عرب میڈیا کی رپورٹس کے مطابق قابض اسرائیلی فوج رواں ماہ
کے آغاز سے لے کر اب تک 23 فلسطینی مسلمانوں کو شہید کرچکی ہے،مسلمانوں کو
رمضان کے مقدس مہینہ میں بھی عبادات سے روکا جارہا ہے۔اسرائیلی فورسز کی
جانب سے وحشیانہ کارروائیاں اس دن سے مزیدزور پکڑ رہی ہیں جب یہودی انتہا
پسند تنظیموں نے اعلان کیا تھا کہ اب وہ مسجد اقصیٰ کے اندر مسلمانوں کو
مذہبی عبادات کرنے کی بجائے اپنا یہودی مذہبی تہوار”پاس اوورمیلہ“ جسے”بے
خمیری روٹی کی عید“ بھی کہا جاتا ہے،منائیں گے چنانچہ اس اعلان کے بعد
یہودیوں کی ایک بڑی تعداد نے مسجد اقصیٰ میں اس وقت داخل ہونے کی کوشش کی
جب وہاں مسلمان فلسطینی روزہ دار عبادات میں مشغول تھے۔
یہ ایک بہت بڑا حملہ تھا جوبیت المقدس میں باب المغاربہ کی سمت سے 85یہود
آباد کاروں کی انتہا پسند تنظیموں کی جانب سے کیا گیا تھا جسے فلسطینی
مسلمانوں نے بری طرح ناکام بنا دیا۔حملہ طے شدہ منصوبے کے مطابق کیا گیا
تھاجب اسرائیلی فورسز نے دیکھا کہ یہودی مسجد اقصیٰ کے اندر جانے میں ناکام
ہوچکے ہیں تو انھوں نے پوری طاقت کا مظاہرہ کرتے ہوئے فلسطینی روزہ داروں
پر آنسو گیس کے شیل،ربڑ کی گولیاں اور صوتی بم برسانے شروع کردیئے۔
اسرائیلی فورسز مسجد اقصیٰ کے اطراف عمارتوں پر چڑھ کربھی فلسطینیوں کو
گولیوں اور بموں سے نشانہ بناتے رہے۔فلسطینی خبر رساں ایجنسی ”دعا“ اور عرب
میڈیا کے مطابق اسرائیلی فورسز کی اس پرتشدد کارروائیوں کے نتیجہ میں 250سے
زائد فلسطینی زخمی ہوئے جبکہ 470سے زائد کو گرفتار کرلیا گیا۔
اسرائیلی فورسز نے مسجد اقصیٰ کے کمپاونڈ کو خالی کروانے کے بعد مسجد کے
دراوزے بند کردیئے اور اطراف کی عمارتوں پر اپنے فوجی تعینات کردیئے بعد
میں اسرائیلی حکام نے مغربی کنارے اور بیت المقدس جانے والی گذرگاہوں کو
بند کرنے کا اعلان کردیا۔یہ پابندی صرف اور صرف مسلمانوں کو مسجد اقصیٰ
جانے سے روکنے کے لئے لگائی گئی تھی اس کے باوجود پچاس ہزار فلسطینی،قابض
فوج کی گولیوں کے سائے میں قبلہ اول پہنچ گئے اوراسرائیلی جارحیت کے خلاف
احتجاج کرتے ہوئے عرب ممالک، اسلامی تنظیموں اور عالمی برادری سے مطالبہ
کیا کہ وہ انتہا پسند یہودی تنظیموں اور اسرائیلی فورسز کی ظالمانہ
کارروائیاں بند کروائیں۔اسرائیلی فورسز کی ظالمانہ کارروائیوں پر پاکستان
سمیت سعودی عرب،ترکی،ایران،افغانستان،اردن سمیت دیگر اسلامی ممالک نے
پُرزور مذمت کی ہے۔
وزیر اعظم محمد شہباز شریف نے سماجی رابطے کی ویب سائٹ پر اپنے پیغام میں
مسجد اقصیٰ پر حملہ کی مذمت کرتے ہوئے پر تشدد کارروائیوں میں اضافہ کو
انسانی حقوق کی سنگین خلاف ورزی قرار دیا ہے۔فلسطینی ایوان صدر کے سرکاری
ترجمان نبیل ابورودینہ نے بھی خبردار کرتے ہوئے کہا ہے کہ اسرائیلی فوج کا
مسجد اقصیٰ میں اس طرح داخل ہوکر حملہ کرنا نہ صرف خطرناک پیش رفت ہے بلکہ
مقامات مقدسہ کی بے حرمتی بھی ہے،یہ ہمارے فلسطینی عوام کے ساتھ اعلان جنگ
کے مترادف ہے۔ادھر یروشلم کے وکلاء کی ایک ٹیم نے مسجد اقصیٰ کے اندر سے
گرفتار کئے گئے چار سو سے زائد فلسطینی مسلمانوں کا کیس لڑنے کا اعلان کیا
ہے۔
یاد رہے پچھلے سال بھی رمضان المبارک کے مہینہ میں اسرائیلی فورسز نے ایسی
ہی بہیمانہ کارروائی کی تھی جس کے نتیجہ میں اسرائیلیوں اور فلسطینیوں کے
درمیان گیارہ دن تک شدید چھڑپیں جاری رہیں۔اسرائیلی فورسز نے پچھلے سال
جمعۃ الوداع کے روز مسجد اقصیٰ میں نمازیوں پر حملہ کرکے گیارہ فلسطینی
مسلمانوں کو شہید کردیا تھا اس سال بھی اسی طرح کی خونریزی کا خدشہ ہے۔
فلسطینی صحافیوں نے جب اسرائیلی فورسز کی بربریت پر مبنی حقائق دنیا کے
سامنے پیش کئے تو انھیں بھی شدید تشدد کا نشانہ بنایا گیا۔
صحافیوں کی بین الاقوامی کمیٹی ”جرنلسٹ سپورٹ کمیٹی“نے اپنی ایک رپورٹ میں
انکشاف کیا ہے کہ اسرائیلی فوج نے گذشتہ برس کے دوران تقریبا 280 سے زائد
فلسطینی صحافیوں کو رپورٹنگ کرنے پر غیر ممنوعہ ہتھیاروں سے حملے کرکے زخمی
کردیا تھا۔اسلامی ممالک کی تنظیموں،اقوام متحدہ اور عالمی برادری کو چاہیئے
کہ وہ بے گناہ فلسطینی مسلمانوں کی جانوں کے تحفظ کے لئے فوری اقدامات کرے
کیونکہ مسجد اقصیٰ صرف فلسطین کا مسئلہ نہیں بلکہ انسانی حقوق کے علمبردار
وں کے لئے بھی ایک بہت بڑا لمحہ فکریہ ہے۔
|