پاکستان میں سیاست کے رنگ بھی نرالے ہیں۔ سیاست دانوں نے
سیاست کو خالہ جان کا ویہڑہ سمجھا ہوا ہے۔جو سیاست میں ایک بار داخل ہوا
اور کوئی جگہ بنی تو وہ سیاست میں اپنے خاندان کے لوگوں کے ساتھ ساتھ اپنے
گھر کی بہو بیٹیوں کو بھی میدان میں اتار دیتے ہیں۔ اگر پاکستان کی تاریخ
پر اچٹتی سی نظر ڈالیں تو سیاست کے ذریعے چند مخصوص خاندان ہی اس مملکت
خداد کو دیمک کی طرح چاٹتے نظر آئیں گے۔
صوبہ پنجاب کی بات ہو تو یہاں سیاست میں چوہدری ، ٹوانے، چیمے ، چٹھے،
قریشی، گیلانی، رانا، مخدوم اورملک اقتدار میں رہنے والے خاندانوں میں شامل
ہیں جن میں ضیاالحق دور سے شریف خاندان کا اضافہ ہوا ۔ ان خاندانوں کے چشم
و چراغ خواہ مرد ہوں یا عورت ملکی سیاست میں اپنا نام پیدا کرتے رہے ہیں
اور اب ان کی نئی پوداپنا کردار ادا کررہی ہے۔
صوبہ خیبر پختون خواہ کی طرف نظردوڑائیں تووہاں اس وقت خٹک ، باچا خان ،
ہوتی، سیف اﷲ ، ایوب خان اور مولانا مفتی محمود کا خاندان اس موروثی سیاست
سے فیض یاب ہوئے ہیں۔
صوبہ سندھ کی بات کریں تو وہاں کیونکہ اندرون سندھ سیاست زیادہ تر
جاگیرداروں کے ہاتھ میں ہے ۔ اس لیے وہاں موروثی سیاست ہر لحاظ سے بہت
زیادہ مضبوط ہے۔ کراچی کی بلدیاتی سیاست میں کبھی جماعت اسلامی کا طوطی
بولتا تھالیکن اس کے بعد سندھ کے شہری علاقوں میں متحدہ قومی موومنٹ نے
اپنے زیر اثر حلقوں میں ایک نئی جماعت ہونے کے باوجود نہ صرف جماعت اسلامی
بلکہ موروثی یا خاندانی سیاست کو ہلا کر رکھ دیا۔ سندھ میں خاندانی سیاست
کے حوالے سے سب سے بڑا نام بھٹو خاندان کا لیا جاتا ہے ۔اسکے علاہ پگاڑا
خاندان، زرداری خاندان بھی ان میں شامل ہیں۔
بلوچستان میں سیاست کا محور قبائلی خاندان ہیں۔ اچکزئی، بزنجو، رئیسانی،
مری، مینگل، بگٹی، زہری، غرض کسی کا نام بھی لیں تو ان سارے خاندانوں کی
سیاسی نظام پر اجارہ داری اپنے اپنے قبائلی یا نسلی خطوں میں برقرار ہے۔
پاکستان میں خاندانی سیاست کی ریت چونکہ بہت پرانی ہے ۔یہاں ایک ہی خاندان
میں وزارت عظمیٰ اور وزارت اعلیٰ کا منصب مہربان رہ چکا ہے۔ پاکستان میں
ایک ہی خاندان کے پاس وزارت عظمیٰ اور وزارت اعلیٰ رہ چکی ہیں۔ سندھ سے
پیپلز پارٹی کے بانی ذوالفقار علی بھٹو اور ان کی صاحبزادی بینظیر بھٹو بھی
وزیراعظم رہ چکی ہیں۔اسی ظرح پنجاب سے چوہدری خاندان کے چوہدری شجاعت
وزیراعظم جبکہ ان کے کزن پرویز الٰہی ڈپٹی وزیراعظم اور وزیراعلیٰ پنجاب
بھی رہے ہیں۔
پنجاب سے شریف خاندان وہ واحد خاندان ہے جس میں دونوں بھائی نوازشریف اور
شہبازشریف وزارت عظمیٰ و وزارت اعلیٰ کی کئی باریاں لے چکے ہیں ۔ میاں محمد
نوازشریف تین بار وزارت عظمیٰ کا عہدہ سنبھالنے سے پہلے وزیر اعلیٰ بھی رہ
چکے ہیں جبکہ شہباز شریف پنجاب کی تاریخ کا واحد وزیراعلی ہے جس نے 3 ادوار
میں 11 سال حکمرانی کی۔ لیکن پاکستان کی تاریخ میں ایسا کبھی نہیں ہوا کہ
بیک وقت باپ وزیراعظم اور بیٹا وزیراعلیٰ رہا ہو ۔ تاہم گزشتہ رات وزیراعظم
شہباز شریف کے صاحبزادے حمزہ شہباز کے وزیراعلی منتخب ہوتے ہی پاکستان میں
نئی سیاسی تاریخ رقم ہوگئی۔پاکستان کی تاریخ میں پہلی بار ایسا ہوا ہے کہ
بیک وقت باپ وزارت عظمیٰ اور بیٹا وزارت اعلیٰ کے منصب پر فائز ہوئے ہیں۔
اگر جن دعوؤں کے ساتھ دونوں باپ بیٹے زمام اقتدار سنبھالنے آئے ہیں وہ ایک
کڑا امتحان ہے ۔ تحریک انصاف کی حکومت کے ساڑھے تین سال جو مہنگائی کا عذاب
بن کر عوام پر نازل رہے ان سے جان تو چھڑا لی مگر اب عوام کوریلیف دینے کے
لیے ان دونوں باپ بیٹے کو ہر قدم پھونک پھونک کر اٹھا نا ہوگا۔ مہنگائی کا
طوفان جو آسمان کو چھورہا ہے اور ڈالر جس کی اڑان نیچے آنے کو تیارنہیں ان
سب کو اپنی اوقات میں لانے کے لیے بہت کچھ کرنا ہوگا۔عوام کی نگاہیں اب ان
دونوں حمزہ، شہباز پر مرکوز ہیں اور دیکھنا ہے کہ وہ عوام کو کتنا ریلیف
دیتے ہیں؟اگر عوام کو ریلیف نہ ملا ، مہنگائی کا جن قابو میں نہ آیا،، ملکی
ذرائع مبادلہ بہتر نہ ہوئے اور دونوں باپ بیٹے کچھ ڈلیور کرنے میں ناکام
رہے جیسا کہ حالات سے ظاہر ہوتا ہے تو یہ شعر شاید اسی مناسبت سے کہا گیا
تھا :
میرے ملک کی سیاست کا حال مت پوچھو
گھری ہوئی ہے طوائف تماش بینوں میں |