی ملزم کے مکانات یا دکانوں کو تباہ نہیں کر سکتے۔ غیر قانونی تعمیرات پر میونسپلٹی نوٹس کے بغیر براہ راست اقدام کرے تو وہ من مانی ہے۔مدھیہ پردیش میں سرکاری اور نجی املاک کو فساد یا احتجاج کے دوران نقصانات کے معاوضے کی ادائیگی کے لیے نوٹس تو بھیجا جا سکتاہے مگر بلڈوزر نہیں چلایا جاسکتا ۔اس طرح مدھیہ پردیش ماما نے کنس کے نقشِ قدم پر چلتے ہوئے اپنے بھانجے کو بلڈوزر سے روندا ہے۔

Salim
About the Author: Salim Read More Articles by Salim: 2124 Articles with 1448756 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.